یہی بہتر ہے۔۔۔

مئی کے مہینے کے تیسرے ہفتے میں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کے کئی واقعات شہر کراچی میں پیش آئے۔ دو واقعات میں ڈاکو ہلاک ہوئے اور تیسرے میں پولیس کی آمد کی بنا پر ڈاکو کی جان بچ گئی۔ اس کے علاوہ بعض دیگر واقعات میں مشتعل لوگوں نے شہریوں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو گولی مار کر ہلاک اور زخمی کردیا۔

(بددیانت مذہبی راہنما) خدا کےگھر کو چوروں کی غار بنا دیتے ہیں۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

ان واقعات کو دیکھنے کے ایک سے زیادہ زاویے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ ایک یہ کہ اخلاقی اور قانونی طور پر ایسا کرنا درست نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔ دوسرا یہ کہ یہ پولیس اور عدالت کے نظام پر لوگوں کے عدم اعتماد کا مظہر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔ تیسرا یہ کہ یہ واقعات امن و امان کی اُس بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی ہیں جس میں کوئی شخص محفوظ نہیں اور پریشان حال لوگوں نے تنگ آ کر اپنا انتقام خود لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔ چوتھا یہ کہ سیاسی عدم استحکام، مہنگائی، بدامنی اور عدم تحفظ کے شکار عام شہری اب مایوسی کی آخری سطح پر پہنچ رہے ہیں جس کا اظہار اس طرح کے واقعات ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ پانچواں زاویہ یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات اسلامی شریعت میں مقرر کردہ اِن سزاؤں کی تائید کا کھلا اعلان ہیں، جو بظاہر بہت سخت لگتی ہیں اور انھیں ایک طبقہ وحشیانہ سزائیں سمجھتا ہے، مگر مجرموں کے خلاف عام لوگوں میں جو غصہ پایا جاتا ہے، وہ ہاتھ کاٹنے اور سنگسار کرنے جیسی سزاؤں کے سوا کم نہیں ہوتا۔ شرط یہ ہے کہ یہ کام عوامی عدالت کے بجائے قانونی عدالت کرے۔

ان واقعات کو دیکھنے کے یہ تمام زاویے اپنی جگہ اہم ہیں اور ان پر تفصیلی بات ہوسکتی ہے، مگر ہمارے نزدیک ایک اور زاویہ ایسا ہے جو ہمارے معروضی حالات میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ وہ یہ کہ اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ایک آتش فشاں کے دہانے پر رکھا ہوا ہے۔ کسی روز یہ آتش فشاں پھٹے گا اور پھر ہر طرف آگ، خاک اور خون کی بارش شروع ہوجائے گی۔

دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار
ہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

ہماری اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ اس خطے کے مسلمان تقریباً تین صدیوں سے مسلسل اضطراب، بدامنی، شورش اور بے چینی کا شکار ہیں۔ اورنگزیب کے آخری دور سے شروع ہونے والی مستقل بدامنی، 1857 کی جنگ آزادی اور اس کے بعد کی تباہی، انگریزوں کی غلامی، آزادی کی جدوجہد، آزادی کے وقت ہونے والی قتل و غارت گری، قیام پاکستان کے بعد سے جاری مستقل سیاسی عدم استحکام اور ڈکٹیٹر شپ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بے اندازہ جانوں کا زیاں، روسی قبضے کے بعد افغانستان میں مستقل جنگ و جدل اور اس کے اثرات، 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اثرات، یہ تین صدیوں کی داستان کا وہ مختصر بیان ہے جس میں امن، چین اور سکون کے وقفے شاذ ہی نظر آتے ہیں۔

    اس تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ عوام کی قوت برداشت اب ختم ہوچکی ہے۔ انسانوں کو جلانا، چاہے وہ ڈاکو ہی کیوں نہ ہوں، کوئی معمولی بات نہیں۔ باشعور لوگ جو بھی کہیں، عوام کی اکثریت نے اس فعل کی تائید کی ہے۔ حتیٰ کہ ملک کے سب سے بڑے اخبار میں جو تصویر شائع ہوئی ہے اس میں جلنے والوں کو دکھایا گیا ہے، جلانے والوں کو نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ میڈیا کی ہمدردیاں بھی، شعوری یا لاشعوری طور پر، جلانے والوں کے ساتھ ہیں۔

    معاملات جب یہاں پہنچ جائیں تو اس کے بعد دو ہی شکلیں ظاہر ہوتی ہیں۔ کوئی مخلص اور ہوش مند قیادت لوگوں کے جذبات کو سمجھے اور انھیں درست رخ پر موڑ دے۔ جس کے بعد ایک تعمیری انقلاب آتا ہے۔ اقتدار عوام کے مخلص نمائندوں کے پاس آجاتا ہے۔ لوگ خوشحال ہوتے جاتے ہیں۔ امن امان اور ترقی کا دورشروع ہوجاتا ہے۔ لیکن قیادت اگر کوتاہ نظر، انا پرست اور مفاد پسند ہوتو پھر بھی انقلاب آتا ہے۔ مگر یہ انقلاب بہت خوفناک ہوتا ہے۔ اس میں گناہ گار اور بے گناہ سب برباد ہوجاتے ہیں۔ ڈاکوؤں کے ساتھ پولیس والوں کو بھی زندہ جلادیا جاتا ہے۔ عوامی غیض و غضب سے نہ کسی کی بندوق اسے بچاسکتی ہے نہ اس کے محلات اور دولت۔

    اللہ نہ کرے کہ معاملات اس رخ پر جائیں۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہماری سیاسی قیادت عوام کے جذبات کا رخ پہچان لے۔ یہ ان کے لیے بھی بہتر ہے اور قوم کے لیے بھی۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

 اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں انتہا پسندانہ رویے تشکیل پانے کے اسباب کیا ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ لاقانونیت پھیلانے کے اس عمل میں عوام اور حکومت کا حصہ کتنا کتنا ہے؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

یہی بہتر ہے۔۔۔
Scroll to top