قانون کا احترام

دین اسلام کا مزاج یہ ہے کہ وہ لاقانونیت اور انارکی کو سخت ناپسند کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ایک اجتماعی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ دین ہمیں ایسے تمام احکامات اور قوانین میں اپنی حکومت کی اطاعت کی دعوت دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف نہ ہوں۔ اس مسئلے پر امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی کتابوں اسلامی ریاست اور تزکیہ نفس میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ یہاں ہم ان کے بیان کردہ نکات کا ایک خلاصہ پیش کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اصلاحی صاحب کا موقف امت مسلمہ کے اکثر علماء کے نقطہ نظر کے مطابق ہے۔

نیکی کا آغاز تکلیف دہ لیکن انجام راحت بخش ہوتا ہے جبکہ برائی کا آغاز بڑا مزے دار مگر انجام نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ بنجمن فرینکلن

اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے اعتبار سے حکومتیں چار قسم کی ہو سکتی ہیں: پہلی قسم وہ حکومت ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کی پابندی کی جاتی ہواور دین اسلام کو بطور قانون قائم کر دیا گیا ہو۔ اس حکومت کے بارے میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی واضح ہدایات دی ہیں کہ اس کی ہر حال میں اطاعت کی جائے اور اس کی نافرمانی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ ایسی حکومت کی اطاعت نہ کرنے والاجاہلیت کی موت مرتا ہے۔ بشری تقاضوں کے باعث اس قسم کی حکومت میں چند خامیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، ان کے باوجود ان حکومتوں کی نافرمانی جائز نہیں بلکہ ان خامیوں کے خلاف آواز اٹھانے کا حکم ہے۔

    دوسری قسم کی حکومت وہ ہے جس میں بظاہر تو اسلام کا نام لیا جاتا ہو اور بعض معاملات میں اس کی پیروی بھی کی جاتی ہو، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ظلم اور کرپشن بھی پائی جاتی ہو۔ موجودہ دور کے زیادہ تر مسلم ممالک میں ایسی ہی حکومتیں قائم ہیں۔ ایسی حکومتوں کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح ہدایت فرمائی ہے کہ ان کی اس وقت تک اطاعت کی جائے جب تک یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف حکم نہ دیں۔ ظلم اور کرپشن کے خلاف آواز بلند کی جائے اور معاشرے اور حکومت کی اصلاح کی کوشش جاری رکھی جائے۔ اس قسم کی حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں۔ آئین او رقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد بہر حال مسلمانوں پر اجتماعی طور پر لازم ہے۔ 

امام شافعی کی کتاب الرسالہ کا آسان اردو ترجمہ
قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کو سمجھنے کا طریق کار کیا ہے؟ عام اور خاص سے کیا مراد ہے؟ حدیث کے صحیح ہونے کو پرکھنے کا طریق کار کیا ہے؟ علماء کے اختلاف رائے کی صورت میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

تیسری قسم کی حکومت غیر مسلموں کی حکومت ہے جہاں مسلمانوں کو اپنے دین اور پرسنل لاء کے بارے میں مکمل آزادی ہو۔ اگر ایک مسلمان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ وہاں سے ہجرت کرکے کسی ایسے ملک میں زندگی بسر کر سکتا ہے جہاں اسے اسلامی ماحول میسر ہو تب تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اسی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے دین پر عمل کرے اور دنیاوی معاملات میں حکومت کی اطاعت بھی کرے۔  ایسی حکومت کے خلاف بھی مسلح بغاوت درست نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی کے والدین اگر غیر مسلم ہوں تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کے ساتھ ساتھ عدل و احسان کا سلوک جاری رکھے، ہاں دین کے معاملے میں ان کی مداخلت گوارا نہ کرے۔ موجودہ دور میں مغربی ممالک کی حکومتیں اس کی مثال ہیں۔ 

    چوتھی قسم کی حکومت وہ ہے جس میں اہل اسلام کو اپنے دین کے بارے میں آزادی حاصل نہ ہو بلکہ انہیں کفر اختیار کرنے پر مجبور کیا جارہا ہو خواہ اس کے حکمران غیر مسلم ہوں یا نام نہاد مسلمان ہوں۔ ماضی قریب کا سوویت یونین ایسے طرز حکومت کی مثالیں ہیں جہاں دین پر عمل کرنے والوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے دین کو ترک کردیں۔

    ایسی صورت میں مسلمانوں کے سامنے تین راستے ہیں: ایک ہجرت، دوسرے مسلح جدوجہد اور تیسرے صبر۔ موجودہ دور میں ویزے کی پابندیوں کی وجہ سے کسی کمیونٹی کے لئے ہجرت کرنا ممکن نہیں رہا۔جہاں تک جہاد کا تعلق ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کوئی آزاد مسلم حکومت اس پر تیار ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ حالات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    اگر حالات ایسے ہیں کہ حکومتی سطح پر مسلح جدوجہد کے ذریعے ظلم و جبر کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور اس جدوجہد کی کامیابی کے معقول حد تک امکانات موجود ہیں تو یہ کوشش کی جاسکتی ہے لیکن اگر مسلح جدوجہد کے نتیجے میں محض انارکی ہی پھیلنے کا غالب امکان ہو اور اصلاح احوال کی کوئی صورت نظر نہ آتی ہو تو اپنے ایمان کو بچانے کی ممکن حد تک جدوجہد کی جائے کیونکہ اسلام کی نظر میں لاقانونیت اور انارکی ظلم و جبر سے بھی بڑا جرم ہے۔

    لاقانونیت اور انارکی کے نتیجے میں ایک محدود پیمانے پر ہونے والا ظلم و جبر وسیع پیمانے پر پھیل جاتا ہے اور پھر ہر کوئی اپنی اپنی طاقت کے مطابق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے لگ جاتا ہے۔ عام لوگوں کی دولت پر بدمعاش قبضہ کر لیتے ہیں، خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں رہتیں اور جرائم پیشہ گروہ منظم ہو جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں افغانستان اور صومالیہ اس کی بدترین مثالیں ہیں جہاں کسی کی مال، جان اور عزت محفوظ نہیں۔

    صبر کرکے اور معاشرے سے الگ تھلگ ہوکر اپنے ایمان کو بچانے کی ایک خوبصورت مثال اصحاب کہف کی ہے جو اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لئے شہر سے باہر غار میں چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس کوشش کی بہت تعریف کی ہے۔

    اگر ہم پاکستان کے حالات پر غور کریں تو ہمارے ملک میں دوسری قسم کی حکومت قائم ہے۔ یہاں ہمیں انفرادی طور پر تو دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہے، لیکن اجتماعی طور پر نظام حکومت اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں موجود ہیں ۔ ان حالات میں اگرچہ ہمارے لئے یہ درست نہیں کہ ہم حکومت سے محاذ آرائی کی پالیسی اختیار کریں لیکن معاشرے اور حکومت کی خرابیوں پر احسن انداز میں تنقید کرکے ان کی اصلاح کی جدوجہد کرنا بہرحال بحیثیت ایک قوم کے ہم پر لازم ہے۔

    یہ بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ہمارے ملک میں اس کام پر بھی کوئی پابندی نہیں اور ہم کھل کر یہ کام کر سکتے ہیں۔ صرف اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ جذبات کے جوش میں خواہ مخواہ کی محاذ آرائی درست نہیں۔

    ہمارے معاشرے میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، پچھلے دو سو برسوں سے ہمارے سیاسی رہنما بالعموم ہمیں قانون توڑنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ چونکہ ملک میں اسلام کا مکمل نفاذ نہیں ہو سکا اس لئے ہمارے سیاسی کارکن سگنل توڑنے، ٹریفک کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اس طرح کی حرکتوں سے یہ لوگ اسلام کو تو نافذ نہیں کر پاتے اور نہ ہی حکومت کو کوئی بڑا نقصان پہنچا پاتے ہیں لیکن بے چارے عوام الناس کو تنگ ضرور کرتے ہیں جن کا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں۔

    اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم خود میں قانون کا احترام پیدا کریں اور اگر یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے خلاف نہ ہو تو اس کی پابندی کریں۔ انارکسٹوں اور دہشت گردوں کو کسی معاشرے میں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ 

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ قانون کا احترام کیوں ضروری ہے؟

۔۔۔۔۔۔ ایسے معاشرے میں جہاں قانون کا احترام نہ کیا جاتا ہو، کس قسم کی شخصیات پیدا ہوتی ہیں اور ان کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

قانون کا احترام
Scroll to top