مسلم دنیا میں ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی کا ارتقاء

یہ تحریر شاہ ولی اللہ کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ کے ایک باب کا ترجمہ ہے جسے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (d. 1762)

یہ جان لیجیے کہ چوتھی صدی ہجری سے پہلے لوگ کسی خاص مکتب فکر کی تقلید کرنے پر متفق نہ تھے۔ قوت القلوب میں ابو طالب مکی کہتے ہیں، یہ کتابیں، مجموعے سب نئی چیز ہیں۔ لوگوں کی آراء کی بنیاد پر اپنی رائے قائم کرنا، لوگوں میں سے کسی ایک شخص کے نقطہ نظر کے مطابق فتوی دینا، اپنے امام کی رائے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، ہر چیز میں اسی کی رائے کو بیان کرنا اور اسی کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرنا (اور دوسرے نقطہ نظر کو سمجھنے سے اجتناب کرنا) پہلی اور دوسری صدی میں لوگوں کا رواج نہ تھا۔

ہر ماہر اپنے کام کا آغاز ایک چھوٹے مقام سے کرتا ہے۔ رالف والڈو ایمرسن

مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی لیکچرز

    میری (شاہ ولی اللہ کی) رائے یہ ہے کہ بعد کی صدیوں میں ایک نئی چیز پیدا ہوئی جسے تخریج کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ (علمی تاریخ کے تتبع یعنی) مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ چوتھی صدی تک کے اہل علم کسی خاص امام کے مکتب فکر کی تقلید کرنے، اسی میں غور و فکر کرنے اور اسی کو بیان کرتے رہنے کے معاملے میں متفق نہ تھے۔ ان میں علماء اور عام لوگ دونوں شامل تھے۔

L0019-Intslavery-Download

    جہاں تک تو عام لوگوں کا تعلق ہے، تو وہ ان معاملات میں جن میں مسلمانوں یا مجتہدین کی اکثریت میں اتفاق رائے تھا، وہ سوائے صاحب شریعت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے کسی کی تقلید نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ وضو، غسل، نماز، زکوۃ وغیرہ کا طریقہ اپنے والدین یا شہر کے علماء سے سیکھ لیتے تھے اور اس کے مطابق عمل کرتے تھے۔ جب انہیں کوئی مخصوص مسئلہ پیش آتا تو جو بھی (صاحب علم) مفتی انہیں ملتا، بغیر کسی مکتب فکر کی تخصیص کے، وہ اس سے سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔

    جہاں تک خاص (علماء) کا تعلق ہے تو ان میں حدیث کے ماہرین بھی تھے۔ ان کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی احادیث اور آپ کے صحابہ کے آثار موجود تھے۔ انہیں حدیث سے استفادہ کرنے کے علاوہ، جن پر بعض فقہا بھی عمل کرتے ہوں، کسی اور سے سوال پوچھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ان کے لئے اس حدیث یا صحابہ و تابعین کی اکثریت کی رائے پر عمل ترک کر دینے کے لئے کوئی عذر نہیں تھا اور نہ ہی اسے اچھا سمجھا جاتا تھا۔

    جب ان کے پاس کوئی ایسا معاملہ آتا جس کے بارے میں (موجود آراء پر) ان کا دل مطمئن نہ ہوتا ، جیسے آراء کے نقل کرنے میں تضاد پایا جاتا یا کسی ایک رائے کو ترجیح دینا واضح نہ ہوتا، تو وہ ماضی کے فقہاء کے نقطہ ہائے نظر کی طرف رجوع کرتے۔ اگر انہیں دو نقطہ ہائے نظر مل جاتے تو وہ ان میں سے صحیح ترین کو اختیار کر لیتے خواہ وہ مدینہ کے کسی عالم کا نقطہ نظر ہوتا یا کوفہ کے (یا کسی اور شہر کے)۔

کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک طالب علم کو عملی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جدید ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والا کوئی شخص اگر دین کی طرف مائل ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ دین دار افراد کو اپنے معاشی مسائل کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

    ان میں اہل تخریج بھی موجود تھے۔ جب انہیں کسی مسئلے میں واضح بات نہ ملتی تو وہ کسی مخصوص مکتب فکر کے دائرے میں ہی رہ کر اجتہاد کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگ کسی مخصوص مکتب فکر سے وابستہ سمجھے جاتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ فلاں شافعی ہے یا فلاں حنفی ہے۔ ان میں بعض حدیث کے ماہرین بھی کسی ایک مکتب فکر کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اکثر آراء اس مکتب فکر کے مطابق ہیں۔ مثال کے طور پر امام نسائی اور امام بیہقی کو شافعی مکتب فکر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ عدالت کے جج اور مفتی کے منصب پر جو فائز ہوتے تھے، ان کا مجتہد ہونا ضروری تھا اور مجتہد سے کم درجے کے کسی شخص کو فقیہ کا نام نہ دیا جاتا تھا۔

ان ادوار کے بعد کے لوگ ادھر ادھر جانے لگے۔ ان میں نئے نئے امور پیدا ہوئے۔ ان میں علم فقہ کے معاملے میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس کی تفصیل غزالی کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کا دور ختم ہوا تو حکومت ان لوگوں کو مل گئی جو احکام اور فتاوی کے معاملے میں نااہل اور کمزور تھے۔

    یہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ وہ (حکومت چلانے کے لئے) فقہاء سے مدد طلب کریں اور ہر طرح کی صورتحال میں انہیں اپنا ساتھی بنائیں۔ ایسے علماء موجود تھے جو پرانے طریق کار پر قائم تھے اور دین کی عزت برقرار رکھنے کو لازم سمجھتے تھے۔ جب انہیں (حکومتی معاملات میں) طلب کیا جاتا تو وہ ادھر ادھر ہو کر اس سے بچنے کی کوشش کرتے۔ (دنیا داری سے) اس اعراض کی وجہ سے اس دور کے علماء اور ائمہ کی عزت اور مرتبہ برقرار رہا۔

    بعد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو جاہ و منصب اور عزت حاصل کرنے کے لئے علم حاصل کرنے لگے۔ اس کے بعد فقہاء مطلوب کی بجائے طالب بنتے چلے گئے اور وہ لوگ جو بادشاہوں سے دور رہنے کی وجہ سے معزز تھے، اب ان کے گرد اکٹھا ہونے کی بجائے ذلت کا شکار ہو گئے سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے توفیق دی۔

    ان سے پہلے ایسے لوگ تھے جنہوں نے علم الکلام (عقائد کے فلسفے کا علم) میں تصانیف مرتب کیں۔ یہ لوگ اس علم سے متعلق مختلف آرا اکٹھا کرنے، ان کا حوالہ دینے، سوال جواب کرنے، اور بحث و مباحثے کا طریق کار طے کرنے میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس کے نتیجے میں جو کام سینہ بہ سینہ ہو رہا تھا وہ منظر عام پر آنے لگا۔

    بادشاہوں نے اپنی تفریح کی خاطر فقہ خاص طور پر امام ابوحنیفہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہما کے مذہب سے متعلق بحث مباحثوں کو فنانس کر کے ان کی (حوصلہ افزائی کرنا شروع کر دی۔) لوگوں نے علم کلام اور دیگر علمی فنون کو چھوڑ دیا اور شافعی و حنفی مکاتب فکر کے اختلافی مسائل میں اسپیشلائز کرنے لگے۔ انہوں نے امام مالک، سفیان ثوری اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ وغیرہ کے معاملے کو پس پشت ڈال دیا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ وہ یہ سب اس لئے کر رہے ہیں کہ شریعت میں گہرے نکات کو تلاش کیا جائے، مختلف مکاتب فکر کی خامیوں کو بیان کیا جائے اور فتوی دینے کے علم کے اصولوں کو مرتب کیا جائے۔

    وہ لوگ اس معاملے میں نتائج اخذ کرنے اور تصنیف و تالیف میں ضرورت سے زیادہ مشغول ہو گئے۔ اس میں انہوں نے بہت سی اقسام کے بحث و مباحثے اور تصنیفات مرتب کیں اور آج تک یہ اسی کام میں مشغول ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالی (کے دین کو نازل کرنے) کا مقصد یہی تھا جو کچھ بعد کے ادوار میں ہوتا رہا۔ بہرحال یہی ہوتا رہا۔

    ان میں سے بعض وہ لوگ تھے جو (اندھی) تقلید پر مطمئن ہو گئے۔ لاشعوری طور پر تقلید چیونٹی کی رفتار سے ان کے سینوں میں سرایت کرتی چلی گئی۔ اس کا سبب فقہاء کا ایک دوسرے سے مقابلہ اور آپس میں (غیر ضروری) بحث مباحثہ کرنا تھا۔ جب بھی کوئی ایک شخص اپنا نقطہ نظر بیان کرتا تو دوسرا اس کے بالکل الٹ فتوی جاری کر کے اس کی تردید کرنے لگ جاتا۔ اس پر ان کا مناظرہ اس وقت تک جاری رہتا جب تک کہ کوئی شخص قدیم علماء میں سے کسی کی واضح رائے سامنے نہ رکھ دیتا۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک وجہ عدالتی ججوں کا ظلم و ستم بھی تھا۔ جب قاضیوں نے غیر منصفانہ فیصلے کرنا شروع کر دیے اور وہ (پیشہ ورانہ) دیانت داری چھوڑتے چلے گئے تو ان کے ان فیصلوں کو قبول نہ کیا جانے لگا جو اس سے پہلے کئے گئے عدالتی فیصلوں کے مطابق نہ تھے۔

    (تقلیدی روش میں اضافے کی) ایک اور وجہ لوگوں کے لیڈروں کی جہالت بھی تھی۔ لوگ ان لوگوں سے فتوی طلب کرنے لگے جنہیں نہ تو حدیث کا علم تھا اور نہ ہی تخریج کے طریق کار (پہلے سے موجود قوانین کو نئی صورتحال پر منطبق کرنے کا طریق کار) کا علم تھا۔ یہ چیز آپ بعد کے دور کے لوگوں میں عام دیکھ سکتے ہیں۔ ابن ھمام وغیرہ نے اسی پر متنبہ کیا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب غیر مجتہد لوگ، فقیہ کہلائے جانے لگے۔

    ان میں سے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر فن میں (ضرورت سے زیادہ) گہرائی میں جانے کی کوشش کی۔ ان میں وہ بھی تھے جو اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے فنون کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ اس کے لئے وہ قدیم اور جدید تاریخ (سے متعلق روایات) جمع کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے عجیب و غریب روایات کی چھان بین شروع کر دی اگرچہ وہ محض جعلی روایت ہی کیوں نہ ہو۔

    ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو اصول الفقہ میں (غیر ضروری) بحث و مباحثہ کرنے لگے۔ ہر ایک نے (اپنے اپنے مکتب فکر کے بڑے لوگوں کے نتائج فکر سے ان کے) طریق کار سے متعلق قواعد و ضوابط اخذ کرنا شروع کر دیے۔ یہ لوگ انہی معاملات کو اکٹھا کرنے، ان کی چھان بین کرنے، ان سے متعلق سوال و جواب تیار کرنے اور بے جا قسم بندی کلاسیفی کیشنز کرنے میں مشغول ہو گئے۔ کبھی اس پر طویل بحثیں کرتے اور کبھی مختصر۔

    ان میں سے وہ بھی تھے جنہوں نے ایسی خیالی صورت حال فرض کرنا شروع کیں جنہیں اگر کوئی عقل مند سوچے تو اسے ان کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ محسوس ہو گا۔ وہ تخریج کے ماہرین کے طرز بیان سے ایسے ایسے نکات اور عمومی نتائج  اخذ کرنے لگ گئے جنہیں سن کر نہ تو کسی عالم اور نہ ہی جاہل کا ذہن مطمئن ہو سکتا ہے۔۔۔۔

    اس کے بعد خالص تقلید کا دور شروع ہوا۔ اب لوگ نہ تو حق اور باطل میں فرق نہ کرنے لگے اور نہ ہی احکام اخذ کرنے اور ان پر بحث و مباحثہ کرنے میں کوئی تفریق کرنے لگے۔ اب فقیہ اس شخص کا نام ہو گیا جو زیادہ بولتا اور غیر محتاط طریقے سے بحث کرتا ہو، قدیم علماء کی مضبوط اور کمزور آراء میں کسی فرق کے بغیر یاد کرلے اور اسے پورے جوش و خروش کے ساتھ بیان کر دے۔ محدث اس شخص کو کہا جانے لگا جو صحیح و کمزور ہر طرح کی احادیث کو یاد کر لے اور انہیں بغیر سوچے سمجھے زور و شور سے اپنے جبڑوں کی طاقت سے بیان کرنے لگ جائے۔

    میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہر شخص ایسا ہی ہو گیا تھا۔ اللہ کے بندوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جسے ایسے لوگوں کی جہالت سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ یہ لوگ اگرچہ تعداد میں کم ہوں لیکن زمین میں اللہ کی حجت ہوا کرتے ہیں۔

    اس کے بعد کے زمانوں میں فتنوں کی کثرت ہو گئی، اندھی تقلید عام ہو گئی اور لوگوں کے سینوں سے دیانت داری نکلتی چلی گئی۔ لوگوں کو اس بات پر پورا اطمینان ہو گیا کہ دین کے امور میں غور و خوض کو ترک کر دینا چاہیے۔ (گویا یہ کیفیت پیدا ہو گئی کہ) وہ کہنے لگے، ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو اس طریقے پر پایا ہے اور ہم تو انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔ (قرآن، سورۃ زخرف 43:22)

    اس وقت سے لے کر آج تک ان چار مکاتب فکر (حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی) جن کے مسائل کو تحریر کر دیا گیا تھا، کے متعلق امت کا اتفاق رائے ہو گیا کہ جو جس مسلک کی چاہے، تقلید کرنا شروع کر دے۔ اس میں بھی کچھ ایسی مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں ہیں۔ اس دور میں جب عزم و ارادے میں بہت کمزوری واقع ہو گئی تھی، لوگ اپنی نفسانی خواہشات کے عادی ہو گئے تھے اور ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق ہی رائے پسند کرنے لگا (تو تقلید کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔)

    ابن حزم نے (اس معاملے میں اختلاف کرتے ہوئے) کہا کہ تقلید حرام ہے۔ کسی شخص کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے علاوہ کسی اور شخص کی بات کو بغیر دلیل کے قبول کرے۔۔۔۔جہاں تک ان فقہا (یعنی امام ابوحنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمھم اللہ) کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنی تقلید سے منع کیا تھا۔ جس نے ان کی تقلید کی کوشش کی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی۔ اگر ان میں سے ہی کسی شخص کی تقلید کرنا ضروری ہوتا تو پھر سیدنا عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، یا ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کیا اس بات کے زیادہ مستحق نہیں ہیں کہ ان ہی کی تقلید کر لی جائے؟ اگر تقلید جائز ہوتی تو کسی اور کی بجائے ان میں سے ایک کی تقلید کرنا زیادہ درست ہوتا۔ (ابن حزم کی بات ختم ہوئی۔)

    ان میں سے بعض عام لوگ ہوتے ہیں جو فقہاء کی تقلید کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے غلطی نہیں ہو سکتی اور جو کچھ اس نے کہہ دیا وہ مطلقاً درست ہے۔ وہ کسی صورت اس عالم کی تقلید کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے اگرچہ اس کے خلاف واضح دلیل بھی موجود ہی کیوں نہ ہو۔ یہ معاملہ اسی طرح ہے جیسا کہ امام ترمذی نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ آیت سنی، انہوں نے اپنے علماء اور راہبوں کو اللہ کے سوا شریک بنا لیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا، وہ ان علماء و مشائخ کی عبادت تو نہیں کرتے تھے لیکن جب وہ کسی چیز کو حلال کہتے تو یہ بھی اسے حلال قرار دے دیتے اور جب اسے حرام کہتے تو یہ بھی اسے حرام قرار دے دیا کرتے تھے۔

    ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس بات کو جائز نہیں سمجھتے کہ کوئی حنفی کسی شافعی عالم سے سوال پوچھ لے یا کوئی شافعی کسی حنفی عالم سے سوال پوچھ لے۔ وہ حنفی کے لئے شافعی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو غلط سمجھتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات پہلی صدیوں کے اتفاق رائے اور صحابہ و تابعین کے نقطہ نظر کے خلاف ہے اور اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

(مصنف: شاہ ولی اللہ، حجۃ اللہ البالغہ سے انتخاب و ترجمہ: محمد مبشر نذیر)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ شاہ ولی اللہ نے مسلم دنیا میں نفسیاتی غلامی کے ارتقاء کے کیا اسباب بیان کیے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ نفسیاتی و فکری غلامی کے کیا نتائج امت مسلمہ پر مرتب ہوئے؟

علوم القرآن میں تعمیر شخصیت لیکچرز

مسلم دنیا میں ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی کا ارتقاء
Scroll to top