مئی 2005 کو گلشن اقبال کراچی میں واقع ایک امام بارگاہ پر خود کش حملہ ہوا۔ پولیس نے یہ حملہ ناکام بنادیا اور دونوں حملہ آور مارے گئے۔ البتہ کچھ نمازی زخمی ہوئے۔ اس کے بعد مشتعل مظاہرین نے جلاؤ گھیراؤ شروع کردیا۔ امام بارگاہ سے متصل KFC کے ریسٹورنٹ کو آگ لگادی گئی جہاں موجود چھ ملازمین آگ میں جھلس کر مر گئے۔ مرنے والوں میں میرا ایک عزیز دوست اور رشتہ دار آصف بھی شامل تھا۔ میں آصف کی موت اور نتیجے کے طور پر اس کے خاندان کی بربادی میں عرصے تک خدا کی کوئی مصلحت ڈھونڈتا رہا مگر مجھے احساس ہوتا ہے کہ آصف کی جواں موت اتنی بے مصرف نہیں گئی۔ اس لیے کہ میں اس پیغام کو، اپنی بے سروسامانی کے باعث، ایک رسالے کے قالب میں ڈھالنے کی ہمت نہیں کر پارہا تھا، مگر آصف کی موت نے مجھے مجبور کردیا کہ میں ہر حال میں اس مشن کا آغاز کروں، اس سے قبل کہ پوری قوم اس آگ میں جھلس جائے جس نے آصف اور اس کے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ پیشِ نظر تاثراتی مضمون میں نے اُسی روز لکھا تھا جو قارئین کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ ریحان احمد یوسفی
درست ذہنی رویہ رکھنے والے کو دنیا کی کوئی طاقت کامیاب ہونے سے روک نہیں سکتی اور غلط ذہنی رویہ رکھنے والے کو دنیا کی کوئی طاقت کامیاب کی طرف لے جا نہیں سکتی۔ تھامسن جیفرسن |
ایف آئی آر لکھوانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا مگرمیری خوش قسمتی یہ تھی کہ اس ایف آئی آر کے لیے میں کسی تھانے میںموجود نہ تھا۔ یہ ایف آئی آر ایک قتل کی تھی اور میرا چہرہ آسمان کی طرف تھا۔
میرے کانوں میں ایک غمزدہ ماں اورایک نوجوان بیوہ کے سسکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔رات بھر میں ان کے رونے کی سکت ختم ہوچکی تھی۔میں نے نظر دوڑائی تو آصف کی دونوں معصوم بچیاں اپنے ننھے ہاتھوں میں بسکٹ پکڑے باپ کے جنازے کے گرد منڈلارہی تھیں۔ وہ اتنی کم عمر تھیں کہ یہ بھی نہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ کیا سانحہ پیش آچکا ہے۔ذرا قریب ہی آصف کی بہنیں شدت غم سے نڈھال اپنے جوان بھائی کی ناگہانی موت پر حسرت ویاس کی تصویر بنی بیٹھی تھیں۔ اس جواں مرگ پرہر آنکھ اشکبار اور ہر چہرہ اداس تھا۔
میں جب جب اس منظر کو دیکھتا تومیرا کلیجہ پھٹنے لگتا۔ آصف اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔ بیوہ ماں کا واحد سہارا، بہنوں کی تمناؤں کا مرکزاور دو معصوم بچیوں کا باپ۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آصف کی جوان موت کا غم بڑ ا ہے یا پیچھے رہ جانے والوں کے مسائل زیادہ بڑے ہیں۔ میں غموں کے پہاڑ کو تولنے کے لیے کسی ترازو کی تلاش میں تھا کہ کان میں ایک شخص کی آواز آئی۔ یہ آواز آصف کی خوش قسمتی پر داد دے رہی تھی کہ مرنے والوں میں آصف واحد شخص تھا جس کی لاش صحیح سالم برآمد ہوئی تھی۔ کے ایف سی کو لگائی جانے والی آگ اتنی شدید تھی کہ مرنے والے دیگر نوجوانوں کی لاشیں بری طرح جھلس گئیں تھیں۔ شاید ان کا جرم ہی اتنا بڑا تھا۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن ملک کی ایک فوڈ چین کے نام سے چلنے والے ریسٹورنٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ بھلایہ کوئی معمولی جرم ہے؟
موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟ عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
میں نے ایک نظر آصف کے کفنائے ہوئے جسد پر ڈالی۔ وہ بڑی گہری نیند سورہا تھا۔اس نے محنت بھی تو بہت کی تھی۔مہنگائی کے عفریت سے مقابلہ کرنے کے لیے گھر کا یہ تنہا کفیل دو ملازمتیں کرتا تھا۔KFC اس کی دوسری ملازمت تھی، جہاں رات گئے تک وہ ان لوگوں کی لذتِ کام و دہن کا اہتمام کرتا تھاجو مہنگائی کے مسئلے سے بے نیازہیں۔وہ میری امی سے کہتا تھا کہ میری بڑی خواہش ہے کہ کبھی نیند بھر کر سوجاؤں۔آخر جوانی کی نیند تو جوانی کی ہوتی ہے۔میں نے اسے دیکھا اور کہا ،’’آج تمھاری خواہش پوری ہوئی۔ اب سوجاؤ نیند بھرکے۔‘‘
مجھ سے ضبط نہ ہوسکا۔ میں آصف کے پاس سے ہٹا اور اس کے پاس چلا آیا جو ایک روز تمام سوتے ہوؤں کو جگانے والا ہے۔ میں نے اسے دیکھا اور کہا کہ مجھے ایک ایف آئی آر لکھوانی ہے۔میں آصف کے قتل اور اس کے خاندان کی بربادی کے مقدمے کو تیری بارگاہ میں درج کرانا چاہتا ہوں۔ پوچھا گیا، ’’ کس کے خلاف مقدمہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘
میں نے کہا،’’آگ لگانے والوں کے خلاف اور آگ لگانے والوں میں نفرت اور انتقام کے شعلے بھڑکانے والوں کے خلاف۔ ان لوگوں کے خلاف جن کی تحریریں ذہنوں میں نفرت کا زہر گھولتی اور جن کی زبانیں دلوں میں آتشِ غضب بھڑکاتی ہیں۔جو فرقہ واریت کے اسیر ہیں اور اسی کی زنجیروں میں پورے معاشرے کو جکڑنا چاہتے ہیں۔ جو کسی قوم اور گروہ کی دشمنی پر اترتے ہیں تو عدل کے ہر پیمانے کو بھول جاتے ہیں۔ جو قانون شکنی ،لوٹ مار،جلاؤ گھیراؤ اور جان مال آبروکی بربادی پر لوگوں کو ابھارتے ہیں۔جو تعمیر کے بجائے تخریب سے خوش ہوتے ہیں۔ جوایک قوم اور گروہ کو کافر اور دشمن قرار دیتے ہیں تو اس کے ہر مرد و عورت، بچے بوڑھے، مقاتل و غیر مقاتل کی جان کو مباح قرار دیتے ہیں۔ جو خود کش حملوں کی تربیت دیتے اور ان کی تائید کرتے ہیں۔ جو بے گناہ لوگوں کو اپنے خود ساختہ اصولوں کی بنیاد پر مجرم قرار دے کر انہیں عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو خود نفرت کے اندھیروں کے مسافر ہیں اور اس کے علاج کے لیے نفرت کے مزید اندھیرے تجویز کرتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو خود رب العالمین کے غضب کا شکار ہیں اور اس کے حضور توبہ کرنے کے بجائے مزید لوگوں کو خدا کے غضب میں مبتلا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانوں پر حق کی شہادت دینے کے بجائے ان سے اپنے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر مسلموں کو اسلام کا مدعو بنانے کے بجائے انہیں اسلام کا عدو بنادیا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا کُل سرمایہ وہ نظریہ سازش ہے جس کی عینک لگانے کے بعد ہر شخص اپنا دشمن نظر آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ضد ہٹ دھرمی پر جب اترتے ہیں تو قرآن کا ہر حکم، رسول کا ہر فرمان اورعقل کی ہر بات ان کے سامنے بے وقعت ہوجاتی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اختلاف کرتے ہیں تو اسے عناد تک پہنچادیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کے بندے انہیں صحیح بات کی طرف بلاتے ہیں تو بنی اسرائیل کی طرح ان کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں۔‘‘
جنازہ ظہر کے بعد پڑھا جانا تھا۔جماعت سے پہلے نفل نماز پڑھتے ہوئے جب میں سجدہ میں گیا تو دیر تک سر نہ اٹھاسکا۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ فیصلہ ہوگیا۔ ’’آگ لگانے والوں کے لیے آگ ہے اور آ گ پھیلانے والوں کے لیے محرومی۔ پہلوں کے لیے خداوند کی رحمت سے دوری لکھ دی گئی اور دوسروں کے لیے امت کی امامت سے معزولی۔ رہا آصف تو اس کا استقبال کیا جاچکا۔‘‘
موذن کی صدا آئی اور پروردگار عالم، تمام جہانوں کے مالک کی بڑائی زمین پر بھی اسی طرح بیان ہونا شروع ہوگئی جس طرح آسمانوں پر ہوتی ہے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں انتہا پسندانہ نظریات کو کس طریقے سے فروغ دیا گیا ہے؟
۔۔۔۔۔ ہم کس طریقے سے انسانی جان کی اہمیت کو اپنے معاشرے میں اجاگر کر سکتے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز