جس گھر میں اسے ایک معزز مہمان کی حیثیت حاصل ہوا کرتی تھی اور جس کے درودیوار اور مکین ومکاں سب کے سب اس کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے رہتے تھے، آج اُسی گھر میں وہ ایک ملزم بلکہ مجرم کی حیثیت سے حاضر کیا گیا تھا۔جج صاحب منصبِ قضا پر جلوہ افروز ہو چکے تھے اور جیوری کے افراد بھی اپنی اپنی نشستوں پر براجمان۔ جج وہ شخص تھا جس کے ساتھ اس کی زندگی کے پندرہ برس گزر ے تھے ۔ جو اس کے کردار کو بطور مثال بیان کیا کرتا تھا اوراس لمحے سے قبل اس کی امانت و دیانت کی گواہی دینے کے لیے بھی ہر وقت تیار رہتاتھا۔ جیوری میں ایک تو وہ صاحب تھے جن کی آنکھوں میں ہروقت اس کے لیے محبت اور احترام کے چراغ فروزاں رہا کرتے تھے اور جو اس مکاں کے مالک بھی تھے جہاں یہ عدالت لگی تھی اور دوسرے وہ صاحب جو اسے وقت کاولی قرار دیا کرتے تھے ۔ باقی کچھ مولوی نما چہرے تھے جن سے وہ ناآشنا تھا مگر اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں اس لیے زحمت دی گئی ہے کہ بوقت ضرورت سند رہے ۔
جج صاحب گویا ہوئے ، تمہیں ہمارے چند سوالوں کے جواب دینے ہیں۔
ملزم: میں آپ کے سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں۔
جج : نہیں ، تمہیں جواب دینے ہیں اور ہاں یا نہ میں دینے ہیں۔
ملزم: ہر بات کا جواب ہاں یا نہ نہیں ہوتا ۔
جج: لیکن ہماری شرط ہے کہ ہاں یا نہ میں جواب دو۔
ملزم: اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ کیا اب آپ نے اپنی ماں کو مارنا بند کر دیا ہے ؟ اس کا جواب ہاں یا نہ میں دو ،تو آپ کیا کہیں گے ؟
جج: وقت ضائع نہ کرو ہمارے سوالوں کا جواب دو ہمیں فیصلہ کرنا ہے ۔
ملزم : کس بات کافیصلہ ؟
جج: تمہارے کفر اور اسلام کا ۔
ملزم : میں اپنے اسلام کے لیے آپ کے فیصلے کا محتاج نہیں ہوں۔ میرے لیے یہ بات کافی ہے کہ اللہ کے دفتروں میں میرا نام مسلمان لکھا رہے ۔
جج: لیکن ہمیں فیصلہ کرنا ہے ۔ یہ بتاؤ کہ تم فلا ں شخص کو اچھا سمجھتے ہو اور تم نے اس کے بارے میں تعریفی کلمات لکھے ہیں؟
ملزم : بالکل لکھے ہیں۔
جج:لیکن وہ شخص تو کافر ہے اور ان تعریفی کلمات کی وجہ سے تم بھی دائرہ ایمان سے باہر ہو گئے ۔
ملزم : کیا آپ اس شخص سے ملے ہیں؟
جج: نہیں ۔
ملزم : کیا آپ نے اس کی کوئی کتاب یا تحریر پڑھی ہے ؟
جج: نہیں ۔
ملزم: کیا آپ نے اس کی کوئی تقریر سنی ہے ؟
جج: نہیں۔
ملزم: تو کس بنا پر آپ اسے کافر قرار دیتے ہیں؟
جج: بس ہم کہتے ہیں کہ علما کی یہی رائے ہے ۔تم یہ بتاؤ کہ تم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہواور اپنے الفاظ واپس لینے کے لیے تیار ہو؟
ملزم : میں نے بہت سوچ سمجھ کر یہ جملے لکھے ہیں اور میں انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔ البتہ آپ کی آخرت کی حوالے سے یہ درخواست ہے کہ آپ جسے کافر کہہ رہے ہیں وہ شخص ابھی زندہ ہے ۔ اس سے ملنے کا موقع موجود ہے آپ اس سے مل کراپنی غلط فہمی دور کر لیں ورنہ آخرت میں جواب دہ ہو نا ہو گا۔
جج: بس بس، ہمیں نصیحت نہ کرو ۔ جیوری سے مخاطب ہو کر : دیکھیں جنا ب یہ شخص اپنے الفاظ واپس لینے کو تیار نہیں ۔آپ گواہ رہیں۔
جج: یہ بتاؤ کہ موسیقی حرام ہے یا حلال؟
ملزم :موسیقی کے بارے میں میراپورا ایک نقطہ نظر ہے ۔
جج:ہاں یا نہ میں جواب دو۔
ملزم: میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ ہر بات کا جواب ہاں یا نہ نہیں ہوتا۔موسیقی کے بارے میں میرا ایک نقطہ نظر ہے ۔میرے جواب کے لیے وہ سنناہو گا۔
جج: لیکن میں نے سنا ہے کہ تم اسے حرام نہیں سمجھتے ؟
ملزم : میں ہی نہیں امام غزالی بھی نہیں سمجھتے اور آپ کے تمام صوفیا تو ہمیشہ اس سے اشتغال رکھتے رہے ہیں اور آج بھی رکھے ہوئے ہیں۔
جج: تو تم امام غزالی پر بھی الزام لگا رہے ہو؟
ملزم: تحقیق فرما لیجیے، ان کی کتاب احیاء العلوم میں اس پر پوری بحث موجود ہے۔ ہماری تاریخ میں بہت سے علما اس بات کے قائل رہے ہیں۔ ہاں اس میں اشتغا ل ایک ناپسندیدہ امر ہے کہ یہ دنیا کے قریب کرتی ہے اور بعض اوقات اخلاقی مفاسدکو بھی جنم دیتی ہے۔ اگر موسیقی اخلاقی بگاڑ کا ذریعہ بنے ، جیسا کہ ہمارے ہاں بنتی ہے، تو واقعی ناجائز ہے ۔
جج: زیادہ تقریر نہ کرو۔ ہاں یا نہ میں جواب دو۔ تصویر جائز ہے یا ناجائز ؟
ملزم: اس کے بارے میں بھی پورا نقطہ نظر ہے آپ کو وہ سمجھنا اور سننا چاہیے ۔
جج : ہاں یا نہ بتاؤ۔
ملزم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک کی وجہ سے تصویر کو حرام قرار دیا تھا کیونکہ اُس زمانے میں تصویر شرک کا ذریعہ تھی ۔ آج بھی تصویر کی عزت کی جائے اور اس سے شرک برآمد ہونے لگے تو وہ حرام ہو گی ۔
جج: جنا ب گواہ رہیں یہ شخص موسیقی کی طرح تصویر کو بھی حرام نہیں سمجھتا۔اچھا یہ بتاؤ کہ سر پر ٹوپی لینا جائز ہے یا ناجائز۔
ملزم: یہ مستحبات کا مسئلہ ہے اس میں جائز یا ناجائز والی بات ہی نہیں۔
جج۔ ہاں یا نہ بتاؤ۔
ملزم : میں نے بتادیا۔
جج: دیکھیں جنا ب یہ رسول اللہ کی اس سنت کے بارے میں بھی کیا کہتا ہے ۔ لاحول ولا قوۃ ۔ یہ تو دائرے سے نکل گیا۔
ملزم : اچھا جنا ب میں تو دائرے سے نکل گیا ، اب مزید بیٹھنے کا فائدہ نہیں،چلتا ہوں ۔کل قیامت کو بات ہو گی ۔
اس ”عدالت” سے نکلتے ہوئے ملزم نے دیکھا کہ جج سمیت تمام ”ارکان عدالت” ایک مخلص مسلمان کو دائرہ ایمان سے نکالنے پر طمانیت کا اظہار کر رہے تھے۔
قارئین کرام! ممکن ہے کہ اس واقعے میں مذکور شخص کی رائے ان متعلقہ معاملات میں غلط ہو لیکن محض فقہی اختلاف رائے کی بنیاد پر کسی کو کافر قرار دینا کس حد تک درست ہو سکتا ہے۔ ان چند سوالوں پر جس شخص کو دائرہ ایمان سے خارج قرار دیا گیا ، وہ ، وہ شخص ہے جو اس بات کا قولی اور عملی اقرار کرتا ہے کہ اللہ ایک ہے ، محمد ؐ اللہ کے نبی برحق اور آخر ی پیغمبر ہیں، وہ فرشتوں پر، اللہ کی کتابو ںپر ،روزآخرت پراور تقدیر پربھی کامل ایمان رکھتا ہے ۔ تمام ارکان اسلام کو نہ صرف صحیح سمجھتا ہے بلکہ ان پر حسب توفیق عمل پیر ا بھی ہے ۔ اخلاقی برائیوں سے بچاؤ کی بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور مختلف حوالوں سے نیکی کو پھیلانے کی بھی سعی کرتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ کوئی رنگ لگانے کو تیا رنہیں ، کسی مسلک کا قلادہ اپنے گلے میں ڈالنے پر آمادہ نہیں اور اسی طرح نبی کے بعد خود کو کسی کا غلام بنانے پرمائل نہیں اور نہ ہی کوئی جماعتی مسلکی گروہی وابستگی رکھنا پسند کرتا ہے اس لیے ایک حلقے کی طرف سے ضروری سمجھا گیا کہ اس کو اسلام ہی باہر نکال کیا جائے۔ قصور یہ تھا کہ اب یہ شخص اس حلقے کا ممبر نہ رہا تھا ۔ اب اس نے اپنی رائے بتدیل کر لی تھی اور اب وہ یہ ضروری نہ سمجھتاتھا کہ آخرت میں کامیابی کے لیے کسی مسلک یا حلقے کا ممبر بنا جائے اور اس کے لیے دن رات ایک کیے جائیں۔ البتہ وہ پہلے بھی یہ سمجھتا تھا اور اب بھی یہ سمجھتا ہے کہ آخر ت کی کامیابی کے لیے بس ایک ہی حلقے کا ممبر ہونا ضروری ہے اور وہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ۔
یہ ہے ہمارے معاشرے میں مذہبی عدم رواداری اور عدم برداشت کی ہلکی سی جھلک ۔ گروہی اور جماعتی وابستگیوں نے عدالتوں کا رو پ دھار لیا ہے ۔ اسلام کا آفاقی دائرہ تنگ ہوتے ہوتے جماعتی دائرے تک سمٹ کر رہ گیا ہے ۔بلکہ اس سے بھی بھیانک صورت حال یہ ہے کہ اب یہ جماعتی دائرہ بھی مزید تنگ ہو کر شخصی وفاداری تک محدودہوناشروع ہو گیا ہے۔خود ساختہ عقائد اور مزعومات پر لوگوں کے ایمان تولے جارہے ہیں۔ چند ظواہر کا نام دین رکھ دیا گیا ہے ،چند سوالوں پر لوگ ایمان سے محروم کیے جا رہے ہیں اوردو چار باتوں کا عدم اتفاق یا اختلاف ایمان اور کفر کا اختلاف بن گیا ہے ۔
یا حسرتا! ایک زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں کو دین میں داخل کر کے خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے اور ایک زمانہ یہ ہے کہ اپنوں کو دین سے باہر کر کے خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔
دوسروں کی بات سننے اور سمجھنے کی روایت کے خاتمے نے دہشت گرد اور خود کش بمبار پیدا کیے ہیں۔ یہ ایسے ہی تھوڑا جان دے دیتے ہیں؟ انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ مرتے ہی تم جنت میں ہو گے البتہ اس کے لیے کسی دشمنِ اسلام کو مارنا ضروری ہے او ر دشمن اسلام ہر وہ شخص ہے جو آپ سے اختلاف رکھتا ہے ۔
اہل پاکستا ن! ابھی وقت باقی ہے ۔ آؤ سب مل کر بیداری کی مہم چلائیں۔ مدارس کو نفرت کی فیکٹریاں بننے سے روکیں ، ایک دوسرے کی بات سننے سمجھنے کی روایت کو آگے بڑھائیں، اپنی نسلوں کوبرداشت ، تحمل اور وسیع الظرفی کی اقدار سکھائیں، علما کو ان کے صحیح منصب سے آگاہ کریں اور مسلمانوں کا رشتہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ سے استوار کریں۔اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں کہ جب پاکستان کے گلی محلوں میں ہر فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف عدالتیں لگائے گا ۔ لوگوں کو نہ صرف دین کے دائرے سے باہر کرے گا بلکہ ان کو سزائیں بھی دے گا۔ یا د رکھو کہ مذہبی عدالتوں کا آغاز ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتا ہے لیکن پھر ان کو سپین کے عقوبت خانے بنتے دیر نہیں لگتی اور پھر ایسے معاشروں میں مچھر چھانے جاتے ہیں اور اونٹ نگلے جاتے ہیں، داڑھیوں کے سائز ناپ کر ایمان کی پیمایش کی جاتی ہے ،سر کی ٹوپی بلکہ اس کا رنگ دیکھ کر تقوے کا معیار طے کیا جاتا ہے اورمردوں کی شلواریں اورعورتوں کے برقعے دیکھ کر ان کے نیک و بد ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ ”یسوع”کے لیے صلیبیں گاڑی جاتی ہیں ، یحیی کے سر طباق میں رکھ کر محبوباؤں کو پیش کیے جاتے ہیں اور محمد کے لیے طائف کے بازار گرم کیے جاتے ہیں۔اور آخر میں معاشرے میں مذہب کے نام پر اگر کچھ بچتا ہے تو وہ ہوتا ہے خون، چیخیں ، آہیں اور سسکیاں اور یا پھر ہتھکڑیاں ، زنجیریں ، بیڑیاں، طوق اور سلاسل ۔
(محمد صدیق بخاری)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے میں پیدا ہونے والی شدت پسندی کے اسباب کیا ہیں؟
۔۔۔۔۔ اگر آپ کا سامنا کسی شدت پسند سے ہو جائے تو اس سے کس طرح پیش آنا چاہیے؟ کیا شدت پسندی کا جواب بھی شدت پسندی سے ہی دینا چاہیے یا اس کا کوئی اور طریقہ ہونا چاہیے؟
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز