اسحاق ناگی صاحب ہمارے بزرگوں میں سے ہیں۔ پچھلے دنوں انہوں نے مجھے فون کر کے ایک مسئلہ میرے سامنے رکھا۔ وہ مسئلہ صرف ان کا یا میرا مسئلہ نہیں ہے، ہم سب کا مسئلہ ہے۔ اس لیے میں اسے اپنے قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
جنت مچھلی کے جال کی طرح ہے جس میں ہر طرح کی مچھلی پھنس جاتی ہے۔ اس کے بعد مچھیرے اچھی مچھلیوں کو تو رکھ لیتے ہیں مگر خراب مچھلیوں کو پھینک دیتے ہیں۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
ایک بزرگ خاتون ناگی صاحب کے پاس تشریف لائیں۔ انہوں نے ناگی صاحب سے کہا کہ وہ دودھ بیچنے کا کام کرتی تھیں۔ انہوں نے کبھی اپنے کام میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں کی۔ لوگوں سے اگر دودھ کے پیسے لیے تو انہیں خالص دودھ ہی بیچا۔ لیکن اب انہیں یہ خیال ہوتا ہے کہ لوگوں کو دودھ دیتے وقت ناپ تول میں جو کمی بیشی ان سے ہوگئی ہوگی، اور ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے تو اس کا کیا ہوگا۔ کہیں خدا کے ہاں اس کا حساب کتاب تو نہیں ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ بزرگ خاتون بہت روئیں۔ یہاں تک کہ ناگی صاحب کو بھی اس نے رلادیا۔
جس وقت ناگی صاحب نے مجھے لاہور سے فون کرکے یہ بات بتائی میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہسپتال میں موجود تھا۔ ایک مہینے سے میں ہسپتال، لیبارٹریوں اور ڈاکٹروں کو بھگت رہا تھا۔ میں نے ان میں سے ہر شخص کو پیسے لینے کے معاملے میں اتنا حساس پایا کہ اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ مگر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے معاملے میں بیشتر لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ گویا مفت میں اس سے کوئی بیگار لیا جارہا ہے۔
ہماری سوسائٹی میں برسوں سے صرف حقوق کی نفسیات پیدا کی جارہی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شخص صرف لینے کے معاملے میں حساس ہوچکا ہے۔ دینے کے معاملے میں کم ہی لوگ حساس رہ گئے ہیں۔ حالانکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں اپنا فیصلہ اس طرح سنا دیا ہے۔
تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے، یہ جو دوسروں سے لیتے، تو پورا لیتے ہیں، اور جب ان کے لیے ناپتے یا تولتے ہیں تو اس میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ کیا یہ گمان نہیں رکھتے کہ ایک دن اٹھائے جائیں گے؟ ایک بڑے دن کی حاضری کے۔اس دن جب لوگ رب العالمین کے حضور پیشی کے لیے اٹھیں گے۔ (المطفّفین83)
قرآن پاک کی یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ قرآن نا پ تول میں ڈنڈی مارنے والوں کے لیے ہلاکت کا فیصلہ سناتا ہے۔ناپ تول میں یہ ڈنڈی عام سوچ کے مطابق صرف دکان داروں تک محدود نہیں، بلکہ اس کا اطلاق ہر ایسے معاملے پر ہوتا ہے جہاں لوگ، اس معاہدے پردوسروں سے کچھ لیتے ہیں، کہ وہ اس کے عوض لوگوں کو کچھ دیں گے بھی۔ چاہے دینے والا کوئی دکان دار ہو جو لوگوں کو سامان ضرورت دیتا ہو، چاہے دینے والا اپنا وقت دینے کا پابند ہو یا دفتروں میں ڈیوٹی کرنے والا کوئی ملازم۔ جس شخص نے پورا لینے کے بعد پورا نہ دیا وہ بلاشبہ ہلاک ہوگا۔
ناپ تول میں کمی اگر انسان سے ہوجائے، جیسا کہ ان بڑی بی سے زندگی میں کبھی ہوئی ہوگی، تو قرآن پاک کے مطابق (الانعام153:6) یہ قابل معافی ہے۔ مگر جہاں لوگ لینے اور دینے کے پیمانے مکمل طور پر بدل دیں۔ جہاں یہ طے ہوجائے کہ دودھ بہرحال خالص نہیں دیا جاسکتا، پیٹرول بہرحال پورا نہیں دیا جاسکتا، دفتر میں پورا کام کرنا بہرحال ممکن نہیں ہے تو ایسی قوم کی ہلاکت کے لیے خدا کو قیامت کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
موجودہ دور کیا ہے؟ اس زمانے میں وہ کیا نفسیاتی، عمرانی اور معاشی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں جن سے ہمارے اہل دانش ابھی ناواقف ہیں۔ اس ناواقفیت کے نتائج کیا نکل رہے ہیں؟ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
ہماری سوسائٹی میں بدقسمتی سے ایک سانحہ اور ہوگیا ہے کہ اب یہاں لینے کے بعد پورا نہ دینا، کچھ افراد کا معاملہ نہیں رہا ہے، بلکہ اب یہ سوسائٹی کا معروف طریقہ بن گیا ہے۔ جو شخص دفتر میں اپنا کام محنت سے کرتا ہے وہ بے وقوف سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے والا سب سے زیادہ عقلمند ہوتا ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن وہ باالیقین اپنے آپ کو خدا کے احتساب سے بچا رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ لینے کے بعد دینا تو ہر حال میں پڑے گا۔ دنیا میں نہیں دیا تو کوئی بات نہیں خدا قیامت کے دن دلوا دے گا۔ مگر اس روز انسان کے پاس دینے کے لیے سوائے اپنی نیکیوں کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اس روز اپنی غلطی پر رونے والی بڑی بی کو توجنت میں بلند درجات مل جائیں گے،، مگر جان بوجھ کر دھوکہ دینے والوں کے لیے جہنم کی وہ وادی ہوگی جس سے خود جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ بڑی بی کا اصل مسئلہ کیا تھا؟ کیا آپ کے ذہن میں بھی کبھی ایسا کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہے؟
۔۔۔۔۔ حقوق کی جو نفسیات ہمارے ہاں پیدا ہو چکی ہے، اس کے کیا اثرات معاشرے پر مرتب ہو رہے ہیں؟
علوم القرآن اور تعمیر شخصیت لیکچرز