ذکر، شکر، صبر اور نماز

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ۔ 

پس تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نہ کرو۔ اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ کوئی شک نہیں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ 2: 152-153)

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار ملا تو آپ نے ہمیشہ آسان راستے کا انتخاب فرمایا بشرطیکہ وہ گناہ کی طرف لے جانے والا نہ ہو۔

اللہ تعالی نے یہ دنیا آزمائش کے اصول پر بنائی ہے۔ جیسے امتحان میں ایک طالب علم کو کچھ مشکل اور کچھ آسان سوالات دیے جاتے ہیں ویسے ہی اس زندگی میں انسان کو مشکل اور آسان دونوں طرح کے ٹسٹ پیش آتے ہیں۔ انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب کو یاد رکھے۔ اس یاد کو قائم رکھنے کا سب سے اعلی ترین ذریعہ نماز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسی یاد کو قائم رکھنے کے لئے بہت سے اذکار اور دعائیں تلقین فرمائی ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنے کا انعام انسان کو یہ ملتا ہے کہ اس کا رب اسے یاد رکھتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس کا رب اسے یاد کرتا ہو۔

    دنیا میں انسان کو جو آسان اور مشکل ٹسٹ درپیش آتے ہیں، ان میں اس کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ قرآن مجید اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ آسانی کی حالت میں اسے اپنے رب کا شکر گزار بندہ بن کر رہنا چاہیے اور مشکل حالات میں اسے صبر سے کام لینا چاہیے۔

    کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا پوری دنیا اس کی مخالف ہو گئی ہے، اسے ہر روز ایک نئے چیلنج سے گزرنا پڑ رہا ہے، روز ہی اس پر ایک نئی آفت ٹوٹ پڑ رہی ہے، اپنے بھی اس کے دشمن ہو گئے ہیں اور زندگی ایک عذاب مسلسل بن چکی ہے۔ یہ صورتحال افراد کو بھی پیش آ سکتی ہے اور اقوام کو بھی۔

    اگر آپ اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو گی کہ یہ صورتحال انسان کو مسلسل پیش نہیں آتی۔ جب انسان ان مشکل حالات سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسے یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہے گا۔ ایسے موقع پر بعض لوگ واویلا شروع کر دیتے ہیں اور آہ و فغاں سے گویا آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت اجتماعی طور پر وارد ہوئی ہے تو لوگ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہنگامے، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے ذریعے دوسروں کی زندگی تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الحاد جدید کے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات
موجودہ دور میں الحاد کو پھیلانے کے لئے کیا کوششیں کی گئی ہیں اور ان کے نتائج کیا نکلے ہیں؟ الحاد کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے بند کیسے باندھا جائے؟ اسے اسی ویب سائٹ میں مطالعہ کر لیں۔

قرآن مجید ایسے حالات میں انسان سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ صبر سے کام لے۔ صبر کو ایک منفی عمل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ایک نہایت ہی مثبت عمل ہے۔ جب انسان صبر کے اس امتحان میں پورا اترتا ہے تو پھر خدائی قوتیں اس کی حمایت میں اتر آتی ہیں۔ اللہ تعالی کی مدد اسے حاصل ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید یہ بتاتا ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ مشکلات آسان ہونے لگتی ہیں اور آہستہ آہستہ انسان حالات کے گرداب سے نکل آتا ہے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جیسی ہستی کو بھی یہی صورتحال بارہا پیش آئی۔ ایسے موقع پر آپ نے جو رویہ اختیار فرمایا وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ مشکل حالات میں آپ ہمیشہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے اور نماز ادا کرتے۔ اولاد کی وفات کا صدمہ ہو یا نادان مخاطبین کی جانب سے پتھراؤ، منافقین کی ریشہ دوانیاں ہوں یا کفار کے حملے، ان سب حالات میں آپ اپنے رب کے حضور جا کھڑے ہوتے اور نماز سے مدد طلب کرتے۔ اللہ تعالی نے تمام مشکلات کو دور فرمایا اور آپ کی عظیم جدوجہد کے نتیجے میں آپ کا پیغام پوری دنیا میں پھیل گیا۔

    صبر کے امتحان میں انسان کو آزمانے کے بعد اسے ایک اور طرح کے امتحان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا گویا اس کی موافق ہو چکی ہے، وہ جس طرف جاتا ہے کامیابی اس کے قدم چومتی ہے، ہر روز اسے کوئی اچھی خبر سننے کو ملتی ہے، دن بدن وہ ایک نئی منزل دریافت کرتا ہے اور حالات اس کے حق میں ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورتحال افراد کو بھی پیش آتی ہے اور قوموں کو بھی۔ بعض نادان لوگ ایسے موقع پر اپنی حدود سے نکل جاتے ہیں اور اللہ تعالی کی نافرمانیوں بالخصوص شراب و شباب کے ذریعے خوشی منانے لگتے ہیں۔ وہ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ خوشیاں ہمیں اپنی کاوشوں سے حاصل ہوئی ہیں۔

    قرآن مجید اس معاملے میں بھی ہماری راہنمائی کرتا ہے اور ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ایسے موقع پر ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے اور ان نعمتوں کو اللہ کی جانب سے سمجھتے ہوئے اس کی نافرمانی اور کفران نعمت سے پرہیز کرنا چاہیے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت سے ہمیں اسی کی راہنمائی ملتی ہے۔ آپ کو جب بھی کوئی خوشی ملتی، آپ اس کے رد عمل میں اپنے رب کے حضور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتے۔ آپ کو غالباً سب سے بڑی خوشی اس وقت ملی جب آپ ایک عظیم فوج کی قیادت کرتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے۔ اس موقع پر کسی غرور و تکبر اور شان و شوکت کے اظہار کی بجائے آپ کا سر اپنے رب کے حضور اس قدر جھکا ہوا تھا کہ آپ کا سر مبارک اونٹ کے کوہان سے ٹکرا رہا تھا۔

    صبر اور شکر کی ان آزمائشوں سے وہی لوگ کامیابی سے گزرتے ہیں جو اپنے رب کو یاد رکھتے ہیں اور اس یاد کے لئے نماز قائم کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ نماز کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ صبر و شکر کا باہمی تعلق ہے؟

ذکر، شکر، صبر اور نماز
Scroll to top