اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
وَإِذْ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ۔
یاد کرو کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گئے۔ اس نے فرمایا، میں تمہیں انسانوں کا امام بنانے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا، کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے۔ فرمایا، میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ (البقرۃ 2: 124)
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی پوری سیرت اللہ تعالی کے حضور تسلیم و رضا کی عظیم ترین مثال ہے۔ آپ کی پوری زندگی اللہ تعالی کے دین کے لئے قربانیوں پر مشتمل ہے۔ اپنی قوم سے اس کے شرک کے باعث علیحدگی اختیار کرنا، ایک جبار اور متکبر بادشاہ سے نڈر ہو کر اسے اللہ کا پیغام پہنچانا، آگ میں پھینکے جانے کو برداشت کرنا، وطن اور گھر بار کو اللہ کے حکم سے چھوڑنا، فلسطین اور عرب کی سرزمین پر اللہ کی توحید کے مراکز قائم کرنا اور پھر اپنی اولاد کو اللہ کے حکم سے قربان کرنا یہ سب تسلیم و رضا کی شاندار مثال ہے۔
جب تم خیرات کرو تو اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹو جیسا کہ ریاکار عبادت خانوں اور گلیوں میں کرتے پھرتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو اجر انہیں ملنا تھا، مل چکا۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
انہی قربانیوں کے باعث اللہ تعالی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو دنیا کا امام بنا دے گا۔ قرآن مجید اور بائبل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے یہی وعدہ آپ کی اولاد کے معاملے میں بھی کیا اور انہیں اسی دنیا میں آخرت کی جزا و سزا کا نمونہ بنا کر رکھ دیا۔ اگر انہوں نے نیکی کی تو بحیثیت قوم انہیں اس کا اجر اسی دنیا میں مل گیا اور جب بھی وہ گمراہ ہوئے تو انہیں اسی دنیا میں سزا دی گئی۔ پہلے یہ معاملہ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے یہ معاملہ بنی اسماعیل کے ساتھ شروع ہوا۔
آج بھی مشرق وسطی بلکہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اولاد ابراہیم کی یہ دونوں شاخیں اپنی غلط فہمی کے باعث یہ سمجھ بیٹھی ہیں کہ ان کا یہ منصب موروثی ہے اور وہ بحیثیت اولاد ابراہیم اس کی حق دار ہیں۔ اسی غلط فہمی کے باعث آپ کی اولاد کی ایک شاخ گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے کوشاں ہے اور دوسری دنیا بھر پر اپنا تسلط قائم کرنے کی فکر میں ہے۔ اس کشاکش کے نتیجے میں دنیا کا امن تباہ ہو رہا ہے۔
قرآن اور بائبل کے دیس میں اس سفرنامے کے مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں گھوم پھر کر خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کیا جائے۔ یہ نشانیاں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ فطرت کی صورت میں ہوں یا اس کی عطا کردہ انسانی عقل نے ان نشانیوں کو تیار کیا ہو، یہ انسان کو ایک اور ایک خدا کی یاد دلاتی ہیں۔ مصنف نے بعض قوموں کے تاریخی آثار کو خدا کے وجود اور اس کے احتساب کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ تفصیل کے لئے مطالعہ کیجیے۔ |
اگر مسلمان قرآن کی اس آیت کو غور سے پڑھیں اور یہود اسی مضمون پر مشتمل کتاب مقدس کی آیات کا مطالعہ کریں تو ان پر یہ واضح ہو گا کہ دنیا کی امامت کا یہ منصب موروثی نہیں ہے بلکہ اس بات سے مشروط ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی اور اس کے دین سے اپنا صحیح تعلق قائم کریں، اس کے تمام رسولوں پر ایمان لائیں، نیکی پر قائم ہوں، ظلم سے اجتناب کریں اور دنیا میں خدا پرستی کا زندہ نمونہ بن کر جئیں۔ اللہ تعالی کے ہاں موروثی تعلق کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اصل اہمیت انسان کے اپنے کردار اور عمل کی ہے۔
قرآن کی اس آیت کا مطالعہ تو آپ کر ہی چکے، اس موضوع پر بائبل کی آیات یہ ہیں؛
(اے بنی اسرائیل!) اگر تم میری شریعت پر چلو گے اور میرے احکام کو ماننے میں محتاط رہو گے تو میں تہمارے لئے بروقت بارش برساؤں گا، زمین اپنی پیداوار دے گی اور میدان کے درخت اپنے پھل دیں گے۔۔۔۔ تم اپنے ملک میں حفاظت سے بسے رہو گے اور میں ملک میں امن بخشوں گا۔ تم سوؤ گے اور کوئی تمہیں پریشان نہ کرے گا۔ میں جنگلی درندوں کو تمہارے ملک سے بھگا دوں گا۔ تلوار تمہارے ملک میں نہ چلے گی۔ تم اپنے دشمنوں کا تعاقب کرو گے اور وہ تہمارے آگے تلوار سے مارے جائیں گے۔ تمہارے پانچ آدمی سو کو اکھاڑ پھینکیں گے اور تمہارے سو آدمی دس ہزار پر غالب آئیں گے۔۔۔۔۔
اگر تم میری نہ سنو گے ۔۔۔ میرے عہد کی خلاف ورزی کرو گے تو میں ناگہانی دہشت، گھلا دینے والی بیماریوں اور بخار کو تم پر بھیجوں گا جو تمہاری بینائی سلب کر لیں گے اور تمہاری جان لے لیں گے۔ تم بیکار بیج بوؤ گے کیونکہ ان کا پھل تمہارے دشمن کھائیں گے۔ میں تمہارا مخالف ہو جاؤں گا اور تم اپنے دشمنوں سے شکست کھاؤ گے۔۔۔۔ میں تمہارے اوپر آسمان کو لوہے اور نیچے زمین کو کانسی کی بنا دوں گا (یعنی تمہیں ان سے فائدہ حاصل نہ ہو گا)۔ زمین تمہیں پیداوار نہ دے گی اور نہ ملک کے درخت تمہیں فائدہ دیں گے۔۔۔۔ میں تمہارے خلاف جنگلی درندوں کو بھیجوں گا، وہ تمہارے بچوں کو اٹھا لے جائیں گے اور تمہارے مویشیوں کو تباہ کر دیں گے۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے شہروں کو کھنڈرات میں تبدیل کر دوں گا ۔۔۔۔ تمہیں قوموں میں منتشر کر دوں گا۔۔۔۔۔ تم اپنے دشمنوں کے ملکوں میں رہو گے ۔۔۔۔ جب تک وہ دشمنوں کے ملک میں رہیں گے، میں ان کو بالکل مسترد نہ کروں گا اور نہ ہی ان کے ساتھ ایسی نفرت کروں گا کہ ان کے ساتھ اپنے عہد کو توڑ کر انہیں فنا کر دوں۔ میں خداوند ان کا خدا ہوں۔ (کتاب احبار، باب 26)
(Islamophobia)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ لوگ اپنے عمل اور کردار کی تعمیر کی بجائے اس بات کو اہمیت کیوں دیتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد بہت اعلی کردار کے حامل تھے؟
۔۔۔۔۔۔ اولاد ابراہیم کے لئے اللہ تعالی کا خصوصی قانون کیا تھا اور اس سے وہ کس غلط فہمی میں مبتلا ہو چکے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز