نجانے ہمارے معاشرے میں عفت و عصمت کا تصور صرف اور صرف عورت کے ساتھ خاص کیوں کر دیا گیا ہے۔ مرد کے لئے بھی عفت و عصمت اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ عورت کے لئے۔ ہمارے معاشرے میں مرد تو جو چاہے کرتا پھرے اس سے خاندان کی عزت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اگر عورت ایسا کر بیٹھے تو یہ اس کے لئے ایک ناقابل معافی جرم ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے اس گناہ کے بارے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی۔ اس گناہ کے نتیجے میں عورت جتنی گناہ گار ہوتی ہے، مرد بھی اتنا ہی گناہ گار ہوتا ہے اور اگر مرد توبہ کے ذریعے پاک صاف ہو سکتا ہے تو ایسا عورت کے لئے بھی ممکن ہے۔
نامعلوم اور پیچیدہ راستوں کی خوبصورتی پر فریفتہ نہ ہونا اور سیدھے راستے کی طوالت سے بے زار نہ ہونا کامیابی کی ضمانت ہے۔ سقراط |
جس طرح قدیم دور میں عالمی فتنہ شرک تھا جس نے چین و ہندوستان سے لے کر افریقہ اور یورپ تک تمام اقوام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اسی طرح دور جدید کا سب سے بڑا فتنہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ اہل مغرب جب اپنے مذہب سے برگشتہ ہوئے تو انہوں نے دل و جان کے ساتھ بے حیائی کو قبول کر لیا۔ جب ان کا قبضہ مسلم ممالک پر ہوا تو یہ بے حیائی یہاں بھی امپورٹ ہوئی۔
شروع شروع میں تو یہ صرف معاشرے کے ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود رہی لیکن 1990ء کے عشرے میں ڈش، کیبل اور انٹر نیٹ کے فروغ کے بعد جس تیزی سے یہ مسلم معاشروں میں پھیل رہی ہے، اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگلے پندرہ بیس برس میں اس معاملے میں مسلم اور مغربی معاشروں میں شاید ہی کوئی فرق رہ جائے۔ مسلم ممالک میں یہ منظر عام نظر آتا ہے کہ ماں اور بیٹی ساتھ ساتھ جا رہی ہیں۔ ماں نے تو برقع لے رکھا ہے جبکہ بیٹی نیم عریاں لباس پہنے ہوئے ہے۔ بے حیائی دور جدید کا فتنہ ہے جس کے استیصال کے لئے اہل مذہب کو ایک عظیم جہاد کی ضرورت ہے جس کا میدان جنگ انسانی ذہن ہوگا۔
صلیبی جنگیں کہاں اور کیسے لڑی گئیں؟ جنگ موتہ، جس میں تین ہزار صحابہ نے ایک لاکھ رومی فوج کا مقابلہ کیا، کہاں لڑی گئی؟ قوم لوط پر عذاب کس طرح آیا؟ یہ مقام ڈیڈ سی کے کنارے آج بھی موجود ہے۔ ان مقامات کا سفرنامہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
میں ذاتی طور پر اہل مغرب کے بارے میں کسی تعصب کا شکار نہیں۔ جدید سائنسی ایجادات سے لے کر جمہوریت، انسانی حقوق، آزادی اظہار اور نظم و ضبط جیسی بے شمار ایسی چیزیں ہیں جو مغرب نے تین چار سو سال کی محنت کے بعد انسانیت کو دیں۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی چیز مانع نہیں کہ جدید دور میں ان تصورات کو اپنانے کے لئے اور اپنے معاشروں کو ماڈرنائز کرنے کے لئے ہمیں مغرب ہی سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اعتراض مجھے اس بات پر ہے کہ مسلم معاشرے اہل مغرب کی ان خوبیوں کو تو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان سے سیکھنے کے لئے جس چیز کا انتخاب کرتے ہیں وہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ شاید یہ وہ واحد معاملہ ہے جس میں اہل مشرق، اہل مغرب کی بجائے بہتر مقام پر کھڑے ہوئے تھے لیکن انہوں نے مغرب کی اچھی چیزوں کو لینے کی بجائے اس چیز کا انتخاب کیا جس میں اہل مغرب انسانیت کے درجے سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلم ممالک کو دیکھتے چلے جائیے، ہمیں مغرب کی انسان دوستی، انسانی حقوق، جمہوریت اور نظم و ضبط تو شاید ہی کہیں نظر آئے لیکن ان کی عریانی و فحاشی ہر جگہ ہمیں نظر آئے گی۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
مسلم اشرافیہ نے اہل مغرب سے اچھی چیزیں سیکھنے کی بجائے اس میدان میں ان کی پیروی اختیار کیوں کی جس میں وہ انسانیت کے درجے سے بھی گرے ہوئے ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز