ایک امریکی مسلمان لڑکی کی کشمکش

میں بہت بیزار ہوں۔

“کس چیز سے؟”

“ان سب سے جو میرے بارے میں تبصرے کرتے ہیں اور مجھ پر فتوے صادر کرتے ہیں۔”

“کس نے تم پر فتوی صادر کیا؟”

“جیسے اس عورت نے، جب بھی میں اس کے پاس بیٹھتی ہوں تو وہ مجھے حجاب پہننے کا کہتی ہے۔”

“اوہ! حجاب اور میوزک! یہ تو بحث کے تمام موضوعات کی جان ہے۔”

“ہاں! میں بغیر حجاب کے میوزک سنتی ہوں۔ ہا ہاہا!”

“ممکن ہے کہ وہ محض تمہیں مشورہ دے رہی ہو۔”

“مجھے اس کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے اپنے مذہب کا علم ہے۔ کیا وہ اپنے کام سے کام نہیں رکھ سکتی؟”

“شاید تم صحیح نہیں سمجھ رہی ہو، وہ تو بہت اچھی ہے۔”

“وہ اپنے کام سے  کام رکھے۔ پھر واقعی وہ بہت اچھی ہے۔”

“لیکن یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمہیں اچھی بات کی ترغیب دے۔”

“یقین کرو، اس کی باتوں سے مجھے کوئی ترغیب نہیں ملتی  ہے۔ اور ہاں یہ بتاؤ کہ “اچھی بات” سے کیا مراد ہے۔”

 “حجاب پہننا تو اچھی بات ہے۔”

“یہ کس نے کہا؟”

“قرآن مجید نے۔”

“ہاں، اس نے کوئی آیت تو سنائی تھی۔”

“اس نے سورۃ النور اور قرآن کی بعض دیگر آیات سنائی تھیں۔”

“ہاں، لیکن اس میں بہرحال کوئی گناہ تو نہیں ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا اور نماز پڑھنا زیادہ اہم ہے۔”

“صحیح کہا۔ لیکن بڑے کام کرنے کے لیے چھوٹے کام کرنے پڑتے ہیں۔”

“یہ ٹھیک ہے لیکن لباس کا مسئلہ زیادہ اہم نہیں ہے۔ انسان کا دل اچھا ہونا چاہیے۔”

“کیا لباس اہم نہیں ہے؟”

“ہاں، میں نے یہی کہا ہے۔”

“پھر تم روزانہ صبح ایک گھنٹہ تیاری میں کیوں لگاتی ہو؟”

“کیا مطلب؟”

“تم کاسمیٹکس پر روپیہ خرچ کرتی ہو، بال بنوانے پر کئی گھنٹے لگا دیتی ہو اور ڈائٹ کا اتنا خیال رکھتی ہو۔”

“پھر؟”

“اس کا مطلب ہے کہ تمہاری وضع قطع اہم ہے۔”

“نہیں، میں نے کہا ہے کہ دین میں حجاب پہننا اہم نہیں ہے۔”

“اگر یہ دین میں اہمیت نہیں رکھتا تو پھر قرآن میں اس کا ذکر کیوں ہے؟

“تم جانتی ہو کہ میں قرآن کی سب باتوں پر عمل نہیں کر سکتی۔”

“تمہارا مطلب ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں کوئی حکم دیا ہے، ہم اس کی خلاف ورزی کریں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟”

“ہاں! اللہ معاف کرنے والا ہے۔”

“اللہ انہیں معاف کرتا ہے جو توبہ کریں اور گناہوں کو بار بار نہ کریں۔”

“یہ کس نے کہا؟”

“یہ اسی کتاب میں ہے جس نے تمہیں جسم کو ڈھانک کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔”

“لیکن مجھے حجاب پسند نہیں ہے، یہ میری آزادی کو محدود کرتا ہے۔”

“یہ بتاؤ کہ کیا لوشنز، لپ اسٹک، مسکارا اور دیگر کاسمیٹکس تمہیں آزادی دیتے ہیں؟ تمہارے نزدیک آزادی کا مفہوم کیا ہے؟”

“آزادی کا مطلب یہ ہے کہ جو جی چاہے، کرو۔”

“نہیں، آزادی کا مطلب ہے کہ جو درست کام، جی چاہے کرو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو صحیح غلط جی چاہے کرو۔”

“دیکھو، میں نے بہت سی خواتین کو دیکھا ہے جو حجاب نہیں پہنتیں مگر وہ اچھی انسان ضرور ہیں۔ اور بہت سی ایسی خواتین ہیں جو حجاب پہنتی ہیں مگر ان کے اخلاق اچھے نہیں ہیں۔”

“بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر اچھے انسان لگتے ہیں لیکن وہ شراب پیتے ہیں۔ اس کا کیا یہ مطلب ہے کہ ہم بھی شراب پینا شروع کر دیں؟”

“دیکھو، میں انتہا پسند نہیں بننا چاہتی۔ میں حجاب کے بغیر بھی ٹھیک ہوں۔”

“یہ بھی تو انتہا پسندی ہی ہے۔ خدا کو خدا مان کر اس کی بات نہ ماننا بھی تو انتہا پسندی ہے۔”

“تم میری بات سمجھی نہیں، اگر میں حجاب پہنوں تو مجھ سے شادی کون کرے گا؟”

“تمہارا خیال کیا ہے کہ جو لڑکیاں حجاب پہنتی ہیں، ان کی شادی نہیں ہوتی۔”

“او کے۔ پھر اگر میں شادی کر لوں اور میرے خاوند کو حجاب پسند نہ ہو، تو؟”

“اگر تمہارا خاوند تمہیں یہ کہے کہ چلو بینک میں ڈاکہ ڈالتے ہیں؟”

“یہ مثال ٹھیک نہیں، ڈکیتی تو جرم ہے۔”

“تو کیا اپنے خالق کی نافرمانی جرم نہیں؟”

“چلو مان لیا، لیکن پھر مجھے جاب کون دے گا؟”

“ہر ایسی کمپنی جو اپنے ملازمین کی شکل صورت کی نہیں بلکہ صلاحیتوں کی قدر کرتی ہے۔”

“لیکن نائن الیون کے بعد ایسا مشکل ہے۔”

“ہاں ۔ نائن الیون کے بعد بھی تمہیں ملازمت مل سکتی ہے۔ تم حنان کو جانتی ہو جسے میڈیکل کالج میں داخلہ ملا ہے؟ اور وہ سفید حجاب والی لڑکی یاد ہے ، کیا نام تھااس کا؟ ہاں یاسمین۔ اسے ایم بی اے کرتے ہی جنرل الیکٹرک میں جاب مل گئی ہے۔”

“تم لوگ آخر مذہب کو محض کپڑے کے ایک ٹکڑے تک ہی محدود کیوں کر دیتے ہو؟”

“یہ بتاؤ کہ لوگ نسوانیت کو اونچی ایڑی کی جوتیوں اور لپ اسٹک کے رنگ تک ہی محدود کیوں کر دیتے ہیں؟

“تم نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔”

“جواب میں نے دیا ہے۔ حجاب محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہے بلکہ ایک مشکل ماحول میں اپنے رب کی اطاعت کا نام ہے۔ یہ اپنے ایمان پر عمل کا نام ہے اور صحیح نسوانیت کی عکاسی کرتا ہے۔ چست پینٹ او رآدھے بازوؤں کی شرٹ ۔۔۔۔”

“یہ تو فیشن ہے۔ کیا تم کسی غار یا جنگل میں رہتی ہو۔ حجاب ان مردوں نے ایجاد کیا جو عورت کو محکوم بنا کر رکھنا چاہتے تھے۔”

“اگر یہ بات درست ہے تو پھر مجھے کسی ایسے مرد کا علم نہیں ہے جس نے حجاب پہنا کر عورت کو محکوم کر لیا ہو۔ ان خواتین کے بارے میں کیا خیال ہے جن کے مرد حجاب اتروانا چاہتے ہیں اور وہ اس کی جدوجہد کرتی ہیں؟ اور فرانس کی ان خواتین کے بارے میں کیا خیال ہے جنہیں مردوں نے حجاب اتارنے پر مجبور کیا ہے؟ اس کے بارے میں کیا کہو گی؟”

“وہ الگ معاملہ ہے۔”

“کیا الگ معاملہ ہے؟  جو خاتون حجاب پہننا چاہتی ہے، وہ بھی تو عورت ہی ہے۔”

“ہاں، مگر۔۔۔”

“لیکن مردوں کی ملکیت جو کمپنیاں ہیں، انہوں نے جو فیشن ڈیزائن کر دیے ہیں، کیا وہ عورت کو آزاد کر دیتے ہیں؟  کیا وہ مرد ، جو خواتین کو بے لباس کر کے ایک قابل استعمال چیز کی طرح استعمال کرتے ہیں، انہیں آزادی دیتے ہیں؟”

“مجھے اجازت دو۔۔۔”

“ایک منٹ ٹھہرو، مجھے بات پوری کر لینے دو۔”

“ہم کیا بات کر رہے تھے کہ حجاب کے ذریعے مرد عورتوں کو محکوم بنا لیتے ہیں۔”

“ہاں۔”

“کیسے؟”

“خواتین کو یہ بتا کر کہ انہیں کب کیا پہننا چاہیے۔ اس طرح وہ انہیں بے جان مخلوق بنا دیتے ہیں۔”

“کیا خیال ہے کہ یہ ٹی وی، میگزین اور فلمیں نہیں بتاتیں کہ عورت کو کیا پہننا چاہیے؟ اور کس چیز سے وہ پرکشش لگیں گی؟”

“بالکل، لیکن یہ تو فیشن ہے۔”

“کیا یہ ان خواتین کو کنٹرول کرنا نہیں ہے؟”

۔۔۔خاموشی۔۔۔

“یہ کمپنیاں نہ صرف خواتین کو کنٹرول کرتی ہیں بلکہ اس طرح پوری مارکیٹ کو کنٹرول کرتی ہیں۔”

“کیا مطلب؟”

“میرا مطلب ہے کہ میگزین کے کور پر جس عورت کی تصویر ہوتی ہے، اس کی مدد سے مرد اپنی پراڈکٹس بیچتے ہیں۔”

“میں سمجھی نہیں، حجاب کا ان پراڈکٹس کے ساتھ کیا تعلق؟”

“اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ ذرا سوچو، حجاب دراصل کنزیومر ازم کے لیے ایک خطرہ ہے۔ خواتین اربوں ڈالر اس چیز پر خرچ کرتی ہیں کہ وہ دبلی نظر آئیں اور مردوں کے ڈیزائن کیے ہوئے فیشن کے مطابق کپڑے پہنیں۔ ۔۔۔ یہاں اسلام کہتا ہے کہ ان کی ان باتوں پر توجہ نہ دو اور اپنی روحانیت پر توجہ دو۔ اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ غیر مرد تمہیں دیکھ کر کیا کہیں گے۔”

“میں حجاب بھی تو خریدوں گی، وہ کیا پراڈکٹ نہیں ہے؟”

“ہاں، ہے۔ لیکن یہ ایسی پراڈکٹ ہے جو تمہیں مردوں کا محکوم بنانے والے کنزیومر ازم سے نجات دے گی۔”

“اچھا، اپنا لیکچر بند کرو۔ میں حجاب نہیں پہنوں گی۔ یہ معاشرے کے فیشن کے خلاف ہے۔ میں ابھی بیس سال کی ہوں اور ابھی سے بڑھیا لگوں گی۔”

“ٹھیک ہے۔ جب تم اللہ تعالی سے آخرت میں ملو گی تو ان سے یہی کہہ دینا۔”

“ٹھیک ہے۔”

“ٹھیک ہے۔”

۔۔۔ خاموشی۔۔۔۔

“اب حجاب نقاب سیماب پنجاب پر بات نہ کرنا۔”

۔۔۔ خاموشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے آئینے کی طرف دیکھا۔ وہ اتنی دیر سے  اپنے ذہن ہی میں دلائل کا تبادلہ کر رہی تھی۔ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے ایمان کی آواز پر معاشرے کی آواز کو فوقیت دی تھی۔

“ہاں۔” بالوں کو گھنگریالہ کرتے ہوئے اس کے ذہن میں سے کسی نے کہا۔

“نہیں۔” اس نے جواب دیا۔

“میں انسانی شخصیت  کو گواہی میں پیش کرتا ہوں اور اسے جس نے اسے تخلیق کیا۔ پھر اس کی نیکی اور اس کی بدی کو  اس کی شخصیت کا حصہ بنایا۔ کامیاب ہوا وہ جس نے اس (نیکی کے جذبے کو) پروان چڑھایا اور نامراد ہوا وہ، جس نے اس (نیکی کے جذبے )کو دبا دیا۔ ”  آواز آئی۔

سبحان اللہ۔

“نہیں!!! تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو جبکہ آخرت اس سے بہتر ہے اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔” ضمیر کی آواز نے پھر جھنجوڑا۔ 

” تم بہترین امت ہو، جو انسانیت میں ظاہر ہوئیں تاکہ تم نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔”

آخر کار، وہ ہار گئی مگر درحقیقت جیت گئی۔ اس کے ضمیر کی آواز کسی صورت  میں دبنے میں نہ آ رہی تھی۔ جیسے ہی اس نے  ضمیر کے فیصلے پر سر جھکایا، اس کا ذہن سکون میں آ گیا۔ اب وہ پوری طرح مطمئن تھی۔ وہ خود کو بہت طاقتور محسوس کر رہی تھی اور اسے کسی کی پرواہ  نہ تھی۔  ” اے اللہ! مجھے استقامت دینا۔” یہ فیصلہ کر کے وہ اٹھی اور الماری کی طرف جا ہی رہی تھی جہاں اس کا پرانا حجاب رکھا تھا کہ والدہ کی آواز سنائی دی۔

“بیٹی! مبارک ہو۔ ابھی ابھی سن کر آ رہی ہوں، تمہارے ڈیڈ فون پر اپنے دوست سے بات کر رہے تھے۔ وہ لوگ تمہارے رشتے کے لیے آ رہے ہیں۔ لڑکا  کم عمری ہی میں ایک بہت بڑا  بزنس ٹائیکون بن چکا ہے۔ وہ بہت بڑے کاروبار کا مالک ہے لیکن ساتھ ہی بہت دین دار بھی ہے۔ ان کا بس ایک مطالبہ ہے کہ لڑکی دین دار ہونی چاہیے اور باحجاب ہونی چاہیے۔”

 (نو مسلم امریکی اسکالر یوسف ایسٹیس  کی تحریر سے ماخوذ)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ جب ایک خاتون حجاب پہننے کا ارادہ کرتی ہے، تو اسے کیا مشکلات پیش آتی ہیں؟

۔۔۔۔۔ ان میں سے کون سی مشکلات حقیقی ہوتی ہیں اور کون سی محض ہمارے اپنے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

ایک امریکی مسلمان لڑکی کی کشمکش
Scroll to top