ارشاد باری تعالی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ وَلا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْراً مِنْهُنَّ وَلا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلا تَنَابَزُوا بِالأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمْ الظَّالِمُونَ۔
اے ایمان والو! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ ہی خواتین، دوسری خواتین کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن و تشنیع نہ کیا کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کیا کرو۔ ایمان لانے کے بعد فاسقانہ نام بہت ہی بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے توبہ نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔ (الحجرات 49:11)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مذکور الصدر آیتوں میں اشخاص و افراد کے باہمی حقوق و آداب معاشرت کا ذکر ہے۔ ان میں تین چیزوں کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ اول کسی مسلمان کے ساتھ تمسخر و استہزاء کرنا، دوسرے کسی پر طعنہ زنی کرنا، تیسرے کسی کو ایسے لقب سے ذکر کرنا جس سے اس کی توہین ہوتی ہو یا وہ اس سے برا مانتا ہو۔
کتاب الرسالہ از امام شافعی یہ کتاب امام شافعی نے اب سے بارہ سو سال پہلے لکھی تھی اور اس کا مقصد اصول فقہ کے فن کو مدون کرنا تھا۔ اس کتاب کا آسان اردو زبان میں اب تک ترجمہ نہ ہو سکا تھا۔ یہ ترجمہ اب دستیاب ہے۔ یہ کتاب ان اصولوں کو بیان کرتی ہے جن کا خیال رکھنا قرآن و سنت میں غور کرنے کے لئے ضروری ہے۔ |
پہلی چیز سخریہ یا تمسخر ہے۔ قرطبی نے فرمایا کہ کسی شخص کی تحقیر و توہین کے لئے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں، اس کو سخریہ، تمسخر، استہزاء کہا جاتا ہے۔ اور یہ جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھ پاؤں وغیرہ سے اس کی نقل اتارنے یا اشارہ کرنے سے بھی ہوتا ہے۔ اور اس طرح بھی کہ اس کا کلام [بات] سن کر بطور تحقیر کے ہنسی اڑائی جائے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ سخریہ و تمسخر کسی شخص کے سامنے اس کا ایسی طرح ذکر کرنا ہے کہ اس سے لوگ ہنس پڑیں اور یہ سب چیزیں بنص قرآن حرام ہیں۔۔۔۔
اس آیت کو سن کر سلف صالحین کا حال یہ ہو گیا تھا کہ عمرو بن شرحبیل نے فرمایا کہ اگر میں کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتے دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آ جائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہو جاؤں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں اگر کسی کتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہ میں خود کتا نہ بنا دیا جاؤں۔ (قرطبی)۔۔۔
دوسری چیز جس کی ممانعت اس آیت میں کی گئی ہے، وہ لمز ہے۔ لمز کے معنی ہیں کسی میں عیب نکالنے اور عیب ظاہر کرنے یا عیب پر طعنہ زنی کرنے کے ہیں۔ علماء نے فرمایا ہے کہ انسان کی سعادت اور خوش نصیبی اس میں ہے کہ اپنے عیوب پر نظر رکھے، ان کی اصلاح کی فکر میں لگا رہے اور جو ایسا کرے گا اس کو دوسروں کے عیب نکالنے اور بیان کرنے کی فرصت ہی نہ ملے گی۔ ہندوستان کے آخری مسلمان بادشاہ ظفر نے خوب فرمایا ہے۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا
تیسری چیز جس سے آیت میں ممانعت کی گئی ہے وہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا ہے جس سے وہ ناراض ہوتا ہو، جیسے کسی کو لنگڑا، لولا یا اندھا کانا کہہ کر پکارنا۔۔۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ آیت میں تنابز بالالقاب سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا ہو اور پھر اس سے تائب ہو گیا ہو، اس کو اس برے عمل کے نام سے پکارنا مثلاً چور یا زانی یا شرابی وغیرہ۔۔۔ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کر لی ہے تو اللہ نے اپنے ذمہ لے لیا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔ (قرطبی)
(مصنف: مفتی محمد شفیع، معارف القرآن سے اقتباس)
لوہے کے گرم ہونے کا انتظار مت کیجیے بلکہ چوٹ لگا لگا کر اسے گرم کر لیجیے۔ ویلیم بی اسپریگ |
افسوس کی بات ہے کہ اس آیت میں بیان کردہ احکامات کی ہمارے ہاں بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کی جاتی ہے۔ عام لوگ تو ایسا کرتے ہی ہیں مگر ہمارے مذہبی راہنما اس بھی آیت کی خلاف ورزی میں پوری طرح ملوث ہیں۔ جب کسی معاملے میں ہمارا اختلاف رائے ہو جاتا ہے، تو ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مختلف نقطہ نظر رکھنے والا ہر شخص گمراہ اور بے دین ہے۔ اس آیت میں بیان کردہ احکامات کا اس شخص سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس شخص کی جان، مال اور آبرو محترم نہیں ہے۔
اس کے بعد ہر طریقے سے ہم مختلف نقطہ نظر رکھنے والے شخص کو رسوا کرنے کی مہم کا آغاز کر دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے بازاری زبان استعمال کی جاتی ہے۔ مخالف پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ اس کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اگر اس کی کوئی حقیقی خامی دستیاب ہو جائے تو اسے ہر ممکن ذریعے سے مشہور کر دیا جاتا ہے۔ اگر حقیقی خامی دستیاب نہ ہو سکے تو اس کی طرف ایسی برائیاں منسوب کر دی جاتی ہیں جو کہ اس میں حقیقتاً پائی نہیں جاتیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سارا عمل دین کی خدمت کے نام پر کیا جاتا ہے۔
یاد رکھیے کہ اگر ہم کسی شخص کے نقطہ نظر کو درست نہیں بھی سمجھتے، تب بھی ہمیں صرف اسی بات کا حق ہے کہ ہم شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے اس کے نقطہ نظر کی خامی کو دلائل کے ساتھ واضح کر دیں۔ اس سے آگے بڑھ کر کسی کی کردار کشی کرنا، قرآن مجید کی رو سے ہمارے لئے جائز نہیں ہے۔ اگر ہم نے اس کا ارتکاب دین کے نام پر کیا، تو یاد رکھیے کہ روز قیامت ہمارا گریبان اس شخص کے ہاتھ میں ہوگا۔ اس وقت ہماری نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں منتقل کر دی جائیں گی۔
اگر بالفرض وہ شخص جہنم کا مستحق بھی ہوا، تب بھی دنیا میں کی گئی ہماری کردار کشی کی وجہ سے جہنم میں اس کی سزا میں تخفیف کر دی جائے گی۔ دوسری طرف ہمیں اپنی نیکیوں کا جو نقصان برداشت کرنا پڑے گا، اس کی بدولت ممکن ہے کہ ہمارا ٹھکانہ بھی جہنم میں اسی شخص کے ساتھ کر دیا جائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اپنی زیادتی کے باعث ہمیں اتنی زیادہ نیکیاں اس شخص کو دینی پڑ جائیں کہ ہماری نیکیاں ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد ہمیں اس کے گناہ اپنے ذمے لینا ہوں گے۔ عین ممکن ہے کہ اس طریقے سے گناہوں سے نجات حاصل کرنے کے بعد وہ جنت میں داخل ہو جائے اور ہمیں اپنی زیادتی کی پاداش میں جہنم میں جلنا پڑے۔
اگر ہم کسی کے نقطہ نظر سے اختلاف بھی رکھتے ہوں تو ہمیں بس اسی کا حق ہے کہ اس کے نقطہ نظر کی غلطی کو واضح کر دیں۔ ہمیں بس نظریات پر تنقید تک ہی محدود رہنا ہوگا۔ نظریات سے آگے بڑھ کر کسی شخص کی ذات پر تنقید کرنا ہمیں جہنم کی سزا کا مستحق بنا دینے کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے سابقہ رویے پر توبہ کریں، متعلقہ شخص سے معافی مانگیں اور آئندہ کے لئے اس جرم کا ارتکاب نہ کرنے کا عزم کریں۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو۔
محمد مبشر نذیر
ہم صرف اپنی شخصیت کی تعمیر کے لئے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ اپنے بیوی بچوں، عزیز و اقارب اور دوستوں کی شخصیت کے تعمیر کے ذمے دار بھی ہیں۔ اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ اس تحریر سے شخصیت سازی میں مدد ملتی ہے تو اسے ان تک بھی پہنچائیے۔اپنے سوالات اور خیالات ای میل کر کے دوسروں کی مدد کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ اپنی زندگی کا کوئی ایسا واقعہ بیان کیجیے جس میں کسی شخص نے آپ کے کسی دوست کا مذاق اڑا کر اسے رسوا کیا تھا۔ اس دوست پر اس کا کیا اثر ہوا تھا۔ اپنے دوست کی کیفیت کا ایک پیراگراف میں نقشہ کھینچیے۔
۔۔۔۔۔۔ دو وجوہات بیان کیجیے کہ لوگ دوسروں کا تمسخر کیوں اڑاتے ہیں۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز