بھائی چارے کو کیسے قائم کیا جائے؟

اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

بے شک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں کے درمیان مصالحت کراؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (الحجرات 49:10)

اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور متفرق نہ ہوجاؤ۔ (آل عمران3:103)

ذرا سوچ لیں

 ۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کے خیال میں پاکستان میں لوگوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کی فضا پائی جاتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو بھائی چارے کو مضبوط کرتے یا اسے تباہ کرتے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ اس ضمن میں اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں؟

 ان سب سوالات کا جواب جاننے کے لئے درج ذیل مضمون کا مطالعہ کریں۔

کیس اسٹڈی: مزار میں بہت رش ہے ، کھوے سے کھوا چھل رہا ہے۔لوگ جوق درجوق بابا کے مزار پر اپنی منتیں اور مرادیں لے کر آئے ہیں۔ اچانک جیکٹ میں ملبوس ایک شخص دوڑتا ہو ا احاطے میں داخل ہوتا ہے۔ وہ کلمہ پڑھ رہا ہے ۔چشم زدن میں اس نے خود کو دھماکے سے اڑالیا۔ ایک قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ دوسرے دن علم ہو ا کہ ۵۰ لوگ شہید ہوگئے۔

اخوت اور بھائی چارہ ایک عام معاشرے کا جزو لازم ہے اور مسلم معاشرے میں تو اسکی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ باہمی محبت ، مدد کا جذبہ، ہمدردی اور تعاون کرنے کا داعیہ ہی مسلم معاشرے میں خدا پرستی کے ساتھ ساتھ تعلق با لعبادکی بنیادیں مضبوط کرتا ہے۔آج پاکستان کے معاشرے کا جائزہ کیا جائے تو یہ بالعموم نفرت و عداوت، فرقہ واریت، لسانی تقسیم، مذہبی تشدد اور طبقاتی کشمکش سے عبارت ہے۔

 حصہ الف : بھائی چارے کو مستحکم کرنے والے عوامل

 ایک مسلم معاشرے میں بھائی چارہ کے لئے درج ذیل عوامل کا ہونا ضروری ہے۔

محبت

بھائی چارے پر مشتمل معاشرے کی بنیاد باہمی محبت ہے ۔ قرآن میں آتا ہے کہ: اور اللہ کی مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اسکی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے۔ (آل عمران 3:103)

 اسی طرح ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس جان کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ متفق علیہ

 محبت کرنے کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کے بارے میں عمومی پسندیدگی،قبولیت اور تعاون کا رویہ رکھا جائے۔اس عمل کی ابتدا والدین سے ہوتی ہے، پھر اس میں بیوی بچے ، بھائی بہن، رشتے دار، پڑوسی، دوست احباب اور دیگر متعلقین شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔

 حسن خلق

اخوت ، اتحاد اور یگانگت کے لئے دوسرا جزو اچھے اخلاق ہیں حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم میں سے بہترین وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ (متفق علیہ) اسی طرح زبان دارزی اور فحش گوئی کو ایک ناپسندیدہ فعل سمجھا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی کو گناہ کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ زبان دراز، فحش گو اور بخیل ہو۔ رواہ احمد و بیہقی فی شعب الایمان، بحوالہ مشکوٰۃ 18:6494۔

 حسن خلق کو اس طریقے سے اپنے رویے میں پیدا کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔ دھیمے لہجے میں بات کرنا

۔۔۔۔۔۔۔ مناسب الفاظ کا انتخاب اوراستعمال

۔۔۔۔۔۔۔ مخاطب کے جذبات و احساسات کا لحاظ کرنا

۔۔۔۔۔۔۔ باڈی لینگویج یعنی چہرے کے تاثرات، چال ڈھال ، ہاتھوں کے اشارے وغیرہ سے کوئی غلط پیغام دینے سے گریز کرنا، مثلاََ کسی غریب اور مفلوک الحال شخص کو دیکھ کر ناک پر رومال رکھ لینا یا ناک بھوں چڑھانا وغیرہ

 بداخلاقی کے اسباب یہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ بے احتیاط گفتگو کی عادت: یعنی بلا وجہ بولنا ، سوچے بنا بولنا، الفاظ کا غلط استعمال، موقع کا لحاظ نہ کرنا

۔۔۔۔۔۔۔ اونچی آواز میں بولنے کی عادت

۔۔۔۔۔۔۔ باڈی لینگویج پر قابو نہ ہونا

۔۔۔۔۔۔۔ تکبر و تفاخر

۔۔۔۔۔۔۔ ناپسندیدگی یا نازک مزاجی: کسی کی حالت، فعل یا عادت کو ناپسند کرنا جیسے کسی مزدور کو دیکھ کر منہ پھیر لینا وغیرہ

مومن کو معاشرے کا جزو سمجھنا

اخوت کا تیسرا عامل دوسرے مسلمان کو معاشرے کا حصہ سمجھنا ہے۔حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مسلمانوں کی آپس میں دوستی ، شفقت اور رحمت کی مثال جسم کی طرح ہے ۔جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا بدن اس کا شریک ہوتا ہے۔ مسلم: 4643

 اسکا لازمی متیجہ یہ ہے کہ سیاسی، مذہبی یا دیگر بنیادوں پر کسی شخص کو معاشرے سے خارج کردینا جائز نہیں الا یہ کہ وہ کسی صریح خلاف ورزی کا مرتکب ہو اور ایسا کرنے کی اجازت بھی سوائے حکومت کے اور کسی کو نہیں ہے۔

رحم کرنا

رحم کرنا ایک اور عامل ہے۔ ایک دوسرے پر رحم کرنا ، ہمدردی کرنا، غلطیوں کو نظر انداز کرنا ، مروت برتنااور حقوق سے زیادہ فرائض کی فکر کرنا ہے۔حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ متفق علیہ 

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

اسی سلسلے کی ایک اور کڑی یہ ہے کہ اپنے بھائی کو غلطی پر ٹوکا جائے اور اسے نیک کام کرنے کی ترغیب دی جائے۔ قرآن میں آتا ہے کہ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔ آل عمران 3:104  

حدیث: ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو کوئی تم میں(اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی خلاف شرع امر دیکھے وہ اس کو ہاتھ سے روکے، اگر اسکی طاقت نہ ہو تو زبان سے توکے اور اگر اسکی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔

 امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اصول: مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔

·      الف۔ شریعت کی خلاف ورزی: کوئی ایسا کام ہورہا ہو جو اسلامی شریعت کی واضح خلاف ورزی ہو جیسے شراب پینا، چوری، بدکاری وغیرہ۔  البتہ اگر یہ شریعت کی واضح خلاف ورزی نہ ہو بلکہ اس میں دو آراء ہوں تو اپنا نقطہ نظر بیا ن کرکے مدعو کے نقطہء نظر کی قدر کی جائے ۔ مثلاََ اگر محرم کا حلیم کھانے پر اختلاف ہے تو اپنا نقطہء نظر بیا ن کرکے دوسری رائے کو نقطہء نظر کا اختلاف سمجھا جائے۔

·      ب۔دائرۂ کار کا متعین ہونا: دوسرا اصول یہ ہے کہ معروف کا حکم اور منکر سے بچنے کی تلقین کرنے کا مکلف ایک شخص اپنے دائرۂ کار میں ہے اس سے باہر نہیں۔ مثال کے طور پر ایک باپ اپنے دس سالہ بچے کو نماز نہ پڑھنے پر ڈانٹ اور مار سکتا ہے لیکن وہ یہ عمل پڑوسی کے بچے پر نہیں کرسکتا۔ دائرۂ کار انتہائی ضروری ہے ورنہ نتیجہ الٹ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بازار میں آنے جانے والی بے پردہ عورتوں کو زبردستی نقاب پہنانا شروع کردے تو انجام فساد ہی ہے۔

·      ج۔ حکمت: تیسرا اہم اصول حکمت ہے۔ اس کے لئے مختلف اسالیب اختیا ر کرنے ضروری ہیں۔ بعض اوقات بنا حکمت امر بالمعروف یا نہی عن المنکر سے نتیجہ برعکس پیدا ہوجاتا ہے۔ مثلاََ کسی شخص کوغلط انداز میں کی گئی نماز کی تلقین اسے رہی سہی نمازوں سے بھی متنفر کر سکتی ہے۔

حصہ ب : بھائی چارے کو تباہ کرنے والے اعمال

 بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے مندرجہ بالا اقدامات کا اطلاق ہی کافی نہیں بلکہ درج ذیل افعال سے گریز بھی ضروری ہے۔

 لڑائی جھگڑا اور قتال سے گریز

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے اس کی سزا جہنم ہے۔اس میں وہ ہمیشہ رہے گا ۔اور اس پر اللہ کا غذب اور لعنت ہوئی اور اس کے لئے ایک بڑا سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔ (النساء 4:93)

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا گناہ اور اس کو قتل کرنا کفر ہے(متفق علیہ) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ سچ بولنے والوں کو بہت زیادہ لعنت کرنے والا نہیں بننا چاہئے۔ مسلم

ہماری سوسائٹی میں لڑائی جھگڑوں کی مختلف صورتیں یہ ہیں۔

خاندانی لڑائیاں: جیسے باپ بیٹوں، بھائیوں اور بہنوں، ساس نندوں، شوہر بیوی میں اور دیگر رشتوں میں ناچاقیاں۔ ان کے بنیادی اسباب حسد، تفاخر، انا اور دیگر اخلاقی کمزوریاں ہیں۔

ساتھیوں سے لڑائی جھگڑا: ساتھیوں سے مراد پڑوسی، دوست، دفتر میں ساتھ کام کرنے واے افراد، بس یا کسی اور سواری کے ساتھی مسافر،مستقل پیدل چلنے والے ساتھی، سڑک پر ساتھ گاڑی چلانے والے لوگ سب شامل ہیں۔ ان سے اختلافات کے بنیادی اسباب میں مفادات کا ٹکراؤ، حرص و لالچ، خود غرضی و مفاد پرستی وغیرہ شامل ہیں۔

مذہبی لڑائیاں: مختلف قسم کے مذہبی گرہوں ، فرقوں اور مسالک کے اختلافات اس نوع میں شامل ہیں۔ ایک دوسرے پر لعن طعن، کافر قرار دینا، اسلحہ اور تشدد کا راستہ اختیا کرلینا وغیرہ اسکی مختلف صورتیں ہیں۔ان اختلافات کا سبب علما اور انکے پیروکاروں میں عدم برداشت، تکبر اور تعلیم کی کمی ہے۔

سیاسی لڑائیاں: سیاسی تنظیموں میں پیدا ہونے والے اختلافات دولوں میں رنجش، چپقلش، تلخ کلامی اور بالآخر تشدد کی راہ اختیار کرنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ انکا سبب بھی عدم برداشت، جمہوریت کی روح سے ناآشنائی، تکبر اور علم کی کمی ہی ہیں۔

طبقاتی کشمکش: امیری و غریبی میں بڑھتی ہوئی خلیج ایک ایسا طبقہ پیدا کرتی ہے جو تشدد کی راہ اختیار کرتا، رہزنی و ڈاکے کو حق سمجھتا، لوگوں کی عزتیں لوٹتا، انہیں جانوں سے محروم کرتا اور مختلف قسم کے جھگڑوں اور قتال کا سبب بنتا ہے۔

اداروں میں تصادم: عدلیہ، پارلیمنٹ، بیوروکریسی اور میڈیا میں تصادم بھی لڑائی جھگڑے کی ایک شکل ہے۔ اس کا سبب مفادات کا ٹکراؤ، حقوق پر ڈاکہ ڈالنااور دوسروں کو کم تر ثابت کرنا ہے۔

 نفرت اور کینہ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جمعرات اور جمعہ کے دن جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کو بخش دیا جاتا ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتا بجز اس شخص کے جو اپنے بھائی سے کینہ رکھتا ہو کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مہلت دو یہاں تک کہ وہ صلح کرلیں۔ مسلم

حسد

 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا حسد سے بچو ، حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ ابو داؤد

 غصہ

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رویت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے کہا کہ مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ نے کہا غصہ نہ کیاکر۔ اس نے بار بار یہی بات پوچھی اور ہر بار آپ نے جواب میں فرمایا کہ غصہ نہ کر(بخاری( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا پہلوان وہ نہیں جو پہلوان کو پچھاڑے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت نفس پر قابو رکھے۔

 خود غرضی و مفاد پرستی

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا قسم ہے اس جان کی جس کے قبضے میں میری جان ہے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے۔ متفق علیہ

ظلم و عدوان

ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا باعث ہو گا۔ (متفق علیہ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس شخص پر کسی مسلمان بھائی کی آبرو ریزی یا کسی اور چیز کا حق ہو وہ اس دن سے پہلے معاف کرالے جس روز اس کے پاس نہ درہم ہوگا نہ دینار۔ اگر اس کے نیک اعمال ہونگے تو اسکے حق کے مطابق لے لئے جائیں گے اور اگر اسکی نیکیاں نہ ہونگی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر ڈال دی جائیں گی۔ بخاری

نسلی تفاخر اور تکبر

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے قبیلے اور جماعتیں اس لئے بنائیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت دار وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ یقیناًاللہ دانا اور باخبر ہے۔ الحجرات۔49:13

جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جو شخص عصبیت کی طرف بلائے، عصبیت کے باعث لڑے اور عصبیت پر مرے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ابوداؤد : حدیث :1480

 ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہے۔ مسلم

 اہم خبر بلا تحقیق آگے پہنچانا

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی اہم خبر لائے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو مبادا کسی قوم پر نادانی سے جا پڑو، پھر تمہیں اپنے کئے پر پچھتانا پڑے۔ الحجرات ۴۹:۶

 تمسخر،عیب جوئی اور بہتان تراشی ،برے القاب سے پکارنا

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہترنکلیں۔ اور نہ آپس میں ایک دوسرے کو عیب لگاؤاور نہ برے القاب دو۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام لگنا برا ہے۔اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم لوگ ہیں۔ الحجرات۔49:11

 غیبت

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ دیکھو اس چیز کو تم خود بھی ناگوار سمجھتے ہو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات 49:13)

بدگمانی اور تجسس

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: اے ایمان والو ! بہت سے گمانوں سے بچو کیونکہ بعض گمان صریح گناہ ہوتے ہیں۔اور ٹوہ میں نہ لگو۔ (الحجرات۔40:12)

 (پروفیسر محمد عقیل)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

ذرا سوچ لیں

۔۔۔۔۔۔ بھائی چارہ پیدا کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ ۱۔حکومت کی ۲۔فرد کی ۳۔علماء کی۔ ان سب کی۔

۔۔۔۔۔۔ کراچی میں پٹھان اور مہاجروں میں جو ظاہری اختلافات ہیں انکی بنیادی وجہ کیا ہے۔ نسلی فخر ۲۔معاشی مفادات کا ٹکراؤ ۳۔ دونوں

۔۔۔۔۔۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ ۱۔صوبوں میں بداعتمادی ۲۔منصوبے کی لاگت ۳۔منصوبہ فائدہ مند نہیں

۔۔۔۔۔۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا بنیادی سبب کیا تھا؟ ۱۔بدگمانی ۲۔مغربی پاکستان کے لوگوں کانسلی تفاخر ۳۔دونوں

۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں قتل و غارت گری کیوں ہوتی ہے؟ ۱۔مادی مفادات میں اختلاف کی بنا پر ۲۔بدگمانی کی بنا پر ۳۔ دونوں

۔۔۔۔۔۔ اس میں سے کونسا عمل اسلام میں جائز ہے۔ ۱۔غیبت کرنا ۲۔بد گمان کرنا ۳۔اہم خبر کی بلا تحقیق اشاعت۔ ۴۔ ان میں سے کوئی نہیں

۔۔۔۔۔۔ مذہبی فرقہ واریت کی کیا وجوہات ہیں؟ ۱۔دوسرے مکاتب فکر کو گمراہ سمجھنا ۲۔دلیل پر روایت کو ترجیح دینا ۳۔دونوں

۔۔۔۔۔۔ سیاسی بیان بازیوں میں کس گناہ کا احتما ل زیادہ ہے۔ ۱۔خبر کی بلاتحقیق اشاعت ۲۔عیب جوئی ۳۔غیبت

۔۔۔۔۔۔ اگر کچھ لوگ فحش باتیں کررہے ہوں تو انہیں منع کرنے کا مناسب طریقہ کیا ہے؟ ۱۔ اسی وقت ٹوک کر کھری کھری سنائی جائیں ۲۔علیحدگی میں سمجھایا جائے ۳۔کچھ نہ کیا جائے

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

بھائی چارے کو کیسے قائم کیا جائے؟
Scroll to top