ہر انسان ایک مخصوص طریقے سے سوچتا ہے۔ وہ بعض چیزوں کو ترجیح دیتا ہے اور بعض کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف علوم میں مکاتب فکر سکول آف تھاٹس وجود میں آتے ہیں۔ کسی بھی علمی میدان میں جب کوئی غیر معمولی شخصیت پیدا ہوتی ہے تو وہ اس میں ایسے اضافے کر دیتی ہے جس کی مثال عام لوگوں میں نہیں ملتی۔ جن لوگوں کی طرزفکر اس طرز فکر سے میچ ہو جاتی ہے، وہ اس غیر معمولی شخصیت کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک مکتب فکر وجود پذیر ہوتاہے۔
میں نے جنگ کے ہتھیاروں اور پتھروں کو اٹھا لیا مگر قرض سے زیادہ بوجھل کسی چیز کو نہیں پایا۔ بزرجمہر |
اس کی ایک بڑی مثال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مکتب فکر ہے۔ امام صاحب ایک اعلیٰ درجے کے ذہین و فطین شخص تھے۔ دین کو سمجھنے میں انہیں جو مقام حاصل ہے، وہ بہت کم افراد کو نصیب ہوا۔ انہوں نے دین کو جس طرح سمجھا اور دین کو سمجھنے کے جو اصول وضع کئے، انہیں اس وقت کے ذہین ترین افراد کی تائید حاصل ہوئی۔ امام صاحب نے چن چن کر اپنے گرد ذہین ترین لوگوں کو اکٹھا کیا اور اسلامی قانون کی تدوین سازی کا کام شروع کیا۔
اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے کاروبار سے حاصل ہونے والی آمدنی کو وقف کردیا۔ انہوں نے اپنے قریبی شاگردوں کے گھر کا خرچ تک بھی اٹھا کر انہیں معاشی فکروں سے بے نیاز کردیا۔ اُن کی اِن کاوشوں سے نتیجے میں فقہ اسلامی کا ایک عظیم ذخیرہ وجود میں آیا جو کچھ عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی مملکت کا قانون بن گیا اور تقریباً ایک ہزار سال تک رائج رہا۔
مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری اور دیگر مکاتب فکر بھی اسی طرح وجود پذیر ہوئے۔دوسرے علوم مثلاً نفسیات، معاشیات وغیرہ میں بھی ہمیں ایسی مثالیں ملتی ہیں ۔ علم معاشیات میں ایڈم سمتھ، مارشل ، مارکس اور کینز غیر معمولی شخصیات ہیں جنہوں نے اپنے اپنے مکاتب فکر تشکیل دیے۔ اسی طرح علم نفسیات میں ولیم جیمز، واٹسن، فرائڈ اور ماسلو کے مکاتب فکر زیادہ مشہور ہیں۔ یہی حال دوسرے علوم کا ہے۔
دین دار طبقے کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل ایک مذہبی آدمی خواہ وہ جدید تعلیم یافتہ ہو یا مدارس کا تعلیم یافتہ، اسے اپنی عملی زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تحریر میں مصنف نے ان مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے حل کی تجاویز پیش کی ہیں۔ |
علم کی دنیا میں اپنے طرز فکر کو زیادہ اپیل کرنے والے مکتب فکر کو اختیار کرنا اور اس سے وابستہ ہونا کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔ ہر مکتب فکر کے اہل علم دوسرے مکاتب فکر کا احترام کرتے ہیں اور یہ روایت قدیم دور سے آج تک چلی آ رہی ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک علیہما الرحمۃ کے مابین جس درجے کا احترام پایا جاتا تھا ، اس کی مثالیں عام لوگوں میں بہت کم ملتی ہیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یہ معاملہ اہل علم و دانش کی سطح سے اتر کر عوامی سطح پر اتر آتا ہے۔ جب کسی مکتب فکر پر کوتاہ قامت اور عامیانہ سوچ رکھنے والوں کا اقتدار قائم ہو جاتا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں انہیں اپنے ظرف سے زیادہ مقام مل جاتا ہے تو پھر وہ اپنے علاوہ دوسرے کو حقیر اور غلط سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کے نزدیک اپنے مکتب فکر کی ہر بات درست اور دوسرے کی ہر بات غلط ہو جاتی ہے۔ ان کا سارا زور اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں الٹے سیدھے دلائل فراہم کرنے میں لگ جاتا ہے ، ایک دوسرے سے حسد بغض کی شکل اختیار کرجاتا ہے جو آگے چل کر نفرت کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور پھر مکتب فکرسے مسلک ، مسلک سے فرقہ اور فرقے سے نیا مذہب جنم لیتا ہے۔
اپنے طرز فکر اور مزاج کو اپیل کرنے والے کسی مکتب فکر سے تعلق قائم کرنا کوئی برائی نہیں۔ ہاں جہاں معاملہ مکتب فکر سے بڑھ کر مسلک ، گروہ بندی اور فرقے کی شکل اختیار کرچکا ہو وہاں اس سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔
اگرانسان یہ سمجھ بیٹھے کہ میرے مکتب فکر کے سوا دنیا میں کہیں حق نہیں پایا جاتا اور اسی پر جامد ہو کر اپنے ذہن کے دروازے ہر نئی فکر اور ہر نئی سوچ کے لئے بند کرلے، توپھر اس کے لئے ہدایت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور وہ نفرت اور تعصب کی آگ ہی میں جلتا رہتا ہے۔ اس موقع پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد بڑا معنی خیز ہے، دین کے اصولی و بنیادی معاملات میں تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارا مخالف غلطی پر ہے ، لیکن اجتہادی اور فروعی مسائل میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ہم نے اپنے تئیں درست رائے اختیار کی ہے لیکن اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہم غلط ہوں اور ہمارا مخالف صحیح ہو۔
جو لوگ اپنی شخصیت کی ایک آئیڈیل سطح تک تراش خراش کرنا چاہیں، ان کے لئے لازم ہے کہ وہ خود میں وسعت نظری کو فروغ دیں اور تنگ نظری سے بچیں ورنہ ان کی شخصیت نامکمل رہ جائے گی۔والدین اور اساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے زیر تربیت افراد میں حتی الامکان ہر قسم کے تعصب اور تنگ نظری کو پیدا ہونے سے بچائیں۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ ایک تنگ نظر شخصیت کے کیا اوصاف ہیں؟ اس کا تقابل کھلے ذہن کی شخصیت سے کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ خود کو وسیع النظر بنانے کا طریقہ کیا ہے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت کے لیکچرز