کچھ عرصہ قبل صدر پاکستان پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس حملے کے بعد صدر کی سیکیورٹی کے انتظامات بے حد سخت کردیے گئے۔ ان کے گزرنے کے ہر راستے کو عوام کے لیے بند کرنا ایک معمول بن گیا۔ اس کا ایک ذاتی تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد اسلام آباد سے کراچی آنے کے لیے ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ میرے ساتھ گاڑی میں معروف کالم نگار جناب ارشاد احمد حقانی اور اقبال اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب سہیل عمر بھی موجود تھے۔ ہماری گاڑی کو ائیر پورٹ کے پاس روک لیا گیا۔ تقریباً دو گھنٹے تک شدید سردی میں ہزاروں گاڑیاں راستے میں کھڑی رہیں۔
لوگ بار بار پولیس والوں کے پاس جاتے اور اپنی ناراضی کا اظہار کرتے۔ ان میں ہمارے جیسے مسافر بھی تھے جو اپنی فلائٹ چھوٹ جانے کے خوف سے سخت پریشان تھے۔ دو گھنٹے بعد جب حکام کی سواریاں گزرگئیں تو ٹریفک کھولا گیا۔ صدر کی بیرونِ ملک روانگی کی بنا پر زمین کے ساتھ فضائی ٹریفک بھی روک دیا گیا تھا۔ اس ’مہربانی‘ کی بنا پرہم بروقت جہاز میں سوار ہونے میں کامیاب رہے۔
میں جہاز میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ ہم لوگ حکمرانوں کے جس رویے سے نالاں ہیں، اس کا مظاہرہ تو ہم بھی کرتے ہیں۔ ہمارا جب دل چاہتا ہے کسی بھی راستے کو بند کردیتے ہیں۔ کبھی کسی تقریب کے لیے اور کبھی کسی جلسہ جلوس کے لیے۔ خاص کر ہجری کلینڈر کے ابتدائی تین مہینے تو مذہبی جلسے جلوسوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ ان میں راستے بند ہونا اور ٹریفک جام ہونا معمولات میں شامل ہے۔ اس پر کبھی کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ کوئی نہیں کہتا کہ لوگو! تم اس نبی کے نام لیوا ہو جس نے راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کہا ہے۔ اس کے بجائے میڈیا میں شہ سرخیوں کے ساتھ اس مذہبی جوش خروش کی تفصیل شائع ہوتی ہے۔
میں نے جہاز کی نشست پر سر ٹکا کر ایک ٹھنڈی آہ بھری اور سوچا کہ اس ماحول میں میرے لیے بھی عافیت کا راستہ خاموشی ہے۔ کیونکہ آج کی دنیا میں حکمرانوں کیخلاف بولنا آسان ہے، مگر عوام کے خلاف بولنا بہت مشکل ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ میں بھی منافقت کے سایہ میں پناہ لے لوں۔ حکمرانوں پر تنقید کروں اور عوام کی غلطیوں پر بے معنی مگر خوبصورت الفاظ کا پردہ ڈال دوں۔ یہی اس قوم میں جینے کا ڈھنگ ہے۔ یہی اس ملک میں کامیابی کا طریقہ ہے۔ یہی عافیت کا راستہ ہے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
ہمارے حکمرانوں اور عوام کے رویوں میں کیا مماثلت پائی جاتی ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز