مہاجنی سود اور کمرشل بینکوں میں سود کا فرق
FQ19-Usury Mahajan Sood & Banking Commercial Interest
اسلامی بینکنگ میں اختلافات ۔۔۔ لیزنگ، مارٹگیج اور مرابحہ
FQ20-Financial Investment in Banking – Leasing Mortgage & Murabaha
اس آرٹیکل کا مقصد یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کے ان ارشادات کو اکٹھا کر لیں، جن کا تعلق سود سے ہے۔ اسی طرح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو ایک نظر دیکھ لیا جائے تاکہ یہ معلوم ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے میں کیا عمل کیا تھا؟ ارشاد باری تعالی نے مکہ مکرمہ کے زمانے میں ارشاد فرمایا۔
فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ. وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ۔
سو رزق میں کشادگی ہو تو قرابت مند ،مسکین اور مسافر کو اُس کاحق دو۔ یہ اُن کے لیے بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اوروہی آخرت میں فلاح پانے والے ہیں۔ یہ سودی قرض جوتم اِس لیے دیتے ہو کہ دوسروں کے مال میں شامل ہو کر بڑھے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا اور جو صدقہ تم دیتے ہو کہ اُس سے اللہ کی رضا چاہتے ہو تو اُسی کے دینے والے ہیں جو اللہ کے ہاں اپنا مال بڑھا رہے ہیں۔
[الروم [38-39
(Interested on a Loan)
قرآن،-تورات-اور-حدیث-میں-دور-جدید-انوسٹمنٹ-سے-متعلق-احکاماتاس کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکومت مل گئی تو پھر ارشاد فرمایا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ. َأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔
اہل ایمان! یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے خبردار رہو تا کہ تم فلاح پاؤ اور اُس آگ سے بچو جو منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ اللہ اور اُس کے رسول کے فرمانبردار رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
[آل عمران [130-132
اس کے بعد مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکومت مل گئی تو پھر آپ نے عملاً اللہ تعالی کے اجتماعی معاملات کو قانونی شکل میں لے آئے۔ مکہ مکرمہ اور پورا عرب جب فتح ہو گیا تو اللہ تعالی نے یہ احکامات فرمائے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری حج میں اعلان فرمایا۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ . يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ. وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ. وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ۔
اِس کے برخلاف جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت میں اٹھیں گے تو بالکل اُس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیاہو۔یہ اِس لیے کہ انہوں نے کہا ہے : بزنس بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بزنس کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ نے اُسے حرام ٹھیرایا ہے، لہٰذا جسے اُس کے رب کی تنبیہ پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا، سو لے چکا ، اُس کے خلاف کوئی حکومتی ایکشن نہ ہو گا اور اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جو اِس تنبیہ کے بعد بھی اِس کا اعادہ کریں گے تو وہ دوزخ کے لوگ ہیں ، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اُس دن اللہ سود کو مٹا دے گا اور خیرات کو بڑھائے گا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی ناشکرے اور کسی حق تلفی کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔ ہاں ، جو لوگ ایمان لائے ، انہوں نے نیک عمل کیے ، نماز کا اہتمام کیا اور زکوٰۃ ادا کی ، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور وہاں اُن کے لیے کوئی اندیشہ نہ ہو گااور نہ وہ کوئی غم کبھی کھائیں گے۔
اہل ایمان! اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے خبردار رہو اور جتنا سود باقی رہ گیا ہے ، اُسے چھوڑ دو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اوراُس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ، اور اگر توبہ کر لو توتمہاری اصل رقم کا تمہیں حق ہے ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو گے ، نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ اور مقروض کبھی تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو اور اگر تم بخش دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے ، اگر تم سمجھتے ہو۔ اور اُس دن سے ڈرو، جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ پھر ہر شخص کو اُس کی کمائی وہاں پوری مل جائے گی اور لوگوں پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔
[البقرة [275-281
مدینہ منورہ ہی میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ اہل کتاب سے ہوا تو اللہ تعالی کے بارے میں تبصرہ عنایت فرمایا۔
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ كَثِيرًا. وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۚ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا. لَٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا۔
پھر اِن یہودی لیڈرز کے ظلم ہی کی وجہ سے ہم نے ایسی پاکیزہ چیزیں بھی اِن پر حرام کر دی تھیں جو اِن کے لیے حلال تھیں اور اِس وجہ سے کہ یہ اللہ کی راہ سے بہت روکتے رہے ہیں اور اِس وجہ سے کہ سود لیتے رہے ہیں، درانحالیکہ انہیں اِس سے روکا گیا تھا اور اِس وجہ سے کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے رہے ہیں، اور یہ انہی کے منکرین ہیں جن کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اِن میں سے، البتہ اہل کتاب کے جو علم میں پختہ ہیں اور جو ایمان والے ہیں، وہ اُس چیز قرآن کو مانتے ہیں جو آپ کی طرف اتاری گئی، جو آپ سے پہلے اتاری گئی ہے اور خاص کر نماز کا اہتمام کرنے والے ہیں، زکوٰۃ دینے والے اور اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں ہم عنقریب اجر عظیم عطا فرمائیں گے۔
[النساء [160-162
اللہ تعالی نے تورات میں وہی احکامات دیے تھے جو کہ قرآن مجید میں ہیں۔ اس میں آپ بائبل کے چند احکامات کا مطالعہ کر لیجیے جس میں فرمایا۔
اگر میرے لوگوں میں سے کوئی غریب ہو اور تم اسے قرض دو تو اس رقم کے لیے تمہیں سود نہیں لینا چاہیے۔ اگر تم کسی شخص کا جبہ جیکٹ قرض گروی رکھتے ہو تو اسے اس کا جبہ سورج ڈوبنے سے پہلے واپس کر دو۔ کیونکہ اگر وہ آدمی اپنا جبہ نہیں پائے تو اس کے پاس تن ڈھانکنے کو کچھ بھی نہیں رہے گا۔ جب وہ سوئے گا تو اسے سردی لگے کی۔ اگر وہ مجھے رو کر پکارے گا تو میں اس کی سنوں گا۔ میں اس کی بات سنوں گا کیونکہ میں رحم دل ہوں۔ خروج 25-27
کسی شخص سے اس قرض پر جو کہ تم سے لیا ہے، کسی بھی طرح کا سود مت لو۔ یہ دیکھاتا ہے کہ تم اپنے خدا کا خوف کرتے ہو اور اپنے بھائی کو اپنے ساتھ جینے دو۔ اسے سود پر پیسہ ادھار مت دو، جو کھانا وہ کھائے اس سے نفع مت لو۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں جو تم کو ملک کنعان فلسطین دینے کے لیے اور تمہارا خدا بنے رہنے کے لیے ملک مصر سے باہر لایا۔ احبار 37-38
اگر تم کسی اسرائیلی کو کچھ ادھار دو تو تم اس پر سود نہ لو۔ تم پیسوں پر، کھانے کی چیزوں پر یا کوئی ایسی چیز جس پر سود لیا جا سکے، سود نہ لو۔ استثنا 23:19
اب ہم کچھ احادیث کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں سود کا ذکر آیا ہے۔ تورات اور قرآن مجید میں جو احکامات ہیں، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف صورتحال میں عمل اس طرح سے کروایا۔ چند احادیث یہ ہیں۔
ومن أشهر الحديث في تحريم الربا ما رواه البخاري ومسلم وأصحاب السنن عن عمر بن الخطاب – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «الذهب بالورق ربا، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا، إلا هاء وهاء.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سونے کے بدلے قرض میں چاندی سود ہے سوائے اس کے کہ وہ فوراً دی جائے۔ اسی طرح گندم کے بدلے قرض میں سود ہے لیکن اگر فوراً ادا کر دی جائے تو سود نہیں ہے۔ اسی طرح جو کے بدلے جو اور کھجور کے بدلے کھجور قرض میں سود ہوتا ہے لیکن فوراً ادا کر دی جائے تو پھر سود نہیں ہے۔
بخاری ، کتاب البیوع، 2054 اور مسلم 1952
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا هُنَّ قَالَ الشِّرْكُ بِاللَّهِ وَالسِّحْرُ وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَكْلُ الرِّبَا وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان سات امور سے اجتناب کریں۔
لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا ہیں؟
۔۔۔۔ فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔
۔۔۔۔ جادو ٹونا۔
۔۔۔۔ انسان کو قتل کرنا جسے اللہ تعالی نے حرام کر دیا ہے سوائے اس کہ قانونی طریقے کے مطابق جرم کے طور پر۔
۔۔۔۔ سود کھانا۔
۔۔۔۔ یتیم کے مال کو کھانا۔
۔۔۔۔ جنگ کے دن بھاگنا۔
پاکیزہ مومن خواتین جنہیں علم نہ ہو، ان پر تہمت لگانا۔
بخاری 1018، مسلم، النسائی، ابو داؤد
عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ۔
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کی ٹرازیکشن کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔
سود کھانے والے
سود کی مارکیٹنگ کا ایجنٹ
سود کا معاہدہ لکھنے والا اور
گواہ۔ فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔
مسلم 1598، احمد بن حنبل
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى أَرْضٍ مُقَدَّسَةٍ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ وَعَلَى وَسَطِ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا فَقَالَ الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُ الرِّبَا۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا۔ اس پر احتیاط کرو کہ رات میں دو افراد مقدس علاقہ فلسطین میں کشتی میں شامل ہوئے اور دریا کے عین درمیان میں پہنچ گئے تو ایک شخص دریا سے نکلنا چاہتا ہے تو دوسرے نے پتھر دریا میں پھینک دیا۔ پھر اس نے دوبارہ پتھر دریا میں پھینکا پانی اونچا ہو گیا اور لوگ ڈوبنے لگے۔ پھر اس نے کہا: دریا سے جیسا تیزی سے پانی آیا ہے، بالکل سود بھی اسی طرح ہے۔
بخاری کتاب التعبیر 7047۔ مسلم، ترمذی، احمد
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا بِقَوْلِهِ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ فَلَا يَأْخُذْهَ۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو بھائی اختلاف کے معاملے میں مقدمہ کرتے میرے پاس آئے تو میں نے ایک بھائی کے بارے میں فیصلہ کرنے لگا۔ پھر اسی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اگر یہ زمین تمہاری نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے آگ ہے۔ اس لیے تم نہ لینا۔
بخاری کتاب المظالم 2458۔ مسلم، النسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد، مالک
حديث عبدالله بن حنظلة غسيل الملائكة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: درهم من ربا يأكله الرجل وهو يعلم أشد من ست وثلاثين زنية؛ رواه أحمد.
عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہ عنہ جنہیں فرشتوں نے نہایا تھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اگر جان بوجھ کر سود کے ذریعے درہم کما لے تو اس کا گناہ اس سے کہیں زیادہ بڑا ہے جیسے 36 مرتبہ بدکاری کر لے۔ احمد بن حنبل 21482
سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ نے طویل حدیث بیان فرمائی کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اگلے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات ہو گی تو آپ سے درخواست کریں گے کہ آپ ہمارے لیے دعا کریں۔ پھر سمرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ نے خواب میں کچھ دیکھا ہو تو بتائیے گا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ماشاء اللہ۔ پھر اگلے دن پوچھا کہ کیا آپ نے کوئی خواب دیکھا؟
آپ نے فرمایا: ہاں میں نے رات میں خواب دیکھا کہ دو افراد آئے اور انہوں نے میرے ہاتھ پکڑ کر زمین کے پاس لے آئے۔ پھر ہم نے ایک شخص کو دیکھا جس کے سر کو (فرشتوں نے پکڑا اور اپنے ہاتھ سے لوہے سے مارا ۔ پھر اسی طرح سختی سے مارا اور اس کے بعد وہ پھر ٹھیک ہو گیا۔ پھر ہم خون کی نہر کے پاس پہنچ گئے تو یہاں ایک شخص نہر میں تھا اور دوسرا شخص یعنی فرشتہ پتھر پکڑ کر کھڑا تھا۔ پھر جب نہر سے پہلا شخص نکلنا چاہتا تو باہر والا شخص اسے پتھر مار کر اسے واپس وہیں دھکیل دیتا۔ پھر میں نے پوچھا کہ ان کا کیا معاملہ ہے؟
ان فرشتوں نے جواب دیا: ایک شخص جس پر لوہا مارا جا رہا تھا وہ مسلسل جھوٹ بولتا رہتا تھا۔ اس لیے اس کی سزا یہی ہے کہ وہ مسلسل قیامت تک جھوٹ بولتا رہے گا اور اسے سزا ملتی جائے گی۔ اسی طرح دوسرا خون کی نہر میں پھنسا ہوا وہ شخص تھا جو مسلسل سود کماتا رہتا تھا۔ بخاری اہل الکبائر 7047
حجۃ الوداع میں خطبہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاہلیت والے سود کے معاہدے غیر قانونی ہو گئی ہیں اور اس کے لیے سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب کے معاہدوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ مسلم1218 ، خطبہ الوداع
اس حدیث سے یہ واضح ہے کہ بہت سے لوگ انوسٹمنٹ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو رقم دیتے تھے تاکہ اس میں وہ بزنس کریں اور اس کا کچھ حصہ سود کے طور پر مالک کو دے دیں ۔ جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ایکشن کے لیے اپنی فیملی سے اس معاہدوں کو ختم کر دیا۔
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضها على بعض، ولا تبيعوا منها غائبا بناجز۔
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا سونے کے بدلے اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھنا۔ چاندی کو چاندی کے بدلے میں اس وقت تک نہ بیچو جب تک دونوں طرف سے برابر برابر نہ ہو۔ دونوں طرف سے کسی کمی یا زیادتی کو روا نہ رکھنا اور نہ ادھار کو نقد کے بدلے میں بیچو۔
بخاری کتاب البیوع ، حدیث 2177
ما روى عثمان بن عفّان أنّ رسول اللّه قال: لا تبيعوا الدّينار بالدّينارين ولا الدّرهم بالدّرهمين۔
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا: یہ ٹرازیکشن نہ کرو کہ دینار کے بدلے زیادہ دینار لینا اور اسی طرح درہم کے بدلے زیادہ درہم لینا۔ مسلم 1488
ما رواه البخاري ومسلم وأصحاب السنن عن عمر بن الخطاب – رضي الله عنه – قال: قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: «الذهب بالورق ربا،، إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا، إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا، إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا، إلا هاء وهاء۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سونے کے بدلے قرض میں چاندی لینا سود بن سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اسی وقت ادا کر دی جائے۔ اسی طرح گندم کے بدلے گندم میں قرض کے طور پر سود ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ اسے اسی وقت ادا کر دیا جائے۔ اسی طرح جوٗ کے بدلے جوٗ اور کھجور کے بدلے کھجور قرض میں سود ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ فوراً اسی وقت ادا کر دیا جائے۔
بخاری کتاب البیوع 1586، مسلم
وعن عليّ بن أبي طالبٍ رضي الله عنه قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: »الدّينار بالدّينار والدّرهم بالدّرهم، لا فضل بينهما، فمن كانت له حاجة بورقٍ، فليصرفها بذهبٍ، ومن كانت له حاجة بذهبٍ فليصرفها بورقٍ، والصّرف هاء وهاء۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سونے کے عوض سونا اور چاندی کے بدلے چاندی میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کو چاندی کی ضرورت ہو اور وہ سونا ادا کر دے یا اسی طرح کسی کو سونے کی ضرورت ہو اور وہ چاندی ادا کر دے تو اسے اسی وقت ادا کر دینا چاہیے ورنہ قرض کی صورت میں سود بن سکتا ہے۔ بخاری کتاب البیوع
وما روى عبادة بن الصّامت رضي الله عنه قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: »الذّهب بالذّهب، والفضّة بالفضّة، والبرّ بالبرّ، والشّعير بالشّعير، والتّمر بالتّمر، والملح بالملح، مثلاً بمثلٍ، سواءً بسواءٍ، يدًا بيدٍ، فإذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يداً بيدٍ۔
عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، جو کے بدلے جو، کھجور کے بدلے کھجور، نمک کے بدلے نمک بالکل برابر ہونا چاہیے اور اسی وقت ہاتھوں میں ادا کر دینا چاہیے۔ اگر ان اشیاء میں کوالٹی کا فرق ہو تو پھر اسی وقت ادا کر دینا چاہیے۔ مسلم1587، مولاء امام مالک
وفي حديث أبي هريرة وأبي سعيدٍ الخدريّ »أنّ رسول اللّه صلى الله عليه وسلم بعث أخا بني عديٍّ الأنصاريّ فاستعمله على خيبر، فقدم بتمرٍ جنيبٍ، فقال له رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: أكلّ تمر خيبر هكذا ؟ قال: لا، واللّه، يا رسول اللّه، إنّا لنشتري الصّاع بالصّاعين من الجمع. فقال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: لا تفعلوا،ولكن مثلاً بمثلٍ، أو بيعوا هذا واشتروا بثمنه من هذا، وكذلك الميزان۔
ابوہریرہ اور سعید الخدری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنی عدی انصاری کے شخص کو خیبر کے لیے ذمہ دار بنا کر بھیجا تو وہ کھجور لے کر واپس آئیں۔ انہوں نے بعد عمدہ کھجوریں لے کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ آپ نے خیبر میں اسی طرح کی کچھ کھجوریں لے لیں؟
انہوں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! اللہ تعالی کی قسم، میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہاں سے کچھ اچھی کوالٹی کی کھجوریں خریدیں۔ اس کے لیے میں نے یہ کیا دوبوریاں جو اچھی کوالٹی کی نہ تھی بیچ کر ایک بوری کی کھجوریں لے لیں جس کی کوالٹی زیادہ اچھی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیجیے گا بلکہ بدلے کے بدلے اسی کوالٹی کو برابر لیا کریں۔ اگر کوالٹی اچھی نہ ہو تو اسے بیچ کر کیش لے لیا کریں اور پھر اسی کیش سے اچھی کوالٹی کی اشیاء کو خرید لیا کریں۔ مسلم، باب الطعام، 3084
ان احادیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے زمانے کی ایسی ٹرازیکشنز کو منع فرمایا جن میں سود کا خطرہ لگ سکتا ہو۔ انہی احادیث کو اگر آپ انہی کتابوں میں پڑھنا چاہیں تو آپ پڑھ سکتے ہیں۔ ابھی تک حدیث سافٹ ویئر میں ایسا سٹینڈرڈ نمبر نہیں ہوا ہے۔ اس میں میں نے جو نمبر لکھے ہیں، اگر آپ کو وہ حدیث نہ ملے تو آپ اس کے آگے پیچھے چیک کر لیجیے تاکہ آپ کو وہ حدیث مل جائے۔ عین ممکن ہے کہ آپ کے پاس وہی کتاب کسی اور پبلشر کی ہو، تو اس میں نمبر کچھ مختلف ہوں۔
اسلامی بینکنگ اور انشورنس سے متعلق ماڈلز
اس باب میں ہم اسلامی بینکنگ اور انشورنس سے متعلق اختلافی مسائل کا جائزہ لیں گے۔ اس ضمن میں سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا اسلامی بینکنگ عملاً ممکن ہے؟ دوسرا سوال اسلامی بینکنگ کی بعض پراڈکٹس خاص کر لیزنگ اور مرابحہ سے متعلق ہے۔ تیسرا سوال انشورنس کے بارے میں ہے۔ اس میں مختلف اسکالرز نے اس پر کام کیا ہے۔ ہم بغیر کسی تعصب کے ان کا نقطہ نظر اور دلائل پیش کر دیں گے تاکہ اس کی ریسرچ کی تفصیل سامنے آ جائے۔
کیا اسلامی بینکنگ ممکن ہے؟
مغربی قوتوں نے جب مسلم دنیا پر قبضہ کیا تو انہوں نے اپنے مفادات کے تحت اسی سرمایہ دارانہ نظام کو یہاں بھی فروغ دیا جو کہ یورپ میں رائج تھا۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد سود پر تھی۔ جب مسلم ممالک کو آزادی ملی تو یہ نظام جوں کا توں قائم رہا۔ مذہبی حلقوں اور مذہب پر عمل کرنے والے عام لوگوں کی جانب سے یہ مطالبہ پیش ہوا کہ معیشت کو سود سے پاک کیا جائے اور خالص اسلامی اصولوں پر استوار کیا جائے۔ یہ مطالبہ ان ممالک میں خاص اہمیت اختیار کر گیا جو ریاستی سطح پر یہ تسلیم کرتے تھے کہ وہ اسلامی ملک ہیں۔ ان میں سعودی عرب، پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایران، بحرین، سوڈان، اور ملائشیا شامل تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ معیشت کو اسلامائز کیسے کیا جائے؟ عام علمائے دین کے لیے اس سوال کا جواب دینا ممکن نہ تھا کیونکہ ان کے نصاب تعلیم میں معاشیات کا مضمون ہی سرے سے نہ پڑھایا جاتا تھا۔ اصلاً یہ ماہرین اکانومسٹس کا کام تھا مگر ان کا مسئلہ یہ تھا کہ یہ عام طور پر علوم دینیہ اور دین کے مزاج سے نابلد تھے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ایسے ماہرین کی ضرورت تھی جو ایک طرف جدید معاشی نظریات سے بھی واقف ہوں اور دوسری جانب دین کا گہرا فہم رکھتے ہوں۔
معیشت کو اسلامائز کرنے کے عمل میں سب سے بڑا سوال بلا سود بینکاری کا تھا۔ دین پر عمل کرنے والے افراد کی جانب سے مسلم دنیا میں ایک زبردست ڈیمانڈ پیدا ہوئی کہ وہ بلا سود بینکاری چاہتے ہیں۔ یہ ڈیمانڈ اتنی بڑی تھی کہ اس نے بینکوں کے مالکان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ غیر سودی یا اسلامی بینک قائم کریں تاکہ اس ڈیمانڈ کو پورا کیا جا سکے۔ ایک طرف دینی جذبہ اور دوسری جانب اسلامی بینکوں کی ڈیمانڈ نے اسلامی بینکاری کو جنم دیا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلامی معاشیات بالخصوص اسلامی بینکنگ پر بہت سا لٹریچر تیار ہو چکا ہے۔
معاشیات دان علما کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلامی بینکنگ ممکن ہے اور معیشت کو اسلامائز کرنے کے عمل میں یہ بہت ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے ایک اقلیتی گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بینکنگ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایسی چیز ہے جسے اسلامائز کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسلامی بینکنگ کو ناممکن قرار دینے والوں کے دلائل
اسلامی بینکنگ کو ناممکن قرار دینے والوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جیسے سود، بدکاری، عصمت فروشی، قتل وغیرہ کو کسی بھی صورت میں اسلامائز نہیں کیا جا سکتا ہے، ویسے ہی بینکنگ کو اسلامائز کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بینکنگ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایسا ادارہ ہے جو غریبوں کا خون چوس چوس کر امیروں کی تجوریاں بھرتا ہے۔ اپنے نقطہ نظر کے حق میں وہ بینکاری نظام کے پراسس کو بطوردلیل پیش کرتے ہیں۔
کسی معاشرے میں بے شمار افراد ایسے ہوتے ہیں جو اپنی آمدنی میں سے تھوڑی تھوڑی رقم بچا لیتے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کی رقم محفوظ رہے۔ اس کے لیے انہیں کسی ایسے ادارے کی ضرورت ہوتی ہےجہاں وہ اپنی رقم کو محفوظ طریقے پر رکھ سکیں۔ دوسری جانب اسی معاشرے میں ایسے بہت سے کاروباری افراد ہوتے ہیں جنہیں کاروبار کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے مگر مختلف وجوہات کی بنیاد پر ان کے پاس موجود سرمایہ کافی نہیں ہوتا۔ انہیں اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے مزید سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان دونوں طبقات کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بینک کا ادارہ وجود میں آیا، جو ایک جانب عام لوگوں کی تھوڑی تھوڑی بچت کو اپنے پاس رکھتا ہے اور دوسری جانب یہی تھوڑی تھوڑی بچتیں جب مل کر بہت بڑی رقم میں تبدیل ہو جاتی ہیں تو انہیں کاروباری افراد کو ان کے سرمایے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے دے دیتا ہے۔
اس لین دین کی بنیاد سود پر ہے۔ بینک جن کاروباری افراد کو سرمایہ فراہم کرتا ہے، وہ ان سے سود وصول کرتا ہے اور اسی سود کا کچھ حصہ ان عام لوگوں میں تقسیم کر دیتا ہے جنہوں نے اپنی بچتیں بینک کے پاس رکھی ہوتی ہیں۔ فرض کیجیے کہ اگر بینک کاروباری افراد سے 10 فیصد سالانہ سود وصول کرتا ہے تو اس میں سے 6 فیصد وہ اپنے ڈیپازٹ ہولڈرز کو دے کر بقیہ 4 فیصد اپنے پاس رکھ لیتا ہے۔ اس رقم سے بینک اپنے اخراجات پورے کرتا ہے اور اس کے بعد جو رقم بچتی ہے، وہ بینک کے مالکان کا منافع ہوتی ہے۔
اس صورت کا عملی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک متوسط طبقے کا شخص اگر بڑی مشکل 1000 ڈالر بچا کر بینک میں رکھتا ہے تو اسے اس کے عوض چھ فیصد سالانہ کے حساب سے سال گزرنے کے بعد مشکل سے 60 ڈالر ملتے ہیں جو ماہانہ محض پانچ ڈالر کی معمولی سی رقم ہوتی ہے۔ دوسری جانب کاروباری افراد، جو پہلے ہی امیر ہوتے ہیں، اس کی رقم سے کاروبار کر کے بسا اوقات 50-60 فیصد منافع کماتے ہیں اور تھوڑی سی رقم بطور سود ادا کر کے بقیہ منافع اپنی جیب میں لے جاتے ہیں۔ یہ منافع کروڑوں اربوں میں ہوتا ہے۔ اس رقم کا تھوڑا سا جو حصہ وہ ڈیپازٹ ہولڈرز عام لوگوں کو بطور سود دے دیتے ہیں اور پھر اس رقم کو بھی اپنی اشیاء کی قیمت میں شامل کر کے عام لوگوں سے وصول کر لیتے ہیں۔ اس طریقے سے امیر لوگ دوسروں کے پیسے پر اپنی دولت میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں جبکہ عام آدمی کو سرے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔
دوسری جانب بینک چونکہ بہت بڑے پیمانے پر کام کر رہا ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کا منافع بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ اگر بینک کے پاس 10,000,000,000 ڈالر بطور ڈیپازٹ موجود ہیں تو وہ اس پر چار فیصد سالانہ کے حساب سے 400,000,000 ڈالر وصول کرے گا اور اپنے اخراجات کو منہا کرنے کے بعد بھی کروڑوں ڈالر بینک کے مالک کی جیب میں جائیں گے۔ اس طریقے سے یہ واضح ہے کہ بینک کے مالکان اور کاروباری طبقہ اس لین دین سے امیر سے امیر تر اور امیر تر سے امیر ترین ہوتے چلے جاتے ہیں جبکہ ایک عام غریب یا متوسط آدمی وہیں رہتا ہے جہاں پر وہ پہلےسے موجود ہوتا ہے بلکہ افراط زر انفلیشن کی وجہ سے اس کی اصل رقم سکڑتی چلی جاتی ہے اور وہ حقیقتاً غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ سود کے ذریعے اسے جو کچھ ملتا ہے، اسے امیر کاروباری حضرات اپنی اشیاء کی قیمتوں میں شامل کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ رقم بھی واپس انہی کی طرف چلی جاتی ہے۔
بینک کا یہ اصول ہے کہ وہ کبھی کسی غریب آدمی کو کاروبار کے لیے قرض نہیں دیتا بلکہ یہ قرض انہی افراد کو دیتا ہے جن سے واپسی کی امید ہو۔ اس کے لیے بینک یہ دیکھتا ہے کہ وہ جس شخص کو قرض دے رہا ہے، اس کی مالی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کے پاس کچھ ایسے ایسٹس موجود ہیں جنہیں وہ بینک کے پاس گروی رکھ سکے؟ اس طرح سے اس لین دین کا کوئی فائدہ کسی غریب شخص کو نہیں ہوتا ہے بلکہ سب کا سب فائدہ صرف امیر طبقے ہی کو ہوتا ہے۔ جو شخص جتنا امیر ہوتا ہے، وہ اتنی ہی آسانی سے بینک سے قرض حاصل کر لیتا ہے اور اس کو سود بھی کم شرح سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کو اول تو بینک سے قرض ملتا نہیں اور اگر ملتا ہے تو اس کی شرح سود اور زیادہ ہوا کرتی ہے۔
دنیا کے مختلف بینکوں کے اعداد و شمار کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ بینکوں کے قرضوں کا 95% حصہ انہی افراد کو دیا جاتا ہے جو کہ مالی طور پر پہلے ہی مضبوط ہیں۔ ایک ماہر معیشت کلارک کے الفاظ میں بینک سے 50,000 ڈالر کی بجائے 5,000,000 ڈالر بطور قرض لینا آسان ہوتا ہے کیونکہ بینک اسی پارٹی کو قرض دیتا ہے جو کہ پہلے ہی مالی اعتبار سے مضبوط ہوتی ہے۔ اگر بینک کبھی متوسط طبقے کو مائیکرو فائنانس کی صورت میں قرض دیتا بھی ہے تو اس پر شرح سود بہت زیادہ ہوتی ہے۔ متوسط طبقے کو دیے گئے قرضوں پر شرح سود بسا اوقات 35% سالانہ سے بھی زائد ہوتی ہے جبکہ امراء کو دیے گئے قرضوں کی شرح سود کبھی بھی 12-13% سے زائد نہیں ہوتی ہے۔ اس طرح سے بینک کو ان متوسط افراد سے ڈیفالٹ کا جو خطرہ ہوتا ہے، وہ اس نقصان کو انہی سے پورا کرتا ہے۔ گویا کنویں کی مٹی سے ہی کنویں کو بھر دیا جاتا ہے۔
اس تفصیل کی بنیاد پر اسلامی معیشت کے ان ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ بینک کبھی اسلامائز نہیں ہو سکتا ہے اور اس معاملے میں اسلامی بینک کہلانے والے بینک بھی کچھ مختلف نتائج پیدا نہیں کرتے ہیں۔ یہ بینک بھی غریبوں کی دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد ظہیر لکھتے ہیں۔
روایتی بینکنگ اسلام کے لیے بہت سی وجوہات کی بنیاد پر ناقابل قبول ہے۔ اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ان کے آپریشنز کا بنیادی حصہ سود ہے۔ چونکہ اسلام روایتی بینکنگ کو مسترد کرتا ہے، اس وجہ سے بہت سے مسلمانوں کے طرف سے بلا سود بینکاری کی صورت میں ایک پرجوش رد عمل پیش کیا گیا۔ چونکہ اس رد عمل کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ قانونی تعریف کے مطابق سود کو ختم کر دیا جائے [یعنی سود حقیقتاً موجود ہو مگر قانونی حیلے اختیار کر کے اس کا نام بدل دیا جائے،] اس وجہ سے یہ کمرشل بینکوں کی اصلاح کے عمل میں بینکنگ کے حقیقی مفاسد کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سے کہا جا سکتا ہے کہ [قانونی تعریف کے مطابق] سود جزوی طور پر ختم ہو گیا ہے۔
یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے لیے بلا سود بینکاری کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے کیونکہ روایتی بینکنگ کے خاتمے سے جو خلا پیدا ہو گا، اسے پر کرنا ناممکن کام ہو گا۔ یہ دعوی کم از کم تھیوری میں پیش کیے گئے ماڈلز کی حد تک غلط ہے۔
اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ مسلم ماہرین معیشت کو بلا سود بینکاری نہیں بلکہ بلا بینکاری معیشت کے ماڈل تیار کرنے پر کام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر خالد ظہیر نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں ایسا ہی ایک ماڈل پیش کیا ہے۔
اسلامی بینکنگ کو ممکن قرار دینے والوں کے دلائل
معاشیات دان علما کا اکثریتی گروہ اس بات کا قائل ہے کہ ایسی صورتیں ممکن ہیں جن کے تحت اسلامی اصولوں کے تحت بینکنگ کی جا سکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی اسلامی بینک قائم کیا جائے تو اس میں ایک جانب ڈیپازٹ ہولڈرز اور بینک اور دوسری جانب بینک اور کاروباری افراد کے درمیان لین دین کی صورت کیا ہو گی؟ کیا سود کا کوئی متبادل موجود ہے؟ کیا کوئی ایسا بینک قائم کرنا ممکن ہے جس کے لین دین کے نتیجے میں امیر آدمی، امیر ترین نہ بنے اور غریب آدمی غریب تر نہ ہو سکے۔
اسلامی بینکنگ کو ممکن قرار دینے والے اہل علم کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کاروبار کو فائنانس کرنے کے ایسے بہت سے طریقے ہیں جو کہ شریعت کی رو سے جائز ہیں۔ ان میں سے اہم طریقے یہ ہیں:
۔۔۔۔۔ مضاربت: مضاربہ یا مضاربت کا مطلب یہ ہے کہ دو افراد اس طرح سے کاروبار کریں کہ ایک شخص روپیہ لگائے اور دوسرا اس سے کاروبار کرے۔ اس کے بعد جو نفع ہو، اسے آپس میں تقسیم کر لیا جائے اور اگر کاروبار کرنے والے کی غلطی سے ہٹ کر کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں نقصان ہو تو اسے سرمایہ لگانے والا برداشت کرے۔
۔۔۔۔۔ مشارکہ : مشارکہ کا مطلب یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں روپیہ بھی لگائیں اور نفع و نقصان میں شریک بھی ہوں۔ نفع کو طے شدہ پرسنٹیج سے تقسیم کر لیا جائے جبکہ نقصان کو سرمایے کے تناسب سے تقسیم کیا جائے۔ گویا کہ زیادہ سرمایہ لگانے والا زیادہ نقصان برداشت کرے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی چیز جیسے گھر یا گاڑی خریدنی ہے مگر اس کے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے تو بینک وہ چیز خرید کر اس کے حوالے کر دیتا ہے اور قسطوں میں اس سے قیمت وصول کر لیتا ہے۔ قسطوں کی صورت میں حاصل کی گئی رقم چیز کی اصل قیمت سے زیادہ ہوتی ہے۔
مرابحہ: مرابحہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی چیز جیسے صنعتی موادخریدنا ہو مگر اس کے پاس مطلوبہ رقم نہیں ہے تو بینک وہ چیز خرید کر اس شخص کو زیادہ قیمت پر ادھار فروخت کر دیتا ہے۔ ادھار کی قیمت ، اس چیز کی کیش قیمت سے زیادہ ہوتی ہے۔
(Raw Materials)
شروع میں اسلامی بینکنگ کے ان ماہرین نے مضاربہ اور مشارکہ کی صورت میں سودی بینکنگ کے متبادل پیش کیے تھے۔ بینکوں میں مضاربت و مشارکت کو دو جگہ پر اختیار کیا گیا۔
ایک ڈیپازٹ ہولڈر اور بینک کے درمیان جس میں ڈیپازٹ ہولڈر سرمایہ لگا رہا ہو اور بینک کاروبار کرے؛
دوسرے بینک اور کاروباری حضرات کے مابین جس میں بینک سرمایہ لگائے اور کاروباری شخص کاروبار کرے۔ بینک کو اس کاروبار میں جو منافع ملے، اس میں سے اپنا حصہ رکھ کر وہ بقیہ ڈیپازٹ ہولڈر کو ادا کر دے۔
اس مضاربت و مشارکت کو مسلم دنیا کے اہل علم نے بالاتفاق جائز قرار دیا۔
اس ماڈل کا بعض بینکوں میں جب تجربہ کیا گیا تو اس میں مسلمانوں کے اخلاقی انحطاط کے باعث ایک بڑا مسئلہ پیش آیا اور وہ یہ تھا کہ لوگ بینکوں سے قرض لے لیتے ہیں اور اس کے بعد اپنے اکاؤنٹس میں وہ مسلسل نقصان دکھانا شروع کر دیتے ہیں جبکہ حقیقتاً وہ نفع کما رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح سے ان کا منافع حقیقتاً دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہے اور بینک مسلسل نقصان میں جاتا ہے۔ بینکوں کے لیے رسک مینجمنٹ مشکل ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کا خمیازہ بعد میں ان لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے جنہوں نے اپنی رقم بینک میں رکھی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب بینک بہت ہی کم مضاربت اور مشارکت کے ماڈل پر عمل کر رہے ہیں۔ زیادہ تر اسلامی بینک لیزنگ اور مرابحہ کے طریقوں سے فائنانسنگ کر رہے ہیں جن کے بارے میں مسلم علما کے مابین اختلاف رائے ہے کہ وہ جائز بھی ہیں یا نہیں؟ ان پر تفصیلی بحث ہم آگے بیان کریں گے۔ مفتی محمد تقی عثمانی جو کہ اسلامی بینکنگ کے امکان کے قائل ہیں اور بہت سے اسلامی بینکوں کے شریعہ ایڈوائزری بورڈ کے ممبر رہے ہیں، بیان کرتے ہیں۔
جیسا کہ میں متعددتحریروں میں بیان کر چکا ہوں، سود ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں امیر کو فائدہ پہنچانے اور عام لوگوں کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا زبردست رجحان پایا جاتا ہے۔ امیر صنعت کار بینکوں سے ڈیپازٹ ہولڈرز کی بڑی بڑی رقمیں قرض لے لیتے ہیں اور اسے ڈھیروں منافع کماتے ہیں۔ یہ نفع کمانے کے بعد، وہ ڈیپازٹ ہولڈرز کو معمولی سے سود کی شکل میں ادائیگی کر دیتے ہیں اور پھر اس رقم کو بھی اپنی اشیاء کی قیمت میں شامل کر دیتے ہیں۔ اس طرح سے، وسیع مائیکرو لیول سے دیکھا جائے تو وہ ڈیپازٹ ہولڈرز کو کچھ بھی ادا نہیں کر رہے ہوتے۔ اگر بہت زیادہ نقصان ہو جائے تو وہ دیوالیہ قرار دیے جاتے ہیں [اور کچھ بھی ادا نہیں کرتے۔] اس کے نتیجے میں بینک بھی دیوالیہ ہو جاتا ہے اور تمام نقصان ڈیپازٹ ہولڈرز کو بھگتنا پڑتا ہے۔اس طریقے سے دولت کی تقسیم میں سود عدم برابری اور عدم توازن پیدا کرتا ہے۔
اس کے برعکس اسلامی فائنانس کا معاملہ ہے۔ شریعت کے نزدیک سب سے آئیڈیل ذریعہ مشارکت ہے جس میں نفع اور نقصان دونوں کو دونوں پارٹیاں مناسب شرح میں برداشت کرتی ہیں۔مشارکہ سے ڈیپازٹ ہولڈرز کو حقیقی نفع میں شرکت کے مواقع ملتے ہیں جو کہ عام حالات میں سود کی نسبت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ منافع کا تعین اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ متعلقہ اشیاء بک نہ جائیں ، اس وجہ سے سودی نظام کی طرح اس منافع کو قیمت کا حصہ بنا کر قیمت میں اضافہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔
یہ فلسفہ اس وقت تک حقیقت نہیں بن سکتا جب تک کہ اسلامی بینکوں میں مشارکہ کے استعمال میں اضافہ نہ کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ فائنانس کے طریقے کے طور پر مشارکت کے استعمال میں عملی مشکلات ہیں خاص کر اس ماحول میں جب اسلامی بینک ہر طرف سے کٹ کر بغیر حکومتی امداد کے کام کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلامی بینکوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ بتدریج مشارکہ فائنانسنگ کو بڑھائیں۔ بدقسمتی سے اسلامی بینکوں نے اسلامی بینکاری کے اس بنیادی مطالبے کو نظر انداز کر دیا ہے اور اس طریقے سے فائنانسنگ کی جانب کوئی پراگریس نظر نہیں آتی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ علما جو اسلامی بینکنگ کے امکان کے قائل ہیں، بھی اس بات سے متفق ہیں کہ موجودہ اسلامی بینکنگ بھی عملاً وہی نتائج پیدا کر رہی ہے جو کہ سودی بینک پیدا کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بھی امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے۔ لیکن وہ اس بات پر پر امید ہیں کہ بینک مشارکہ فائنانسنگ اگر شروع کر دیں تو اس کے نتیجے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کا اسلامی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔
کیا لیزنگ سود پر مبنی ہے؟
دور جدید میں لیزنگ کا رواج بہت عام ہو گیا ہے۔ تمام بینک، جن میں اسلامی بینک بھی شامل ہیں، بڑے پیمانے پر لیزنگ کر رہے ہیں۔ لیزنگ کی دو قسمیں ہیں: فائنانشل لیز اور آپریٹنگ لیز موخر الذکر عام کرایہ داری کا معاہدہ ہوتا ہے جس کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اصل اختلاف فائنانشل لیز پر ہے۔ اس کی وضاحت ہم ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں۔
فرض کیجیے کہ کسی شخص کو مثلاً ایک مکان رہنے کے لیے چاہیے۔ ابھی وہ کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسے طویل عرصہ تک ایک جانب اپنے مکان کے لیے بچت کرنا پڑے گی اور دوسری جانب وہ جس مکان میں رہ رہا ہے، اس کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا۔ عین ممکن ہے کہ اسے اس بچت میں ساری عمر لگ جائے اور جب اس کے پاس اتنی رقم ہو تو اس وقت مکانات کی قیمت کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ جدید مالیاتی اداروں نے اس مسئلہ کا حل یہ تلاش کیا ہے کہ بینک اس مکان کو خرید کر اس شخص کو رہنے کے لیے دے دے اور اپنی رقم اس شخص سے آسان قسطوں پر وصول کر لے۔ ان قسطوں کو کچھ اس طریقے سے ترتیب دیا جاتا ہے کہ کل ادا کی گئی رقم مکان کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہو جاتی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ اگر آپ آج ایک مکان پچاس لاکھ میں خریدتے ہیں تو قسطوں میں ادائیگی کی صورت میں آپ کو کل ستر لاکھ ادا کرنا پڑیں گے۔
علما کے مابین اس مسئلہ میں اختلاف رائے ہے کہ فائنانشل لیزنگ کی یہ شکل سود پر مبنی ہے یا نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ عام رجحان کے بالکل الٹ جدید تعلیم یافتہ علما اسے سود سمجھ کر حرام قرار دیتے ہیں اور روایت پسند علما اسے جائز سمجھتے ہیں۔ فریقین کے مابین اختلاف اس میں نہیں ہے کہ سود حرام ہے یا حلال بلکہ اختلاف اس امر پر ہے کہ قسطوں میں ادائیگی کی صورت میں اضافی رقم سود ہے یا نہیں۔ جن علما کے نزدیک یہ سود ہے، وہ اسے حرام سمجھتے ہیں اور جن علما کے نزدیک یہ سود نہیں ہے، وہ اسے جائز سمجھتے ہیں۔
جن علما کے نزدیک لیزنگ سود پر مبنی ہے، وہ اسے ادھار فروخت پر قیاس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے بیچنے والا یہ کہے کہ میں اپنا مال جیسے پانچ کلو گندم نقد پچاس روپے میں بیچوں گا مگر ادھار کی صورت میں ستر روپے لوں گا۔ یہ صورتحال اس سے مشابہ ہے کہ کوئی دوسرے کو پچاس روپے قرض دے کر واپسی میں اس سے ستر روپے وصول کرے۔ یہ قرض ہی کی ایک شکل ہے اور اس وجہ سے سود ہے۔
اس کے جواب میں لیزنگ کو سود نہ سمجھنے والوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ معاملہ ادھار پر فروخت سے بالکل مختلف ہے۔ اشیاء کی دو اقسام ہیں: ایک وہ اشیاء جو استعمال ہو کر ختم ہو جاتی ہیں، جیسے گندم، چاول، شکر، روپیہ وغیرہ۔ انہیں استہلاکی اشیاء کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے سے ایسی کوئی چیز ادھار لے لے تو وہ اسے استعمال کر کے ختم کر دے گا۔ پھر اسے واپس کرنے کے لیے دوبارہ اس چیز کو کما کر پورا کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں اگر اس پر اضافی رقم کی شرط لگائی جائے تو یہ اس پر ظلم ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے اس اضافی رقم کو حرام قرار دیا ہے اور یہی سود ہے۔
دوسری قسم کی اشیاء وہ ہیں جو استعمال ہونے پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ جوں کی توں برقرار رہتی ہیں جیسے مکان ، گاڑی وغیرہ۔ انہیں استعمالی اشیاء یا موجودات ثابتہ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے سے مکان کرائے پر لے تو اس کے رہنے سے مکان ختم نہ ہو جائے گا بلکہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ جب اسے مکان واپس کرنا ہو گا تو وہ باآسانی مکان واپس کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مکان کو استعمال کرنے کا جو معاوضہ وہ مالک مکان کو ادا کرے گا، وہ سود نہیں بلکہ کرایہ ہے اور امت کی غالب ترین اکثریت کے نزدیک کرایہ وصول کرنا جائز ہے۔ یہ معاملہ گاڑی ، مشینری، فیکٹری، فرنیچر اور اس قسم کی تمام اشیاء کا ہے۔
لیزنگ کے جواز کے قائلین کا کہنا یہ ہے کہ لیزنگ کرایہ داری کا معاہدہ ہے اور اس کا تعلق فکسڈ ایسٹس سے ہے۔ مکان کی قیمت اگر اب پچاس لاکھ ہے اور لیز پر مکان لینے والا قسطوں میں اس کی ادائیگی ستر لاکھ کر رہا ہے۔ تو اس صورت میں مکان کی قیمت تو وہی پچاس لاکھ ہے، اور اضافی رقم اس میں رہنے کا کرایہ ہے جو مالک مکان کو اس وجہ سے ادا کی جاتی ہے کہ مکان ابھی لیز پر لینے والے لیسرز کی ملکیت نہیں ہے۔
فرض کر لیجیے کہ اگر ایک شخص مکان لیز پر نہیں لیتا تو اسے طویل عرصہ تک بچت کر کے اتنی رقم اکٹھا کرنا ہو گی جس سے وہ مکان خرید لے اور اتنا عرصہ اسے اپنے موجودہ مکان کا کرایہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ اس صورت میں اسے ستر لاکھ کی بجائے ایک کروڑ روپیہ خرچ کرنا پڑے۔ دونوں صورتوں میں سے کس صورت میں اس کا نقصان ہے: بچت کر کے مکان خریدنے اور ساتھ کرایہ ادا کرنے میں یا پھر قسطوں میں مکان خریدنے میں جس میں کرایہ بھی ادا ہوتا رہے اور مکان کی اصل قیمت بھی ادا ہوتی رہے؟
لیزنگ کو حرام سمجھنے والے علما یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لیز پر مکان یا گاڑی لینے والا مالی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے اور قسطوں کی بروقت ادائیگی نہیں کر پاتا۔ اس صورت میں بینک اس سے مکان خالی کروا کر اسے در بدر کر دیتا ہے۔ یہ صورت صریحاً ظلم پر مبنی ہے۔ اس کے جواب میں لیزنگ کو جائز سمجھنے والے علما کہتے ہیں کہ وہ مانتے ہیں کہ یہ ظلم ہے۔ اس کا حل بعض جدید اداروں میں یہ نکالا گیا ہے کہ لیز پر مکان یا گاڑی لینے والے افراد لیسر کی انشورنس ہوتی ہے۔ اگر لیسر فوت ہو جائے یا کسی حادثے کے باعث معذور ہو جائے یا پھر کسی وجہ سے نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے تو اس کی بقیہ اقساط معاف ہو جاتی ہیں۔ اس طریقے سے اس ظلم کا خاتمہ ممکن ہے۔
فائنانشل لیزنگ پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ گھر کی صورت میں وہ کرایہ اتنا زیادہ کر دیا جاتا ہے کہ اس سے لیسرز پر زیادہ رقم دینی پڑتی ہے۔ فرض کر لیجیے کہ ایک گھر کی قیمت Rs. 10,000,000 کا ہے۔ بینک اپنے لیسر کو کہتا ہے کہ آپ یہی ایک کروڑ روپے کی قیمت آپ دس سال تک ادا کریں۔ اس میں آپ قسطوں کے اعتبار سے ہر ماہ آپ کو Rs. 83,333 ادا کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ آپ ہر ماہ کرایہ Rs. 40,000 بھی ادا کرتے رہیں۔ ان سب کو اکٹھا کر لیں تو اس لیسر کو پورا کرایہ دس سال میں بن کر Rs. 4,800,000 ہو جائے گا۔ اس اعتراض کا حل ملیشیا اور سعودی عرب کی لیزنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ ہر ماہ کوئی لیسر جتنی قسط ادا کرے، وہ اتنے فیصد مالک بن گیا۔ اس سے یہ ہو گا کہ ہر ماہ وہ ادا کرے گا تو اس کا کرایہ ہر مہینے کم ہوتا چلا جائے گا کیونکہ اب وہ مالک بن رہا ہے۔ اوپر بیان کردہ مثال سے دیکھیے کہ اگر پہلے مہینے اس نے گھر کی اصل قیمت کی قسط Rs. 83,333 دی اور کرایہ Rs. 40,000 دیا ۔ اب اگلے ماہ، اس کا کرایہ کم ہو کر Rs. 39,667 ادا کرے گا۔ تیسرے ماہ میں یہ کرایہ کم ہو کر 39,333 بنے گا اور پھر اگلے ماہ یہی رقم کم ہوتی چلی جائے گی۔ آخری سال تک تو یہ کرایا بس Rs. 2,333 رہ جائے گا۔ اس طرح یہ لیزنگ کمپنیاں یا بینک کہتے ہیں کہ اس میں کسی کا بھی استحصال نہیں ہے۔
کیا مرابحہ فائنانسنگ سود پر مبنی ہے؟
موجودہ دور میں اسلامی کہلانے والے بینک عام طور پر دو ہی قسم کی فائنانسنگ کر رہے ہیں: موجودات ثابتہ فکزڈ ایسٹس جیسے مکان، گاڑی، مشینری وغیرہ کے لیے لیزنگ اور استعمال ہو کر ختم ہو جانے والی اشیاء کنزیوم ایبل کے لیے مرابحہ۔ لیزنگ سے متعلق ہم اوپر بحث کر چکے ہیں۔ یہاں ہم مرابحہ فائنانسنگ کے بارے میں بھی مختلف فریقوں کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا مطالعہ کریں گے تاکہ اسلامی بینکنگ سے متعلق بحث کا تقابلی مطالعہ مکمل ہو جائے۔ مرابحہ کا مطلب ہم ایک مثال سے واضح کرتے ہیں۔ فرض کیجیے ایک کمپنی کو اپنی فیکٹری کو خام مال مثلاً کپاس خریدنی ہے۔ کپاس کی قیمت مارکیٹ میں 500 روپے کلو ہے اور کمپنی کو ایک لاکھ کلو کپاس درکار ہے۔ اس طرح اس کی قیمت پانچ کروڑ روپے بنے گی۔ کمپنی کے پاس یہ رقم نہیں ہے اور وہ کسی بینک سے یہ درخواست کرتی ہے کہ اسے یہ رقم فراہم کی جائے۔ بینک مارکیٹ سے پانچ کروڑ کی کپاس کیش پر خرید کر اسے ساڑھے پانچ کروڑ روپے میں کمپنی کو ادھار فروخت کر دیتا ہے۔ طے شدہ مدت کے اختتام پر کمپنی بینک کو ساڑھے پانچ کروڑ دے دیتی ہے۔ کمپنی کو کپاس مل گئی اور بینک کو نصف کروڑ روپے کا منافع ہوا۔ چونکہ عربی زبان میں منافع کو ربح کہتے ہیں، اس وجہ سے اس قسم کی ڈیل کو مرابحہ کہا جاتا ہے۔
علما کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ یہ سود ہی کی ایک شکل ہے اور اس وجہ سے حرام ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر خالد ظہیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کسی کو قرض دے کر اس پر اضافی رقم لی جائے تو یہ سود ہے۔ اسی طرح مال کو ادھار بیچ کر مارکیٹ کی قیمت سے زیادہ رقم وصول کی جائے تو یہ بھی قرض پر اضافی رقم کی طرح ہے اور سود ہے۔
دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ یہ عام خرید و فروخت کی طرح ہے اور جائز ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی مفتی محمد تقی عثمانی کرتے ہیں۔ یہ حضرات بھی مرابحہ کی علی الاطلاق ترغیب نہیں دیتے بلکہ اس پر کچھ شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان شرائط کی تفصیل عثمانی صاحب کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کا بھی کہنا یہ ہے کہ مرابحہ ایک اسلامی نظام مالیات میں آئیڈیل طریقہ نہیں ہے بلکہ اس کا استعمال اس وقت تک ہی ہونا چاہیے جب تک کہ معیشت مکمل طور پر اسلامائز نہیں ہو جاتی۔ بینکوں کو ترغیب دی جانی چاہیے کہ وہ مشارکہ کے استعمال میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں۔ مناسب ہو گا کہ ہم فریقین کے دلائل کو ان کے اپنے الفاظ میں بیان کریں۔ دونوں اسکالرز کی بحث انگریزی میں ہے مگر یہاں ہم اس کا صرف ترجمہ پیش کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر خالد ظہیر لکھتے ہیں۔
مرابحہ کی قبولیت کی فلسفیانہ وجوہات کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اسلام میں سود کو حرام کیوں قرار دیا گیا ہے اور کیا مرابحہ کی مدد سے صورتحال کچھ بہتر ہو جاتی ہے یا نہیں؟ سود کی حرمت کی وجہ واضح طور پر یہ ہے کہ قرض دینے والا ، لینے والے سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خواہ وہ اس قابل ہو یا نہ ہو، وہ اصل رقم پرنسپل واپس کرے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک طے شدہ سود بھی اسے واپس کرے ۔ اس میں قرض دینے والے کی خود غرضی بالکل واضح ہے۔ اگر قرض کی ادائیگی سے پہلے مقروض دیوالیہ ہو جائے تو قرض خواہ نہ صرف اصل رقم کا مطالبہ کرے گا بلکہ وہ اس کے ساتھ سود کا مطالبہ بھی کرے گا۔ اس بات کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایک انسانیت کا احساس رکھنے والی انسانی روح کس طرح اس قسم کے مالیاتی معاملے میں شامل ہو سکتی ہے؟
اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم مرابحہ کے معاملے میں دیکھتے ہیں، تو بالکل یہی بات ظاہر ہوتی ہے۔ مرابحہ میں بھی اگر قرض لینے والا، جو یہاں مال خریدنے والا کہہ رہا ہے، مال بیچنے والے [یا قرض دینے والے] سے کوئی چیز خریدتا ہے تو اسے زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس کا نام جو بھی رکھ لیجیے لیکن اگر وہ مال ضائع ہو جائے تو خریدنے والا بالکل اسی طرح بے یار و مددگار رہ جاتا ہے [جیسے سودی قرض لینے والا۔] مال بیچنے [یا قرض دینے] والا اس سے اصل رقم [مال کی نقد قیمت] کے ساتھ ساتھ اضافی رقم جسے نفع کہا جا سکتا ہے، کا مطالبہ کر رہا ہوتا ہے۔
ربا کی طرز پر اس کی مجبوری کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا کیونکہ متقی و پرہیز گار قرض دینے والے نے مرابحہ کہہ کر درست الفاظ کا استعمال کیا ہوتا ہے اور سودی قرض کے الفاظ استعمال نہیں کیے ہوتے۔ اس طرح وہ اپنے تئیں اسلام کی رو سے ایک جائز معاملہ کر رہا ہوتا ہے۔ اگر آپ کا ضمیر اس قسم کی لیپا پوتی کو جائز اور حلال سمجھتا ہے تو اس کی حمایت کیجیے۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے۔
مفتی محمد تقی عثمانی بیان کرتے ہیں۔
یہ دلیل ، جو بظاہرمعقول نظر آتی ہے، ربا کی حرمت سے متعلق شریعت کے اصولوں سے متعلق ایک غلط فہمی پر مشتمل ہے۔ معاملے کو صحیح سمجھنے کے لیے ان نکات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ جدید سرمایہ دارانہ تھیوری کیش اور عام چیز کموڈٹی میں فرق نہیں کرتی۔ دونوں چیزوں کا تبادلہ ہو سکتا ہے، دونوں کو کسی بھی متفق علیہ قیمت پر بیچا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی ایک ڈالر کو نقد یا ادھار دو ڈالر کے بدلے بیچنا چاہے، تو وہ اسے بالکل اسی طرح بیچ سکتا ہے، جیسا کہ ایک ڈالر کی چیز کو کوئی بھی دو ڈالر کے بدلے بیچ سکتا ہے۔ ان کے نزدیک شرط صرف یہ ہے کہ یہ باہمی رضامندی سے ہونا چاہیے۔
اسلامی اصول اس تھیوری کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسلامی اصولوں کے تحت کیش اور اشیاء کی خصوصیات مختلف ہیں اور اس وجہ سے ان کا معاملہ مختلف انداز میں ہونا چاہیے۔ کیش اور اشیاء کے درمیان بنیادی فرق یہ ہیں۔
کیش کی کوئی اصل قیمت نہیں ہوتی [کہ یہ محض کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے] اور اس سے انسان کی کوئی ضرورت پوری نہیں ہو سکتی۔ اس کا مقصد صرف اشیاء یا خدمات کا حصول یا تبادلہ ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس، اشیاء جیسے گندم، چاول وغیرہ کی اپنی اصل قیمت ہوتی ہے اور ان سے بغیر کسی تبادلے کے براہ راست استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
اشیاء کے مختلف اوصاف اور درجات ہو سکتے ہیں جبکہ کیش محض تبادلے کا ذریعہ اور ویلیو کی پیمائش کا آلہ ہے۔ ۔۔۔ ہزار روپے کا پرانا گندا نوٹ بالکل نئے نوٹ کے مساوی ہوتا ہے جبکہ اشیاء میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک بالکل نئی کار اور پرانی کار میں بہت فرق ہوتا ہے۔
اس فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام نے روپے پیسے اور عام اشیاء میں فرق کیا ہے۔ ایک ہزار پاکستانی روپے کا تبادلہ اگر دوسرے کسی نوٹ کے ساتھ کیا جائے تو اس کی قیمت بھی ایک ہزار روپے ہی ہونی چاہیے کیونکہ کرنسی نوٹ کی اپنی کوئی قیمت نہیں اور نہ ہی اس کے معیار میں فرق ہے۔ اس وجہ سے اس میں کوئی اضافہ یا کمی شریعت میں جائز نہیں ہے۔۔۔۔ اشیاء کا معاملہ مختلف ہے ۔ چونکہ ان کی اپنی اصل قیمت ہے اور اس میں مختلف معیار ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ طلب و رسد یعنی ڈیمانڈ اینڈ سپلائیڈ کے اصولوں کے مطابق جس قیمت پر چاہے، اپنی چیز کو فروخت کر سکتا ہے۔ اگر بیچنے والا فراڈ یا غلط بیانی نہیں کر رہا ہے تو وہ خریدار کی رضامندی سے اس چیز کو مارکیٹ سے زیادہ قیمت پر بھی بیچ سکتا ہے۔ اگر خریدار اس اضافی قیمت کو قبول کرنے کو تیار ہو تو اس اضافے کا لینا بیچنے والے کے لیے جائز ہے۔ اگر وہ نقد کی صورت میں زیادہ قیمت پر مال بیچ سکتا ہے تو پھر ادھار میں بھی ایسا کر سکتا ہے بشرطیکہ نہ تو خریدار کو دھوکہ دے، نہ اسے خریدنے پر مجبور کرے اور خریدار اپنی آزادانہ مرضی سے اس قیمت کی ادائیگی پر تیار ہو۔
بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ کیش کی نسبت قیمت میں محض اس لیے اضافہ کہ یہ ادھار ہے، سود سے مشابہت کی بنیاد پر جائز نہیں ہے۔ یہ دلیل اس غلط فہمی کی بنیاد پر ہے کہ جب بھی ادائیگی کے وقت کو مدنظر رکھا جائے گا تو وہ اضافہ سود ہو جائے گا۔ دیر سے ادائیگی کی صورت میں کوئی اضافی رقم اس وقت سود ہو گی جب معاملہ روپے پیسے کا ہو۔ اگر اشیاء خریدی یا بیچی جا رہی ہیں تو پھر فروخت کرنے والا قیمت کا تعین کرنے میں بہت سے عوامل کو مدنظر رکھے گا جس میں ادائیگی کا وقت بھی شامل ہے۔
اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب روپے پیسے کا تبادلہ روپے پیسے سے ہو گا تو کوئی اضافہ جائز نہ ہوگا: نہ تو کیش ڈیل میں اور نہ ہی ادھار ڈیل میں لیکن اگر کسی چیز کو روپوں کے بدلے بیچا جائے گا تو دونوں پارٹیاں کیش یا ادھار کی صورت میں مارکیٹ سے زیادہ قیمت طے کر سکتی ہیں۔ ۔۔۔ یہ اسلامی فقہ کے چاروں مکاتب فکر کا متفق علیہ نقطہ نظر ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر بیچنے والا نقد یا ادھار کی صورت میں مختلف قیمتیں چارج کرتا ہے، اور ادھار کی قیمت نقد سے زیادہ ہوتی ہے، تو یہ بات جائز ہے۔۔۔۔
ایک اور نکتے کو نوٹ کرنا چاہیے۔ جہاں اس بات کی اجازت ہے کہ ادھار قیمت، نقد قیمت سے زیادہ ہو۔ لیکن اگر بیچنے والا یہ شرط لگا دے کہ عدم ادائیگی کی صورت میں وہ 10 فیصد جرمانہ یا سود عائد کرے گا تو یہ مکمل طور پر حرام ہے کیونکہ جو کچھ وہ چارج کر رہا ہے، وہ قیمت کا حصہ نہیں ہے بلکہ قرض پر سود ہے۔
عثمانی صاحب کے ان دلائل کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر خالد ظہیر لکھتے ہیں۔
مرابحہ کے جواز کے قائلین دو ایسی شرائط بیان کرتے ہیں جس سے ان کے خیال میں یہ معاملہ ربا سے مختلف ہوتا ہے۔ ایک شرط وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ربا کی صورت میں کیش [جو کہ محض کاغذ کے نوٹ ہیں جس پر حکومت کا وعدہ لکھا ہوا ہے یا اس سے ملتی جلتی کوئی چیز موجود ہوتی ہے جبکہ مرابحہ میں کوئی حقیقی چیز جیسے گندم، کپاس وغیرہ موجود ہوتی ہے۔ دوسری شرط وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ مرابحہ میں وہ منافع پر مزید سود سود مرکب شامل نہیں کرتے جبکہ ربا کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے۔
جہاں تک حقیقی چیز کا تعلق ہے، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ چیز اصل ہے یا نہیں [یعنی گندم ہے یا کیش۔] اہم بات یہ ہے کہ اگر رقم کی ادائیگی سے پہلے وہ چیز ضائع ہو جائے تو پھر اس نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا؟ واضح طور پر اس کا جواب یہ ہے کہ وہ چیز لینے والا [قرض دار] ہی ذمے دار ہو گا۔ تو پھر یہ سود سے مختلف معاملہ کیسے ہوا؟ چیز کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑ گیا؟ اس سے مقروض یا خریدار کو سودی قرض کی نسبت کیا ریلیف ملی؟
دوسرا نکتہ کہ مرابحہ میں منافع کو صرف ایک مرتبہ چارج کیا جاتا ہے اور اس پر مزید سود یا مارک اپ چارج نہیں کیا جاتا اگرچہ قرض دار یا خریدار اصل رقم ادا نہ کر سکے۔ میں یہ کہوں گا کہ دوہرے گناہ سے بچنے سے اکیلا گناہ جائز نہیں ہو جاتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کہا جائے کہ چونکہ جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کچھ اچھے کام کیے تھے، اس وجہ سے ان کی فوجی بغاوت جائز ہو گئی۔ جو کام غلط ہے، وہ غلط ہی ہے اور بعد کا کوئی کام اسے جائز نہیں کر سکتا ہے۔
میں اس میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ وہ ادارے، جو خود کو اسلامی بینک کہتے ہیں، بھی مارک اپ پر مزید مارک اپ نہ لگانے پر عمل نہیں کرتے۔ ان کا معمول یہ ہے کہ وہ اضافی مارک اپ [یا سود مرکب] اپنے قرض داروں سے وصول کرتے ہیں اور اسے اپنی آمدنی میں دکھانے کی بجائے خیرات کر دیتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جس چیز کو وہ حرام سمجھتے ہیں، وہ اس سے خود تو فائدہ نہیں اٹھاتے البتہ اسے دوسروں کو دے دیتے ہیں۔ اس عمل کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
تقی عثمانی صاحب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ مرابحہ کوئی آئیڈیل طریقہ فائنانس نہیں ہے بلکہ اسلام کی رو سے فائنانس کا آئیڈیل طریقہ مشارکت ہے۔ بینکوں کے ساتھ اپنے تجربے کی وجہ سے وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ بہت سے بینک مرابحہ کو سودی لین دین کی لیپا پوتی کے لیے استعمال کر رہے ہیں یعنی بینک کی ڈیل عملاً سود ہی ہوتی ہے مگر اسے مرابحہ کا نام دے کر اسلامائز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لکھتے ہیں۔
بعض مالیاتی اداروں نے یہ فرض کر لیا ہے کہ مرابحہ عملی طور پر سود کا متبادل ہے۔ اس وجہ سے وہ ہر اس صورت میں مرابحہ کا معاہدہ کر لیتے ہیں جب ان کے کلائنٹ کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے جیسے تنخواہوں کی ادائیگی، یا ان اشیاء یا خدمات کے لیے ادائیگی جو وہ پہلے ہی استعمال کر چکے ہیں۔ واضح ہے کہ مرابحہ اس صورت میں نہیں ہوتا جب بینک کوئی چیز خرید نہ رہا ہو۔
بعض اوقات کلائنٹ اس چیز کو اسلامی بینک سے معاہدہ کیے بغیر خود ہی خرید لیتا ہے اور بینک اس کلائنٹ سے اس چیز کو سستا خرید کر دوبارہ اسی کو واپس مہنگی قیمت پر بیچ دیتا ہے۔ یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے کہ سستا خرید کر مہنگی قیمت پر واپس فروخت کرنا شریعت میں بالاجماع حرام ہے۔۔۔۔۔ اسے بینکنگ کی اصطلاح میں سیلز اینڈ پرچیز کہا جاتا ہے۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مرابحہ سیل کی ایک قسم ہے اور یہ شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ قیمت کا تعین سیل کے وقت ہونا چاہیے۔ قیمت کے تعین کے بعد ایک پارٹی نہ تو اس میں اضافہ کر سکتی ہے اور نہ ہی کمی۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ تاخیر سے ادائیگی کی صورت میں مالیاتی ادارے قیمت میں اضافہ کر دیتے ہیں [تاکہ تاخیر سے ادائیگی کا جرمانہ وصول کیا جا سکے] جو کہ شریعت میں جائز نہیں ہے۔
اگر کلائنٹ بروقت ادائیگی نہ کر سکے تو بعض مالیاتی ادارے مرابحہ کو رول اوور کر دیتے ہیں یعنی مزید مدت کے لیے دوبارہ مرابحہ کا معاہدہ کر لیتے ہیں۔ واضح طور پر اس عمل کی شریعت اجازت نہیں دیتی ہے کہ کیونکہ جب چیز کو ایک بار بیچ دیا گیا تو اسے دوبارہ اسی کلائنٹ کو نہیں بیچا جا سکتا ہے۔
اس طرح بحیثیت مجموعی کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی بینکنگ کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے، اس میں عملاً مضاربت یا مشارکت کا حصہ بہت کم ہے۔ اجارہ اور مرابحہ کی صورتیں رائج ہیں جن پر علما کا اتفاق رائے نہیں ہے۔
کیا انشورنس جائز ہے؟
زندگی میں ہر انسان کو بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ موت، حادثات، خراب صحت، اپاہج ہونا، آتش زدگی، غرقابی، اور نجانے کتنے ایسے خطرات ہیں جن سے بہت سے انسان دوچار ہوتے ہیں۔ لوگوں نے انشورنس کی صورت میں اس مسئلے کا ایک حل نکالا تاکہ ان خطرات کے کم از کم معاشی پہلو کا کسی حد تک تدارک کیا جائے۔ انشورنس کا مطلب ہے کہ بہت سے افراد مل کر ایک مشترکہ فنڈ قائم کریں اور ان افراد میں سے جسے کسی نقصان کا سامنا کرنا پڑے، اسے اس فنڈ میں رقم فراہم کر دی جائے۔ انشورنس کی بنیادی قسمیں دو ہیں۔ کمرشل اور کو آپریٹو۔
کمرشل انشورنس کا مطلب یہ ہے کہ انشورنس کا انتظام کرنے والی کمپنی انشورنس کو بطور کاروبار چلائے۔ وہ لوگوں سے انشورنس پریمیم کی صورت میں رقم وصول کرے، یہ رقم اس کمپنی کی ذاتی ملکیت ہو۔ جس شخص کو کوئی حادثہ پیش آ جائے، اس کے کلیم کرنے پر انشورنس کمپنی اسے ادائیگی کر دے۔ اگر ان كليمز کی رقم پریمیم کی رقم سے کم ہو تو اس نفع کی مالک کمپنی ہو گی اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہو تو نقصان کمپنی کو برداشت کرنا پڑے گا۔
کو آپریٹو انشورنس کا مطلب یہ ہے کہ انشورنس کا انتظام کاروباری بنیاد پر نہ کیا جائے بلکہ باہمی تعاون کے اصول پر کیا جائے۔ اگر كليمز کی رقم پریمیم کی رقم سے زائد ہو جائے تو اس رقم کو تمام پالیسی ہولڈرز سے وصول کیا جائے اور اگر پریمیم کی رقم كليمز کی رقم سے زائد ہو جائے تو اسے تمام پالیسی ہولڈرز کو لوٹا دیا جائے۔
اس طرح سے انشورنس کا انتظام کرنے والی کمپنی نہ نفع نہ نقصان کے اصول پر کام کرتی ہے۔ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ کمپنی انشورنس فنڈ میں سے کچھ رقم بطور فیس لے سکتی ہے۔ اخراجات پورے کرنے کے بعد اگر کچھ رقم اس فیس میں سے بچے تو یہ اس کمپنی کے مالکان کے لیے منافع ہو گا۔ انشورنس کی اس قسم کو اسلامی معاشیات کی اصطلاح میں تکافل کہا جاتا ہے۔ تکافل کا لغوی مطلب ہے ایک دوسرے کی کفالت کرنا۔
مسلم علما کے انشورنس سے متعلق تین نقطہ ہائے نظر ہیں۔
۔۔۔۔۔ ہر قسم کی انشورنس حرام ہے۔
۔۔۔۔۔ ہر قسم کی انشورنس جائز ہے۔
۔۔۔۔۔ کمرشل انشورنس ناجائز ہے اور کو آپریٹو انشورنس یا تکافل جائز۔
اب ہم ان تینوں فریقوں کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
انشورنس کی مطلقاً حرمت کے قائلین کے دلائل
انشورنس کی مطلق حرمت کےقائل حضرات کہتے ہیں کہ انشورنس تین وجوہات کی بنیاد پر حرام ہے: جوا، سود اور دھوکہ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ انشورنس جوئے کی شکل ہے، اور اس وجہ سے حرام ہے۔ جیسے جوئے میں مستقبل کے کسی واقعہ پر نفع یا نقصان کا تعین ہوتا ہے، کم و بیش ویسی ہی صورت انشورنس خاص کر جنرل انشورنس میں بھی ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص کو کوئی حادثہ پیش آ گیا تو اسے رقم مل جائے گی ورنہ اس کا ادا کیا ہوا پریمیم ضائع ہو جائے گا۔ یہ شکل لاٹری سے ملتی جلتی ہے جس میں اگر لاٹری نکل آئے تو بہت بڑ ی رقم مل جائے اور نہ نکلے تو ٹکٹ کی رقم ضائع ہو جائے۔
خاص کر لائف انشورنس کی شکل میں یہ صورت ہوتی ہے کہ انشورنس کمپنی پریمیم کی رقم کو کسی سودی کاروبار میں لگا دیتی ہے اور اس سے حاصل شدہ سود کا کچھ حصہ پالیسی ہولڈر کو بھی دے دیتی ہے، اس وجہ سے یہ بھی ناجائز ہے۔ اس کے علاوہ انشورنس میں غرر پایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے دھوکہ۔ اگر کسی شخص کو نقصان پہنچا مگر وہ کلیم نہ کر سکا تو اس کا مال انشورنس کمپنی ہڑپ کر جاتی ہے جو کہ حرام ہے۔ اسی طرح بسا اوقات لائف انشورنس کی شکل میں رقم شرعی وارثوں کی بجائے اس شخص کو مل جاتی ہے جسے پالیسی ہولڈر نے نامزد کیا ہو۔
اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے سید ابو الاعلی مودودی لکھتے ہیں۔
انشورنس کے بارے میں شرع اسلامی کی رو سے تین اصولی اعتراضات ہیں جن کی بنا پر اسے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اول یہ کہ انشورنس کمپنیاں جو روپیہ پریمیم کی شکل میں وصول کرتی ہیں، اس کے بہت بڑے حصے کو سودی کاموں میں لگا کر فائدہ حاصل کرتی ہیں اور اس ناجائز کاروبار میں وہ لوگ آپ سے آپ حصہ دار بن جاتے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اپنے آپ کو یا اپنی کسی چیز کو ان کے پاس انشور کراتے ہیں۔
دوم یہ کہ موت یا حوادث یا نقصان کی صورت میں جو رقم دینے کی ذمہ داری کمپنیاں اپنے ذمہ لیتی ہیں، اس کے اندر قمار گیمبلنگ کا اصول پایا جاتا ہے۔
سوم یہ کہ ایک آدمی کے مر جانے کی صورت میں جو رقم ادا کی جاتی ہے، اسلامی شریعت کی رو سے اس کی حیثیت مرنے والے کے ترکے کی ہے جسے شرعی وارثوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ گر یہ رقم ترکے کی حیثیت میں تقسیم نہیں کی جاتی بلکہ اس شخص یا ان اشخاص کو مل جاتی ہے جن کے لیے پالیسی ہولڈر نے وصیت کی ہو حالانکہ وارث کے حق میں شرعاً وصیت نہیں کی جا سکتی۔
انشورنس کے مطلقاً جواز کے قائلین کے دلائل
جو علما انشورنس کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ انشورنس اور جوئے یا لاٹری میں ایک بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ جوئے کا مقصد رسک لینا ہوتا ہے جب کہ انشورنس کا مقصد ہی اس کے بالکل الٹ رسک مینجمنٹ ہوتا ہے۔ جوئے یا لاٹری میں انسان اس امید پر پیسہ لگاتا ہے کہ وہ اس سے کئی گنا زیادہ کما لے گا۔ اگر قسمت ساتھ نہ دے تو وہ اپنی اصل رقم سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ انشورنس کا مقصد اس کے بالکل برعکس یہ ہوتا ہے کہ اپنی جانب آنے والے خطرے یا نقصان سے بچا جا سکے۔ انشورنس کرانے والا اس امید پر پریمیم کی معمولی سی رقم ادا کر تا ہے کہ اگر نقصان ہو گیا تو اس کا نقصان پورا ہو سکے گا اور نہ ہوا تو اس رقم سے اس کے کسی دوسرے بھائی یا بہن کا نقصان پورا ہو جائے گا۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک بینکنگ کے مقالہ نگار لکھتے ہیں۔
جوا اور سود دو مختلف معاملات ہیں۔ جوئے میں خطرات کے بارے میں اندازہ قائم کر کے سٹہ کھیلا جاتا ہے جبکہ انشورنس میں سٹہ نہیں ہے۔ جوئے میں ایک پارٹی اس خطرے کو پیدا کر کے جیت یا ہار سکتی ہے [جیسے کھیل میں جیت یا ہار سکتی ہے اور خطرہ مصنوعی ہوتا ہے]جبکہ انشورنس میں خطرہ پہلے سے موجود ہوتا ہے اور انشورنس کرانے والے کا مقصد اس خطرے کے معاشی نقصانات کو کم کرنا ہوتا ہے۔ انشورنس میں خطرے کو ایک شخص کی بجائے دوسروں پر پھیلا دیا جاتا ہے مگر اپنی اصل میں وہ خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
جوئے کے نتیجے میں لڑائی جھگڑا، تباہی اور نفرت پھیلتی ہے جبکہ انشورنس تعاون کے اصول پر مبنی ہے جس سے ایک شخص کو پہنچنے والے نقصان کو کم کیا جاتا ہے، جسے اگر کم نہ کیا جائے تو انسان غربت کا شکار ہو کر معاشرے میں اپنا مقام کھو سکتا ہے۔ اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں ہے جو لوگوں کو اپنے متعلقین کے [نقصان کے ] ازالے کے لیے تیاری سے روکے۔
اس نقطہ نظر کے حاملین سود اور غرر یعنی دھوکہ کے مسئلے کو انتظامی نوعیت کا معاملہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سود اور غرر انشورنس کے کاروبار کا حصہ نہیں ہیں بلکہ انشورنس کمپنیوں کے کاروباری طریقے سے یہ مسئلے پیدا ہوتے ہیں۔ ان مسائل کو باآسانی حل کیا جا سکتا ہے۔ انشورنس کمپنی کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس رقم کو سودی کاروبار میں نہ لگائے۔ اسی طرح اسے وصیت کی جا سکتی ہے کہ وہ شرعی قانون کے مطابق وراثت کے حصے تقسیم کرے۔ اگر انشورنس کمپنی لازماً سودی کاروبار میں رقم لگانا چاہتی ہو تو پالیسی ہولڈر ایسا کر سکتا ہے کہ وہ منافع میں سے اتنا حصہ چھوڑ دے جتنا سودی کاروبار سے حاصل ہوا ہو۔
کمرشل انشورنس کے عدم جواز اور کو آپریٹو انشورنس کے جواز کے قائلین کے دلائل
اس نقطہ نظر کے حاملین کا خیال ہے کہ انشورنس کے نظام کو ان برائیوں سے پاک کیا جا سکتا ہے جن کے باعث دیگر علما اسے ناجائز کہتے ہیں۔ ان حضرات نے یہ نقطہ نظر اختیار کیا کہ کمرشل انشورنس میں کچھ ایسی قباحتیں پائی جاتی ہیں جن کے باعث یہ ناجائز ہے۔ ان قباحتوں کی تفصیل یہ ہے۔
۔۔۔۔۔ کمرشل انشورنس کا مقصد ہی چونکہ نفع کمانا ہوتا ہے، اس وجہ سے انشورنس کمپنی کے مالکان ہر ایسا کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں جس سے نفع حاصل ہو۔ وہ انشورنس کے فنڈ کو سودی کاروبار میں بھی لگانے میں حرج محسوس نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔ کمرشل انشورنس کرنے والی کمپنی عام طور پر متاثرین کو کلیم کی ادائیگی میں تاخیر کرتی ہے اور مختلف حیلے بہانوں سے انہیں ٹالتی رہتی ہے تاکہ کمپنی کے مالکان کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔
۔۔۔۔۔ کمرشل انشورنس میں غرر یعنی دھوکہ جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے تاکہ کمپنی زیادہ سے زیادہ نفع کما سکے۔
اس نقطہ نظر کے حاملین کا کہنا یہ ہے کہ کو آپریٹو انشورنس یا تکافل میں ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ حقیقتاً پیش آنے والا نقصان اگر اکٹھا ہونے والے پریمیم کی رقم سے ہو تو بقیہ رقم پالیسی ہولڈرز کو واپس کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر حقیقتاً پیش آنے والا نقصان پریمیم کی رقم سے زائد ہو، تو اضافی پریمیم پالیسی ہولڈرز سے وصول کر لیا جاتا ہے۔
کوآپریٹو انشورنس یا تکافل کا یہ تصور مسلم دنیا میں تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ ملائشیا، سعودی عرب، بحرین اور پاکستان میں تکافل پر کافی تحقیق ہو چکی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر اختیار کر لیا گیا ہے۔
شریعہ کمپلائنس آڈٹ
(Shariah Compliance Assurance)
بینکنگ اور انشورنس سے متعلق ایک جدید طریقہ یہ اختیار کیا گیا ہے کہ بینک ، انشورنس کمپنیاں اور دیگر لیزنگ کمپنیوں کا آڈٹ کیا جائے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ان تمام کمپنیوں کا طریقہ شریعت کے مطابق صحیح ہے یا نہیں؟ اس کے لیے 1990 میں الجیریا میں کئی ممالک کے فقہاء اور بینکرز نے مل کر یہ طریقہ اختیار کیا تاکہ تمام لوگوں کو معلوم ہو کہ بینکنگ اور انشورنس کا معاملہ شریعت کے مطابق عمل کر رہا ہے یا نہیں۔ کافی عرصے بعد 2005 میں بحرین میں ایسے طریقہ کار بن گئے جس کے مطابق بینک ، انشورنس کمپنیاں اور لیزنگ کمپنیوں نے عمل کرنا شروع ہوا۔ یہ اسٹینڈرڈز نے تیار کیے۔ اس اسٹینڈرڈز کے اہل پہلو یہاں پر موجود ہیں۔
The Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI)
۔۔۔۔۔۔ بینک اور مالیاتی کمپنیوں میں شریعہ سپر وائزر بورڈ ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ شریعہ ایڈوائزرز بھی موجود ہونے چاہیں تاکہ وہ بینک اور مالیاتی کمپنیوں کے ڈائیرکٹرز اور ملازمین کی مدد کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔ اسی بینک یا مالیاتی کمپنی کا آڈٹ کیا جائے۔ ایکسٹرنل آڈٹ کرنے والی فرمز پر پابندی ہو کہ وہ اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹنگ اورگنائزیشن آف اسلامک فائننشل انسٹیٹیوشنز کے اسٹینڈرڈز کے لحاظ سے آڈٹ کریں اور پھر اس ادارے کی شریعہ سپروائزر بورڈ کو رپورٹ دیں تاکہ انہیں معلوم ہو کہ یہ مالیاتی ادارہ شریعت کے مطابق عمل بھی کر رہا ہے یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ ہر بینک یا مالیاتی کمپنی میں انٹرنل آڈٹ ہو جسے آڈیٹرز شریعہ سپر وائزر بورڈ کو رپورٹ کرتے رہیں۔
ان اسٹینڈرڈز کی مزید تفصیل وہی ہے جس میں آڈٹ کرنے کا طریقہ کار پوری دنیا میں بنایا گیا ہے۔ ابھی ضرورت ہے کہ جو بینک یا مالیاتی ادارے یہ کہتے ہیں کہ وہ شریعت کے مطابق عمل کر رہے ہیں تو پھر شریعہ کمپلائنس آڈٹ ہونا چاہیے ۔ وہ تمام مسلمان جو شریعت پر عمل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ آڈٹ رپورٹ کو پڑھ لیا کریں۔ پھر اس کے مطابق فیصلہ کریں کہ وہ اس بینک یا مالیاتی ادارے میں اپنی رقم لگائیں یا نہ لگائیں۔
محمد مبشر نذیر
غور فرمائیے
انسان آخرت کی اصل زندگی کو نظر انداز کر کے اس دنیا کی عارضی زندگی کو ہی اپنا مطمح نظر کیوں بنا لیتا ہے؟ تین وجوہات بیان کیجیے۔
جنت میں داخلے کی بنیادی شرط قرآن مجید نے کیا بیان کی ہے؟ اس کا سود کھانے سے کیا تعلق ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے سوالات اور تاثرات دوسرے قارئین کے لئے اہم ہوں۔ اپنے سوالات اور تاثرات کے لئے ای میل کیجیے۔