قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ اس واقعے کی جو تفصیلات قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں بیان ہوئی ہیں ان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو زمین پر خلیفہ بنایا۔ پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو سجدہ کریں۔ فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر اس موقع پر موجود ایک جن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہ ابلیس تھا جو بعد میں شیطان کے نام سے مشہور ہوا۔
جب اللہ تعالیٰ نے شیطان سے پوچھا کہ کس چیز نے تجھے میرا حکم ماننے سے روکا تو اس نے ایک خوبصورت عذر پیش کردیا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے خود اسے ایک برتر حیثیت میں پیدا کیا ہے۔ یعنی اس کی پیدائش آگ سے ہوئی جبکہ جس ہستی کے سامنے اسے سجدے کا حکم دیا گیا ہے، اس کی پیدائش ایک کم تر مادے یعنی مٹی سے کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو اسے برتر بنایا گیا اور دوسری طرف اسے ایک کم تر مخلوق کے سامنے جھکنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اس لیے خرابی اس کے انکار میں نہیں بلکہ اس حکم میں ہے جس میں بظاہر ایک غلط مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ شیطان کا مقدمہ تھا جو بظاہربہت مضبوط اور مدلل تھا۔ مگروہ کسی اور کے سامنے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے موجود تھا، جو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کی اصل حالت کو بیان کر دیا کہ تو دراصل تکبر کا شکار ہوچکا ہے۔ اور اس تکبر نے تجھے اس طرح اندھا کیا ہے کہ تو میرے سامنے بغاوت پر تیار ہوگیا ہے۔ اس لیے اب تجھے راندہ درگاہ کیا جاتا ہے۔
شیطان اس موقع پر بھی سرکشی سے باز نہ آیا۔ اس نے اپنی گمراہی کا الزام یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی کوشش کی کہ جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں آدم اور اس کی اولاد کو گمراہ کروں گا۔ اس طرح یہ ثابت ہوجائے گا کہ وہ اس عزت کے مستحق نہ تھے جو انہیں دی گئی ہے۔ بس تو مجھے قیامت کے دن تک کی مہلت دے دے۔ اللہ تعالیٰ شیطان سے سخت ناراض تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے مہلت دے دی تاکہ اس کی بدی اس طرح واضح ہوجائے کہ خدا کی رحمت جیسی بلند صفت بھی اس کے کام نہ آ سکے۔
قرآن اور بائبل کے دیس میں ایک ایسا سفرنامہ جو کہ ان مقامات کے سفر اور تاریخ پر مشتمل ہے جن کا تعلق اللہ تعالی کے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام سے ہے۔ ان میں مکہ، مدینہ، طائف، تبوک، مدائن صالح، پیٹرا، بحیرہ مردار، کوہ طور اور قاہرہ شامل ہیں۔ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔ |
دوسری طرف حضرت آدم کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ اپنی بیگم کے ہمراہ ایک باغ میں قیام کریں۔ البتہ ایک خاص درخت سے دور رہیں۔ اور انہیں یہ بھی بتادیا کہ یہ ابلیس ان کا دشمن ہے لہٰذا وہ اس کے دھوکے میں نہ آئیں۔ حضرت آدم و حوا کچھ عرصہ تو اللہ کے حکم کے پابند رہے، مگر آہستہ آہستہ شیطان نے وسوسہ انگیزی شروع کردی۔ اس نے ان دونوں کو قسم کھا کر یہ یقین دلادیا کہ وہ اس درخت کا پھل کھالیں تو انہیں ہر طرح سے فائدہ ہوگا۔ وہ دونوں اس کی باتوں میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھا بیٹھے۔ مگر اس کے نتیجے میں فوراً وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے محروم ہوگئے۔
یوں بظاہر شیطان اپنے اس چیلنج میں کامیاب ہوگیا کہ وہ یہ ثابت کر کے رہے گا کہ آدم اس مقام کے مستحق نہیں ہیں جو انہیں دیا گیا ہے۔ مگر آدم و حوا کا کیس شیطان والا نہیں تھا۔ انہوں نے اس کا پہلا ثبوت یہ دیا کہ جیسے ہی انہیں احساس ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم نہیں رہ سکے، دونوں رب کی بارگاہ میں معافی کے خواستگار ہوگئے۔
اللہ تعالیٰ نے پوچھا کہ کیا میں نے تمھیں منع نہیں کیا تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا جب حضرت آدم نے شیطان سے مختلف ہونے کا ثبوت دیا۔ انہوں نے شیطان کی طرح اپنے عمل کی کوئی تاویل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں یہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں شیطان نے دھوکا دیا ہے۔ مگر انہوں نے کوئی عذر پیش نہ کیا اور یک طرفہ طور پر ساری غلطی قبول کرلی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کردیا۔
اگر آپ کے ذہن میں اس تحریر سے متعلق کوئی سوال ہو، تو اسے خود تک محدود نہ رکھیے۔ پوچھ لیجیے۔ ممکن ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ |
آج بھی ابن آدم اور ابن شیطان میں ایک ہی بنیادی فرق ہوتا ہے۔ آدم کے بیٹے اعتراف کی نفسیات میں جیتے ہیں جبکہ شیطان کے پیروکار عذر کی نفسیات میں۔ پہلوں سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ کسی توجہ دلانے سے قبل ہی غلطی مان لیتے ہیں۔ دوسروں سے جب کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ فوراً کوئی تاویل سوچتے ہیں۔ پہلوں سے کوئی بھول ہوتی ہے تو اپنے اس عذر کو بھی استعمال کرنے میں جھجکتے ہیں جو وہ بجا طور پر پیش کرسکتے ہیں۔ دوسرے اپنے ہر جرم کا الزام دوسروں پر ڈال کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔
ان دو گروہوں کا رویہ اگر اپنے اپنے پیش رو جیسا ہے تو ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا رویہ بھی وہی ہے۔ ابن آدم کی ہر بھول اور ہر غلطی معاف کردی جاتی ہے۔ جبکہ شیطان کا رویہ اختیار کرنے والے انسانوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوجاتے ہیں۔ پہلوں کو جنت کی بادشاہی میں اعلیٰ مقام دیا جائے گا۔ دوسروں کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنادیا جائے گا۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
نوٹ: اسلام میں بعض دیگر مذاہب کے برعکس، اس کی اجازت نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنے گناہ یا غلطی کا اعتراف کسی مذہبی راہنما کے سامنے کرے۔ اسلام میں اعتراف صرف اور صرف خدائے بزرگ و برتر کے سامنے ہی ہوا کرتا ہے۔ اگر اس گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے تو اللہ تعالی کے سامنے ہی اعتراف کر کے اس سے توبہ کی جائے گی۔
اگر اس گناہ کا تعلق اللہ کے بندوں، یعنی انسانوں، جانوروں اور دیگر مخلوقات کے حقوق سے ہے، تو اعتراف تو اللہ تعالی کے سامنے ہی کیا جائے گا مگر معافی اللہ تعالی کے علاوہ، اگر ممکن ہو تو اس شخص سے بھی مانگی جائے گی جس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور کئے گئے ظلم و زیادتی کی ہر ممکن تلافی بھی کی جائے گی۔ محمد مبشر نذیر
ممکن ہے کہ اس معاملے میں آپ کے تجربات دوسرے قارئین کے لئے اہم ہوں ۔ اپنے تجربات دوسرے قارئین تک پہنچانے کے لئے ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ بعض لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیوں نہیں کرتے۔ کم از کم تین وجوہات بیان کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ فرض کر لیجیے کہ ایک شخص نے ماضی میں کسی دوسرے کا کوئی حق غصب کیا تھا۔ اب وہ اس کی تلافی کرنا چاہتا ہے ۔ اس کے لئے آپ اسے کیا مشورہ دیں گے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز