کتنے خوش نصیب ہیں آپ وہ میری طرف دیکھ کر بولا۔ آپ صرف ایک ہی جاب کرتے ہیں جبکہ میں تو صبح آٹھ بجے سے رات بارہ بجے تک نوکری ہی کرتا رہتا ہوں۔ نہ میری نیند پوری ہوتی ہے نہ بیوی بچوں کے لیے میرے پاس وقت ہوتا ہے۔ لیکن ایک نوکری میں آپ کا گذارا کس طرح ہوجاتا ہے؟۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور جواب دیا۔ اس کا بہت سادہ حل ہے وہ یہ کہ اپنی ضروریات اور آسائشوں میں فرق معلوم کرکے زندگی کو ضروریات تک محدود کرنے کی کوشش کرو۔
ہماری خواہشات تین اقسام کی ہوتی ہیں ایک ضروریات، دوسری سہولیات اور تیسری تعیشات۔ پہلی قسم ضروریات پر مبنی ہے۔مثال کے طور پر بھوک مٹانا، پیاس بجھانا، سونا وغیرہ ضروریات ہیں ۔ انہی ضروریات کو جب احسن اور اچھے طریقے سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو سہولیات اور آسائشیں جنم لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر رہایش حاصل کرنا ایک ضرورت ہے جو کسی جھونپڑی سے بھی پوری ہوسکتی ہے لیکن پکا مکان ایک سہولت اور آرام دہ مسکن ہے۔ لیکن جب معاملات پکے مکان سے بڑھ کر ہزاروں گز کی کوٹھیوں تک پہنچتے ہیں تو یہاں سے تعیش کی حدود شروع ہوجاتی ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ضرورت، سہولت اور تعیش آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ان میں تفریق بعض اوقات انتہائی مشکل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ جب ایک شخص اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے قدم بڑھاتا ہے تو وہ تیز رفتاری میں سہولیات اور پھر تعیشات کی حدود پھلانگتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ انہیں بھی اپنی غلط طور پر ضرورتوں میں شامل کرلیتا ہے۔
مثال کے طور پر ایک شخص دس ہزار روپے سے اپنا کیرئیر شروع کرتا ہے ۔ ابتدا میں اس کا ہدف غذا اور دیگر بنیادی ضروریات کا حصول ہی ہوتا ہے۔جب وہ اس میں کامیاب ہوجاتا ہے تو پھر مکان وغیرہ کی تگ و دو کرتا ہے جو کہ ایک جائز کام ہے۔ مکان اور دیگر سہولیات کے حصول کے بعد وہ رکتا نہیں بلکہ وہ تعیش کے مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اب مہنگے ہوٹلوں کا کھانا ، برانڈڈ کپڑے، فرنشڈ مکان، جدید ترین ماڈل کی کار اور قیمتی موبائل جیسے کئی لوازمات اسکی زندگی کا احاطہ کرلیتے ہیں۔
ضروریات کو پورا کرنا اسلام میں فرض ہے ۔ اسی طرح سہولیات کا حصول ایک جائز اقدام ہے لیکن سہولتوں اور تعیشات کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں اگر نیند پوری نہ ہوتی ہو، بیوی بچوں کے حقوق پر ڈاکہ پڑے، نفس کو بے جا تکلیف ہو، ماں باپ کے لئے وقت نہ ہو ، اولاد بے راہ روی کا شکار ہورہی ہو،خدا سے لو لگانے کی ہمت نہ ہو اور عبادات سے بے رغبتی ہو جائے تو یہ ایسے سہولت و آرام کا حصول نا جائز قرار پاتا ہے۔ یہ عمل ایک غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور یہ غلامی کسی فرد یا قوم کی نہیں بلکہ کاغذ کے حقیر نوٹوں کی ہوتی ہے۔
اپنی ضرورتوں اور تعیشات میں فرق پیدا کریں اور جب زندگی کی دوڑ میں حقوق پورے نہ کر پائیں تو رک جائیں کیونکہ یہی عقلمندی ہے۔ (پروفیسر محمد عقیل)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ بعض لوگوں پر دفتر میں باس کی طرف سے پریشر نہیں بھی ہوتا، پھر بھی وہ لیٹ سٹنگ کیوں کرتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ لیٹ سٹنگ کرنے سے انسان کی صحت، فیملی اور روحانیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز