خزانے کا نقشہ

انسان کہانیوں کوبہت پسند کرتے ہیں۔خاص طور پر وہ کہانیاں جن میں کسی پوشیدہ خزانے کا ذکر ہو ان کہانیوں میں کوئی مہم جو خطرات سے کھیلتا اور مشکلات جھیلتا ہوا اس خزانے تک جا پہنچتا ہے۔ اس مہم کے دوران اس کی رہنمائی کے لیے ہمیشہ ایک نقشے کا بھی ذکر ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ نامعلوم منزل تک جاپہنچتا ہے۔

    اگر غور کیا جائے تو پوشیدہ خزانے کے حصول کی یہ کہانی انسانی فطرت کے ایک خاص پہلو کی عکاسی کرتی ہے۔ یہ وہ پہلو ہے جس کی بنا پر انسان یہ چاہتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی ساری نعمتیں اور راحتیں حاصل کرلے۔ یہ سب کچھ مال و دولت کے بغیر نہیں مل سکتا ۔ خزانے کی کہانی میں یہی مال و دولت عالم شباب میں اس مہم جو کو مل جاتا ہے جو پڑھنے والے کے لیے ہیرو کی حیثیت رکھتا ہے۔

اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟ اس تحریر میں مصنف نے 40 سے زائد شخصی اوصاف کا جائزہ لے کر شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تعمیر کا لائحہ عمل بیان کیا ہے۔ ان خواتین و حضرات کے لئے مفید ہے جو اپنی شخصیت کی تعمیر سے دلچسپی رکھتے ہوں۔

    لیکن کہانیاں پسند کرنے والوں بلکہ درحقیقت اکثر انسانوں کو یہ بات معلوم نہیں کہ خزانے کی کہانی کوئی فلم، کوئی داستان نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ زندگی کی ایک ایسی حقیقت جس میں مرکزی کردار خود ان کا اپنا ہے۔ روز ازل سے خدائے ذوالجلال نے زندگی کی سچی کہانی میں انسان کو مرکزی رول کے لیے منتخب کرلیا تھا۔ اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ ایک مہم جو کی طرح دنیا کے مصائب و آلام اور راحت و سکون کو نظر انداز کرتا ہوا آگے بڑھے اور جنت کے اس خزانے کو پالے جس کے بعد انسان ہر عیش و آرام کا حقدار اور ہر دکھ و غم سے نجات پا لے گا۔

    خدا نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جنت کے پوشیدہ خزانے تک پہنچنے کا ایک نقشہ بھی عطا کیا ہے۔ یہ نقشہ پیغمبروں کی رہنمائی کے ذریعے سے انسان کو ملتا رہا ہے۔ اور آخری دفعہ یہ نقشہ قرآن پاک کی شکل میں تحریری طور پر محفوظ کرکے انسانوں کو دے دیا گیا ہے۔ اس نقشے میں علامات نہیں بلکہ الفاظ کی شکل میں بتا دیا گیا ہے کہ کون لوگ ہیں جو اس خزانے تک پہنچنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سیدھا راستہ کیا ہے؟ اس پر چلنے میں کیا مشکلات آتی ہیں؟ ان سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے؟ اس راستے کا زاد راہ کیا ہے؟ راستہ بھٹک جائیں تو کیا کرنا ہے؟ یہ سب اس میں تفصیل کے ساتھ بتادیا گیا ہے۔

ایسا شخص جس کے پاس علم ہے مگر وہ اس پر عمل نہیں کرتا، کی مثال اس نابینا کی طرح ہے جو چراغ تھامے کھڑا ہو۔ ساری دنیا اس کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہی ہو مگر وہ خود محروم ہو۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

    مگر بدقسمتی سے انسان اس نقشے کو چھوڑ کر خواہش کے صحرا اور توہمات کے جنگل میں بھٹک رہے ہیں۔ وہ یہ بھول چکے ہیں کہ وہ عالم زیست میں ایک مہم پر بھیجے گئے ہیں۔ اس مہم میں ان کا مقصد جبلِِ زندگی کے اس پار ایک اور دنیا میں موجود فردوس کے خزانے تک پہنچنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے اس جنگل سے وہ محتاط انداز میں گزریں۔ کیونکہ یہاں قدم قدم پر گناہ کی دلدل ہے، ابلیس کے چھوڑے ہوئے شکاری درندے ہیں اور نفسانی خواہشات کے اژدہے ہیں۔ انہیں اس جنگل سے اپنا زاد راہ تو لینا ہے ، مگر اسے اپنا مسکن و مقصد نہیں بنانا ہے۔ جس نے ایسا کیا وہ ابد تک اس جنگل میں بھٹکتا رہے گا۔

    خزانے کے اس نقشے کو چھوڑ دینا ہر چند کہ تمام انسانیت کی بدقسمتی ہے، مگر سب سے بڑھ کر یہ ان لوگوں کی بدقسمتی ہے جن کے حوالے کر کے پیغمبر علیہ السلام دنیا سے گئے تھے۔ اس لیے کہ دوسروں کو یہ سب کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے ، مگر انہیں تو اس بات پر یقین ہے کہ واقعتاً یہ قرآن جنت کے پوشیدہ خزانے کا نقشہ ہے۔ دنیا کے دوسرے لوگ تو کل قیامت کے دن یہ عذر پیش کرسکتے ہیں کہ ہمارے پاس خزانے کا یہ نقشہ نہیں تھا مگر مسلمان قیامت کے دن کیا عذر پیش کریں گے؟

    آج مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ خدا کی کتاب اور ان کے پیغمبر کا دیا ہوا سب سے عظیم تحفہ ان کے پاس موجود ہے، مگر انہیں توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اس کو کھول کر پڑھ لیں۔ جنہیں یہ توفیق ہوتی ہے وہ بے سوچے سمجھے اس کو پڑھتے ہیں اور ادب سے کسی بلند مقام پر رکھ دیتے ہیں۔ جو لوگ اس کے سمجھنے کے دعوے دار بن کر کھڑے ہوتے ہیں، ان کے لیے یہ بس دنیا میں سیاسی انقلاب برپا کرنے کا ایک منشور ہے۔ جب مسلمانوں کا یہ حال ہو تو کسی غیر مسلم سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔

    آج خدا اور انسانوں سے محبت کرنے والے لوگوں کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ انسانوں کو خدا کی اس کتاب کی طرف بلائیں۔ پیغمبر کے اس کلام کی طرف بلائیں۔ اس لیے کہ ہر انسان کے پاس وقت تیزی سے ختم ہورہا ہے۔ ہر مہم جو کے لیے مہلت عمل ختم ہورہی ہے۔ اس نے اس نقشے کی مدد سے فردوس کے خزانے کو نہ پایا تو اس کا انجام جہنم کی گہری کھائی ہوگی۔ وہ کھائی جہاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رونا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلانا ہوگا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ اس تحریر کا سبق کیا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ مصنف نے خزانے کے جس نقشے کا ذکر کیا ہے، اسے استعمال کرتے ہوئے ہم کس طرح زندگی کا اصل خزانہ پا سکتے ہیں؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

خزانے کا نقشہ
Scroll to top