دینی درد

طلبا کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا جلوس یونیورسٹی سے روانہ ہوا۔ عزم وہمت سے روشن یہ سب چہرے وطن عزیز میں اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے تھے۔ نعرے لگانے کے عمل میں ہر نوجوان دوسرے سے آگے بڑھنا چاہ رہا تھا۔اس اثنا میں ایک طالب علم کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی، اس نے رینگتی ہوئی بس کی چھت سے چھلانگ لگائی اور سڑک کنارے درخت کی اوٹ میں کھڑے کھڑے پیشاب کیا اور پیشاب کے پس ماندہ قطروں کو اپنے ہی لباس میں سمیٹتا ہوا واپس بس کی طرف بھاگا اور دوسرے سے مائیک چھین کر پرزور نعرہ لگایا: غلام ہیں غلام ہیں، نبی کے غلا م ہیں۔۔۔۔ اسلامی انقلاب ۔۔ زندہ باد۔

اسلام کے لیے مرنے والوں کایہ جلوس ،جنہیں اسلام کے لیے جینا مشکل لگتا تھا،جب بدقت اسمبلی ہال پہنچا تو ان کا جذبہ جہاد عروج پر پہنچ چکا تھا۔ اس کے اظہار کے لیے انہوں نے وہاں موجود اُن چند کاروں کو نذر آتش کر دیاجنہیں ان کے مالکوں نے قرض لے کر خریدا تھااور جب اسی جذبے میں ایک بلڈنگ بھی آگ کے حوالے ہوئی تو ہر طرف سرخ روشنی پھیل گئی اورنوجوانوں کا مقصد روشنی پھیلانا ہی تو تھا۔اس جلوس کے چشم دید گواہ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنی دھن کے بہت پکے تھے ۔وہ پولیس کے آگے بھاگتے ہوئے بھی مسلسل یہ کہتے جا رہے تھے کہ” غلام ہیں غلام ہیں، نبی کے غلا م ہیں۔۔۔۔ اسلامی انقلاب، زندہ باد۔”

جلوس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا ۔ لوگ جہاد کا ثواب سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو سدھارے ۔ اگلے روز اخبارات میں بڑی بڑی خبریں شائع ہوئیں۔سب نے بہت دلچسپی سے جلوس کی روداد پڑھی۔ مگر اکثر لوگوں کی نگاہوں سے یہ خبر اوجھل رہ گئی اور ویسے بھی یہ خبر ایک کالم میں بہت باریک سی چھپی تھی کہ جلتی ہوئی بلڈنگ سے بھاگ کر جان بچانے کی کوشش کرنے والا ایک ملازم سیڑھیوں سے گر کر جان بحق۔یہ ملازم آٹھ بچوں کا واحد کفیل تھا۔

٭٭٭

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانوں اور پروانوں کا قافلہ ایک مذہبی جلوس میں شرکت کے لیے سیکڑوں ٹرکوں ،ٹرالیوں، کاروں ، بسوں ،اور پےدل جوانوں اور بچوں کی صورت میں لاہور کے صد ر بازار کی جانب رواں دواں تھا ۔ہر چہر ہ روشن اور خوش تھا۔ آخر خوش کیوں نہ ہوتا نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا ثبوت فراہم کرنے کاموقع آن پہنچا تھا اور یہ موقع کوئی روز روز ملتاہے ۔ سال بھر میں یہ ایک ہی تو دن ہوتا ہے ۔ آخر یہ بھی کیا مسلمانی ہوئی کہ ایک دن بھی مسلمان گھر سے نکل کرکاروان عشق میں شامل نہ ہوں؟ ہر موٹر اور ہر گاڑی پر نعت خوانی جاری تھی۔ اگرچہ بعض نعتیں سن کر بعض لوگوں کی زبان پر فلمی گانوں کے بول بھی آجاتے تھے مگر دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ان کا ایمان بہت قوی تھا، وہ فوراً شیطان پر لعنت بھیج کر نعتیں پڑھنے لگتے تھے۔

سب لوگوں کا نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کاجذبہ دیدنی تھا۔ان کے عزم سے لگتا تھا کہ آج وہ یہ فیصلہ کرکے آئے ہیں کہ اب زندگانی کا کوئی ایک لمحہ بھی نبی علیہ الصلوۃ والسلام (فداہ ابی و امی) کی اطاعت سے باہر نہ گزرے گا۔ جلوس صد ر کے گول چوک میں پہنچا تو ظہر کی اذان ہورہی تھی۔کچھ لوگوں نے جلوس روک کر نماز پڑھنا چاہی تو جلوس کے لیڈر نے عشق و محبت میں ڈوبی آواز میں کہا: سجنو، سال بعد ایک ہی تو دن آتا ہے ،نعتیں پڑھتے چلو اورعشق رسول میں آگے بڑھتے چلو۔

اسی اثنا میں دو سمتوں سے دو ایمبولینسیں آن رکیں۔ ایک میں ہارٹ اٹیک کا مریض جاں بلب تھا اور دوسری میں درد زہ میں مبتلا ایک خاتون۔ دونوں سی ایم ایچ جانا چاہتے تھے لیکن راستہ ندارد ۔ ڈرائیور سائرن پر سائرن بجا رہے تھے مگر شور میں کو ن سنتا ۔ بالآخر آد ھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ڈرائیور بیچارے بمشکل اور بہ منت تمام راستہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے لیکن جب ہسپتال پہنچے تو ہارٹ اٹیک کا مریض تو بالکل ہی جا ن ہار چکا تھا البتہ زچہ کے سانس ابھی باقی تھے ۔ اسے بچا لیا گیا جب کہ اس کے پیٹ سے چار بہنوں کے بعد پیدا  ہونے والا اکلوتا بیٹا رخصت ہو گیا۔لوگ کہتے ہیں کہ ہسپتال کے اندر ڈاکٹر لواحقین سے یہ کہہ رہے تھے کہ اگر آدھ گھنٹا قبل یہ مریضہ پہنچ جاتی تو شاید ہم بچے کو بھی بچانے میں کامیاب ہو جاتے اور ہسپتال سے باہر محبت رسول میں غرقاب یہ صدائیں مسلسل آرہی تھیں: نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت ۔۔۔۔

اسی شام جب مردہ بچے کاباپ اسے ہاتھوں پہ لیے قبرستان جا رہا تھا تو اسے بہت قلق ہو رہا تھا کہ اس برس وہ جلوس میں شمولیت کے ثواب سے محرو م رہ گیا ۔ اسے یاد آیا کہ پچھلے برس وہ کتنی عقیدت اور ذوق و شوق سے جلوس میں شامل ہوا تھا۔ اس نے نہ صرف تین ٹرالیاں فراہم کی تھیں بلکہ جلوس میں راستہ تلاش کرتی ہوئی ایک ایمبولینس کی چھت پر چڑھ کر پوری طاقت سے یہ نعر ہ بھی لگایا تھا: نعرہ  تکبیر، نعرہ رسالت ۔۔۔۔

٭٭٭

مولوی صاحب کی دکان پر دودھ خریدنے والوں کا بہت ہجوم تھا۔ ان کے میٹھے بول اور اخلاق سے سبھی بہت متاثر تھے، اسی لیے تووہ دور دور سے دودھ لینے یہیں آتے ۔ سب کو اعتماد تھا کہ یہاں دودھ بہت خالص ملتا ہے اور ویسے بھی مشہور تھا کہ ان کی دکان کا ددوھ بہت گاڑھا ہوتا ہے اور اس پر ملائی بھی خوب آتی ہے ،اور یہ بات ہے تھی بھی ٹھیک۔یہ بات ٹھیک کیوں نہ ہوتی آخر مولوی صاحب کا حاجی صاحب سے خاص تعلق تھا اور وہ ہمیشہ انہی کی فیکٹری سے مال منگواتے تھے۔حاجی صاحب کی بندروڈ پر ہڈیاں کرش کرنے کی بڑی فیکٹری تھی اور ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہڈیوں سے جیلی ، جیلٹن اور سفوف وغیرہ بناتے ہوئے یہ خاص احتیاط کرتے ہیں کہ ان میں مردار جانوروں، گدھوں اور کتوں کی ہڈیاں شامل نہ ہوں اگرچہ کرش کرنے والے پلانٹ کے سپر وائزر نے مولوی صاحب کو بتا یا تھا کہ عملاً یہ ہوتا نہیں لیکن مولوی صاحب کہتے تھے کہ ہمیں حاجی صاحب کی بات پر یقین کرنا چاہیے۔

مولوی صاحب کی دکان پر گاہکوں کا رش بڑھتا جا رہاتھا اور ادھر مغرب کی اذان شروع ہو چکی تھی۔ مولوی صاحب نے’ ‘چھوٹے ”کو آواز دی اور اسے ایک ڈول میں ہڈیوں کا سفوف خاص اورچند دوسری پڑیاں دیتے ہوئے کہا: جلدی دودھ تیار کرو، میں اتنی دیر میں نماز پڑھ کر آتاہوں۔

٭٭٭

شیخ صاحب کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا ۔ ماشاء اللہ پہلے گھی کی ایک مل تھی اب دو ہو چکی تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دین کی خدمت میں بھی بہت سر گرم عمل رہتے تھے ۔ پہلے ہر سال بڑی دھوم دھا م سے محفل نعت کرواتے تھے اور اس میں عمرے کے تین ٹکٹ خا ص اپنی گرہ سے دیتے تھے لیکن جب سے ایک دینی جماعت کے ساتھ ان کا تعارف ہوا تھا، ان کی تو گویا دنیا ہی بدل گئی تھی۔اب ان کی زبان پر ہر وقت ماشا ء اللہ ، سبحان اللہ اور اللہ اکبر کا ورد رہتا۔ چلہ لگانے کے بعد تو ان کی زبان کی مٹھاس اور بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ لوگوں سے بھی بہت اخلاق سے پیش آتے اور ہر وقت ہر ایک کو راہ خدا میں وقت دینے کی دعوت دیتے رہتے ۔ وہ جان چکے تھے کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد دین کی دعوت ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ملازموں کی تنخواہوں میں بھی ایک فیصد اضافہ کر دیا تھا کیونکہ ان کا منافع سو فیصد بڑھ چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پچھلے برس انہوں نے کیمسٹری کے جو دو ماہر بھرتی کیے تھے انہوں نے شیخ صاحب سے بہت تعاون کیا تھا۔ ان ماہرین نے اگرچہ شیخ صاحب کو یہ بتایا تھا کہ اگر گھی سے ‘نکل’ اور دوسرے کیمیکل صاف نہ کیے جائیں تو کینسر کا خطرہ ہوتا ہے مگر شیخ صاحب نے فرمایاتھا کہ نکل اور کیمیکلز میں کیا طاقت ہے کہ وہ کینسر پیداکریں، کینسر تو اللہ کے حکم ہی سے ہو گا۔ انہوں نے اپنے ملازمین کو بتایا تھا کہ اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اورمخلوق سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دلوں میں آجانا چاہیے اور ان ماہرین نے بھی اس بات سے اتفاق کیا تھا کہ نکل، کیمیکلز سب مخلوق ہی تو ہیں۔

واقف حال کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں شیخ صاحب صرف وہ گھی استعمال کرتے تھے جو اس دوران میں بنتا تھا جب وہ اللہ کی راہ میں دعوت و تبلیغ کے لیے گئے ہوتے تھے۔آخر وہ ماہرین بھی مسلمان تھے اور ویسے بھی انہیں معلوم تھا کہ شیخ صاحب یہ پسند نہیں کرتے کہ جب وہ اللہ کی راہ میں ہوں تو کوئی سپیشل کام کیا جائے۔ (محمد صدیق بخاری)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ان واقعات میں جو  رویے بیان ہوئے ہیں، ان کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ انجیل متی میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک وعظ نقل ہوا ہے ۔ اسے پڑھ کر بتائیے کہ اس تحریر میں بیان کردہ واقعات کی اس وعظ سے کیا مناسبت ہے؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

علوم الحدیث کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

دینی درد
Scroll to top