فلمی گانے اور یاد خدا

کچھ عرصے قبل میں نے ایک آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا: منی کی بدنامی سے شیلا کی جوانی تک۔ اس آرٹیکل کو بے تحاشامقبولیت ملی اور یہ فیس بک، ورڈ پریس اور دیگر اردو بلاگز پر بڑی  تعداد میں شیئر کیا گیا۔ نیز ایک اردو اخبار نے بھی اس کی اشاعت کرڈالی۔ مضمون کا عنوان میرے مزاج کے برخلاف تھا۔میرے  دیگر لکھاری دوستوں  نے بھی اس کا عنوان تبدیل کرنے کا مشورہ دیا۔خود بارہا میں نے سوچا کہ اسے بدل دوں لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے میں اس پر عمل درآمد نہیں کرپایا۔  اس آرٹیکل کے کچھ عرصے کے بعد میں نے ایک اور آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا: ’’ اللہ کا ذکر۔‘‘  اس آرٹیکل کو  قارئین کی طرف سےاوسط درجے کا  رسپانس ملا۔ اس تفریق پر میرا دل تڑپ اٹھا اور میں یہ آرٹیکل لکھنے پر مجبور ہوگیا۔

آج انسان  کا  لہو و لعب اور کھیل تماشے کو زندگی کا مقصد بنائے بیٹھا ہے کیونکہ ان سےاسفل جذبات کی تسکین ہوتی، آنکھیں حظ اٹھاتیں، کان لذت محسوس کرتے اور دل تصوراتی رنگینی میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب  خدا کی یاد ہے جو ایک بے وقعت معاملہ بن کر رہ گیا  کیونکہ اس سے شیطانی جذبات کی تسکین نہیں ہوتی، آنکھوں کو  قابو کرنا ، دل کے مچلنے پر اسے تھامنا ، زبان کو لگام دینا اور خیالات کی ور کو سنبھالنا پڑتا ہے۔

زمانہ قدیم سے ہی انسان عیش و عشرت  اور کھیل تماشے کا دلدادہ رہا ہے۔ لیکن ماضی میں جب بھی یہ تماشے ایک حد سے آگے بڑھے تو مصلحین اور اہل علم حضرات نے اپنے قلم ،علم اور اثرو رسوخ سے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور اس نوعیت کے معاملات کبھی بھی پوری سوسائٹی کا احاطہ نہ کرپائے۔ لیکن آج کے دور میں صور ت حال بدلی ہوئی  لگتی ہے آج  عریانی و فحاشی، رقص وسرور اور لذت و مستی کے آگے  قلم کی نوکیں سرنگوں ہوگئیں ، دماغ کے دریچے بند ہوچلے،زبانیں زمانے کے خوف سے گنگ ہوگئیں اور اہل علم حضرات نے اس باغیانہ جدت پسندی کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا۔نتیجے کے طور پر آج  خدا کا وجود ایک رسمی حیثیت اختیا ر کرچکا  اور شیطان نے خدا  کی یاد کو زندگی کے ہر حصے سے بے دخل کرنےکی کوشش کی۔ چنانچہ آج خدا کی  رسمی یاد میت نماز، نکاح کے خطبے، جمعے کی نماز  ، بلا سوچے سمجھے قرآن کی تلاوت اوربے روح وظائف  میں تو ہے لیکن عملی زندگی میں خدا شامل نہیں۔ آج ناول، فلمیں، ڈرامے، اسٹیج شوز اورسیمینار میں ہر موضوع شامل ہے لیکن اللہ کا ذکر نہیں۔یہاں تک کہ مذہبی پروگرام بھی رسمی طور پر خدا کا ذکر کرتے اور پھر کسی نہ کسی شخصیت  یا واقعہ کو گفتگو کا محور بنالیتے ہیں۔

یہ کس قسم کی بے حسی اور بد اخلاقی ہے کہ اس کائنات  کا بادشاہ غلاموں کی نگاہوں سے محو ہوگیا، وہ ذرے ذرے کا مالک ملکیت کے حق سے دستبردار سمجھا گیا، وہ حیات کا خالق زندگی سے بے دخل کردیا گیا، وہ  تکلم عطا کرنے والا کلام سے خارج ہوگیا، وہ بصارت کا پیداکرنے والا نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔

کوئی سوسائٹی برے لوگوں کے شور کی وجہ سے نہیں تباہ ہوتی بلکہ اچھے لوگوں کی خاموشی کی بنا پر اس کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ اللہ کی یاد کو سوسائٹی میں درست خطوط پر شعور  کے ساتھ رائج کرنا صرف مولویوں کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہر فرد کی اخلاقی اور قانونی  ذمہ داری ہے۔ اور اگر یہ ذمہ داری ادا کرنے میں ہم ناکام رہ گئےتو ہمیں جان لینا چاِہئے کہ خدا  کوئی کمزور ہستی نہیں۔ وہ بہت طاقتور، زور آور  عزیز  اور جبار ہے۔ اس کے لشکر دنیا کی ساری فوجوں سے زیادہ قوی اور تربیت یافتہ ہیں، اسکی تدبیر ساری چالوں پر بھاری ہے ۔  آئیں اور  اس کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ اس کا ذکر کریں ، اسے یاد کریں، اسے زندگی کا حصہ بنائیں، اس کی عظمت کے گن گائیں، اس کی یادوں سے تنہائی اور محفل دونوں کو پر رونق بنائیں۔

یا حی یا قیوم برحمتک استغیث

(پروفیسر محمد عقیل ،aqilkhans.wordpress.com)

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ اپنے تجربے کی بنیاد پر اللہ تعالی کی یاد سے غفلت اور فلموں اور کھیل تماشوں میں شغف کے اسباب بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تفریح کو بہت زیادہ بڑھا کیوں دیا گیا ہے؟ اسباب پر غور کیجیے۔

۔۔۔۔۔ ایسی تفریح جو بیہودہ اور فحش نہ ہو اور اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہ کرے، پر اسلام پابندی نہیں لگاتا لیکن اس میں حد سے گزر جانے  سے روکتا ہے۔ کیا آپ اس بیان سے اتفاق کرتے ہیں یا اختلاف؟ دلائل کے ساتھ بات کیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

فلمی گانے اور یاد خدا
Scroll to top