خدا کے بندوں کو خدا کی طرف بلانا اور انسانوں کو ان کے رب کی مرضی سے، انہی کی زبان اور اسلوب میں آگاہ کرنا، پیغمبروں کا وہ عظیم مشن ہے جس میں اپنے آپ کو شامل کرنا، کسی انسان کی سب سے بڑی خوش بختی ہوسکتی ہے۔ اپنی قوم کو انذارِ قیامت کرنا، انہیں آخرت کی پیشی پر متنبہ کرنا، انہیں خدا کی جنت کا مشتاق بنانا، ایمان کو ان کی روح کا حصہ بنانا، اخلاق کو ان کی زندگی بنانا، حکمت کے موتیوں سے انہیں آراستہ کرنا، شریعت کی برکتوں سے انہیں روشناس کرانا، خدا اور پیغمبر کی محبت کو ان کے قلوب میں جاگزیں کرنا، رب اور رسول کی اطاعت کو ان کے لیے محبوب بنانا، یہ وہ کام ہے جس سے زیادہ بامعنی کام اور مقصد کوئی نہیں ہو سکتا۔
منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور جب اسے کوئی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم |
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
اس کام کے لئے پاکستان لوٹنے کے بعد میں نے بہت سنجیدگی کے ساتھ پاکستانی قوم کے ماضی، حال اور مستقبل کا علمی مطالعہ کیا۔ اس مطالعے کے نتائج میری کتاب ’عروج و زوال کا قانون اور پاکستان‘ میں تفصیلی طور پر موجود ہیں۔ اس مطالعہ کے بعد میں نے کچھ ایسی بیماریاں تشخیص کی تھیں جو ا س قوم کے جسد کو لاحق ہیں اور جن کو دور کیے بغیر اصلاح و ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ یہ بیماریاں درج ذیل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ اخلاقی انحراف کا قومی وجود میں سرائیت کرجانا
۔۔۔۔۔۔۔ تمام قومی شعبوں بالخصوص تعلیم کے شعبے میں پچھڑا پن
۔۔۔۔۔۔۔ دنیا پرستی اور آخرت فراموشی
۔۔۔۔۔۔۔ شریعت کی پاسداری کے بجائے ظاہر پرستی کا فروغ
میں نے یہ کتاب تقریباً پانچ برس قبل لکھی تھی اور ان پانچ برسو ں میں ان امراض کی شدت کم تو کیا ہونی تھی، مزید بڑھ گئی ہے۔ اخلاق و قانون کا پامال کرنا تو ہماری پرانی عادت تھی، مگر اب اس پر فخر اور مسرت کا اظہار کرنا ہر سطح پر ہمارا معمول بنتا جارہا ہے۔ تمام قومی شعبوں کی طرح علم و تعلیم کے شعبے میں ہماری حالت بدستور دگرگوں ہے اور اب اس میں بدترین کرپشن کا عنصر بہت نمایاں ہوگیا ہے۔ دنیا پرستی اور آخرت فراموشی کو اب میڈیا اور راتوں رات امیر ہوجانے والوں کی کثرت نے کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ رہی ظاہر پرستی تو اس نے انتہاپسندانہ خیالات سے بڑھ کر اب بدترین تشدد کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ظاہر پرستی کی اس سوچ نے لوگوں کو اتنا سطحی بنادیا ہے کہ وہ خود کش حملے کرتے ہیں اور خود کو جنتی سمجھتے ہیں۔
یہ امراض ایسے ہیں جن کی تفصیل پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ مگر ان سے متعلق سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ا ن کی حامل کوئی مسلمان قوم خدا کی زمین پر زیادہ عرصے تک موجود نہیں رہ سکتی۔ وقت کی عدالت چند عشروں کے اندر ہی ا پنا فیصلہ سنادیتی ہے اور یہ فیصلہ تاریخ میں عبرت کی ایک داستان کے طور پر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔
تاہم ہماری قوم میں، بہت سے اسباب کی بنا پرجن کی تفصیل میں اپنی مذکورہ بالا کتاب میں بیان کرچکا ہوں، امید کی کرن باقی ہے۔ اس امید کے سہارے ہی میں نے کام کا آغاز کیا اور الحمد اللہ اپنے آغاز ہی میں یہ کام برگ و بار لانے لگا ہے۔ ہم نے افرادِ قوم کی ذہن سازی اور ان کی تربیت کو اپنا نصب العین بنایا اور الحمد اللہ شمع سے شمع جلنے کا یہ عمل شروع ہوگیا ہے۔ اللہ نے چاہاتو ان شمعوں ہی سے وہ سورج طلو ع ہوگا جو شب کی ساری سیاہی کو صبح کے اجالے میں بدل دے گا۔
ہمیں یقین ہے ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیر انہیں اجالا ہے
اس وقت معاملہ یہ نہیں کہ ہمارے ہاں دین کے نام پر کچھ نہیں ہورہا۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جس بڑے پیمانے پر اس وقت دینی کام ہورہا ہے، وہ شائد امت کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ تاہم یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس بڑے پیمانے کام ہورہا ہے، نہ صرف یہ کہ نتائج اس کے مطابق نہیں نکل رہے بلکہ بڑی حد تک وہ نتائج پیدا ہورہے ہیں جو بلاشبہ دین میں مطلوب نہیں ہیں۔ اس کا سبب ہمارے دینی فکر کی بعض بنیادی غلطیاں ہیں۔ ہمارا دینی فکر کیا ہے اور اس میں کیا غلطیاں ہیں، یہ بات اہم ہے اس لیے میں اس کی ذرا تفصیل کیے دیتا ہوں۔
لیکن ا س سے قبل یہ موٹی سی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ میرے اس تجزیے کا مطلب کسی کی توہین و تنقیص کرنا نہیں، نہ میرے نزدیک موجودہ دینی فکر کی ہر چیز ہی غلط ہے۔ نہ یہ مقصد ہے کہ اس کام کے نتیجے میں کوئی خیر پیدا نہیں ہوا اور نہ میں کسی کے اخلاص کے بارے میں کوئی منفی رائے رکھتا ہوں۔ نہ اپنی فکری برتری کا احساس دلانا مقصود ہے اور نہ کسی کا دل دکھانا۔ اصل بات صرف اتنی ہے کہ اصلاح مقصود ہے اور اصلاح کے لیے اگر میں ان خامیوں کو بیان نہیں کروں گا جو مجھے نظر آتی ہیں تو میں خد اکے دین سے بے وفائی کا مرتکب ہوں گا۔ یہ بات اگر پیش نظر نہ ہوتی تو میں نہ ماضی میں کبھی اس نوعیت کی کوئی تنقیدی بات لکھتا اور نہ اس وقت اس موضوع پر قلم اٹھاتا۔
ہمارے ہاں بہت سے لوگ دعوت دین کو اپنا مقصد حیات بنا لیتے ہیں۔ دعوت دین ایک نہایت ہی اہم کام ہے لیکن اسے کرنے کے لئے چند صلاحیتیں درکار ہیں۔ دعوت دین کا کام بڑا ہی نازک ہے۔ اس کام کو کیسے کیا جائے؟ اس کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
ہمارے دینی فکر کی غلطیاں
پچھلی دو صدیوں میں ہمارے ہاں دین کے نام پر اٹھنے والی تحریکوں کے دو بڑے دھارے رہے ہیں۔ ایک حکومت کی سطح پر اسلام کے نفاذ کا دھارا اور دوسرا فرد پر اسلام کے نفاذ کا تحریکی دھارا۔ دو صدیوں میں ان دونوں سے مزید کئی شاخیں نکلی ہیں۔ مثلاً پہلے دھارے سے نفاذ اسلام کے لیے سیاسی جدوجہد، مسلم اشرافیہ اور حکمران طبقات سے تصادم، مغربی تہذیب اور حکومتوں کے خلاف نفرت، غیر ملکی استعمار کے خلاف جنگ، مسلح جدوجہد اور دہشت گردی کی شاخیں پھوٹی ہیں اور آج پوری مسلم دنیا میں پھیل چکی ہیں۔
جبکہ دوسرے دھارے سے ظاہرپرستی کے فروغ، پرانی ثقافت اور مخصوص حلیے پر اصرار فضائل پر مبنی دینداری، فرقہ واریت، قدیم سماجی اقدار اور قوانین کا احیا، اکابر پرستی، فتویٰ بازی اور مناظرہ بازی کی شاخیں نمایاں طور پر نکل کر سامنے آتی ہیں۔ یہ ساری شاخیں الگ الگ نہیں ہیں بلکہ اکثر اوقات ایک دوسرے سے گتھی ہوئی ہوتی ہیں۔ ان دونوں بڑے دھاروں کے علاوہ ایک اور دھارا بھی ہے جو دینی پس منظرمیں اٹھا لیکن وہ عوام الناس میں بہت زیادہ مقبول نہ ہوسکا، اس لیے ہم نے اس کا تذکرہ نہیں کیا یعنی اسلام اور اسلامی تعلیمات کو مغربی اقدار اور علم کے مطابق ڈھالنے کا انداز فکر۔
امت کے انداز فکر اور طرز زندگی کو انہی دو دھاروں نے زیادہ متاثر کیا اور یہی ہمارے دینی طبقات کے فکر وعمل کی اساس ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ان میں بعض بنیادی نوعیت کی خامیاں موجود ہیں۔ سب سے پہلی اور بنیادی خامی یہ کہ ان میں ایمان و اخلاق کی بنیادی دعوت کے بجائے اصل زور حکومت کی سطح پر نفاذ حدود اور فرد کی سطح پر چند ظاہری اعمال پر ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ چیزدین کے مقاصد کے بالکل خلاف ہے۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظریاتی طور پر دین کی بنیادی اساس ماننے کے باوجود عملی طور پر انہیں یہ مقام نہیں دیا جاتا۔
قرآ ن و سنت پر براہ راست غور و خوض کرنے کے بجائے بعض بڑے لوگوں کی آرا کو دین سمجھ لیا جاتا ہے۔ چنانچہ بارہا بڑے بڑے مغالطے اسی بنیاد پر پیش آجاتے ہیں۔ تیسری غلطی یہ کہ ان میں اس قدیم فکری اور فقہی ڈھانچے کو درست مان لیا گیا ہے جو دین کے نام پر ایک طویل عرصے سے سامنے تھا۔
اس میں بہت کچھ ٹھیک ہے اور بہت کچھ ایسا ہے جو قدیم اہل علم کی فقہی تعبیرات اور اجتہادات ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہ یہ دور جدید میں اسلام کے نام پر پیش کیے جاسکتے ہیں اور نہ یہ دین کی اپنی تعلیمات ہیں۔ مثلاً عورتوں کی گواہی کو قتل زنا جیسے جرائم میں ناقابل قبول سمجھنے کو اسلامی تعلیم بنا کر پیش کرنا دین کا مذاق بنوانے کے مترادف ہے۔
چوتھی غلطی یہ ہے کہ اس میں غیر مسلموں کو اپنا مدعو سمجھنے کے بجائے انہیں اپنا عدو یا دشمن سمجھ لیا گیا ہے۔
پانچویں غلطی یہ ہے کہ اپنے نقطہ نظر کو پہنچانے کے لیے دلیل کے بجائے دھونس اور دعوت کے بجائے مناظرہ کاطریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔
چھٹی غلطی یہ ہے کہ اختلاف رائے کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرنے اور اسے خدا کی اسکیم کا حصہ سمجھنے کے بجائے جھوٹے پروپیگنڈے اور فتویٰ بازی کا طریقہ اختیار کرلیا گیا ہے۔ یہ اور ان جیسی کئی غلطیاں ہیں جنہوں نے دین کے نام پر ہونے والی دو صدی کی جدوجہد کو بڑی حد تک غیر موثر کردیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن
یہ وہ حالات تھے جن میں میرے شعور نے جنم لیا اور پھر کئی برس کے سفر کے بعد اپنے اساتذہ کے علم کی روشنی میں مجھ پر یہ غلطیاں واضح ہوگئیں۔ جس کے بعد میں نے اپنے لیے وہ راستہ چنا ہے جو مشکل ہے، مگر میرا دل و دماغ اس بات پر مطمئن ہے کہ کرنے کا کام یہی ہے۔ اس کام کی بنیاد اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مشن ہے جس کے لیے آپ مبعوث کیے گئے (جمعہ 62:2)۔
اس مشن کی بنیاد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کو ایمان، اخلاق اور اطاعت کے جس امتحان میں ڈالا ہے، انہیں اس سے پوری طرح مطلع کیا جائے۔ توحید و آخرت کا پیغام پہنچا کر انہیں اس بات کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے نفس کو پاکیزہ بنا کر، اس کا تزکیہ کرکے خدا کی جنت میں بسنے کو اپنی زندگی کا مقصود بنالیں۔ جو لوگ ایسا کرلیں پھر ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے اور انہیں دین کے وہ احکام سکھائے جائیں جو انہیں ایمان، اخلاق اور اطاعت کے امتحان میں سرخرو کردیں۔
اس مقصد کے لیے میں نے اپنے پورے کام کے دو حصے کردیے ہیں۔ ایک حصے میں میرے پیش نظر ایک میڈیا ایمپائر قائم کرنا ہے جو ابلاغ کے تمام ذرائع یعنی سائبر (انٹرنیٹ)، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا میں دور جدید کے اعتبار سے وسیع پیمانے پر دعوتِ حق کا کام کرے گی۔ جبکہ دوسرے حصے میں میرے پیش نظر ایک تربیت گاہ اور بالغان کے لیے تعلیمی نظام بنانا پیش نظر ہے جہاں انہیں تقریر کے بجائے تدریس اور جذبات کے بجائے استدلال کی بنیاد پر دین سکھایا جائے گا۔
یہ نظام انشاء اللہ بہت وسیع اور پھیلا ہوا ہوگا مگر مرکزی تربیت گاہ شہروں کے ہنگاموں سے ہٹ کر فطرت کے ماحول میں قائم کی جائے گی۔ یہاں لوگ اپنے شہروں کو چھوڑ کر، اپنی روزمرہ زندگی کی مصروفیات کو کچھ عرصہ کے لیے چھوڑ کر آئیں گے تاکہ قرآن و سنت کے آفاقی پیغام کو ایک آفاقی ماحول ہی میں بیٹھ کر اور ٹھہر کر سمجھنے کا موقع ملے۔
(مصنف: ریحان احمد یوسفی)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں رائج دینی فکر کی بنیادی غلطیاں بیان کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ ان غلطیوں کی اصلاح کرتے ہوئے ہمیں دین کی خدمت کس طرح انجام دینی چاہیے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز