اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ۔ (الانبیاء 21:107)
اے رسول ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔
اگر کوئی شخص یہ دیکھنا چاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ انسان کے لئے کس طرح رحمت بنی تو اس بیان کے لئے ایک تقریر کیا، سینکڑوں تقریریں اور سینکڑوں کتابیں بھی ناکافی ہیں۔ انسان رحمت کے ان پہلوؤں کا شمار نہیں کر سکتا۔ اس لئے میں آپ کے سامنے اس رحمت کے صرف ایک پہلو کے بیان پر اکتفا کروں گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انسانی سماج کے لئے وہ اصول پیش کئے ہیں جن کی بنیاد پر انسانوں کی ایک برادری بن سکتی ہے اور انہی اصولوں پر ایک عالمی حکومت بھی معرض وجود میں آ سکتی ہے اور انسانوں کے درمیان وہ تقسیم بھی ختم ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے ظلم کا باعث بنی رہی ہے۔۔۔۔
اگر آپ ہوا میں قلعے تعمیر کر چکے ہیں، تو یہ ایسا کام ہے جسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن حقیقی بنیادیں ہوا میں نہیں بلکہ زمین پر رکھی جاتی ہیں۔ ہنری ڈیوڈ |
دنیا میں جتنی بھی تہذیبیں گزری ہیں، انہوں نے جو بھی اصول پیش کئے ہیں، وہ انسانوں کو جوڑنے والے نہیں ہیں بلکہ پھاڑنے والے اور انہیں درندہ بنانے والے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ سب سے قدیم آریہ تہذیب کو لے لیجیے۔ وہ جہاں بھی گئے اپنے ساتھ نسلی برتری کا تصور لے کر گئے۔ [ایران و ہندوستان میں] آریہ تہذیب نے واضح طور انسان کو مختلف طبقوں میں تقسیم کیا اور یہ تقسیم انسانی صفات کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ پیدائش کی بنیاد پر تھی اور اس میں انسانی کوشش کو قطعاً کوئی دخل نہ تھا۔ کوشش سے کوئی شودر برہمن نہ بن سکتا تھا اور نہ کوئی ذات دوسری ذات میں منتقل ہو سکتی تھی۔
اسی اصول کو ہٹلر نے اختیار کیا تھا۔ اس نے یہ دعوی کیا تھا کہ جرمن نسل سب سے برتر و فائق ہے۔ نسلی برتری کا یہی تصور یہودی ذہنیت میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے قانون کے مطابق جو پیدائشی اسرائیلی نہیں، وہ اسرائیلیوں کے برابر نہیں ہے۔۔۔۔ اسی طرح یونانیوں کے اندر بھی ایک نسلی غرور پایا جاتا ہے۔۔۔ یہی چیز آپ کو مغربی ذہنیت میں پیوست دکھائی دیتی ہے۔۔۔ جنوبی افریقہ اور روڈیشیا میں یہی ظلم آج بھی انسان انسان کے ساتھ کر رہا ہے۔۔۔۔
دین دار طبقے کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل ایک مذہبی آدمی خواہ وہ جدید تعلیم یافتہ ہو یا مدارس کا تعلیم یافتہ، اسے اپنی عملی زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تحریر میں مصنف نے ان مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے حل کی تجاویز پیش کی ہیں۔ |
اسی قبیل سے علاقائی قومیت کا ایک نشہ بھی ہے۔ دنیا کی دو بڑی جنگیں اسی تعصب کی بنیاد پر چھڑیں۔۔۔۔ اور یہی کیفیت خود عرب میں بھی تھی۔ قبائلی عصبیت ان لوگوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہوئی تھی۔ ہر قبیلہ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں برتر و فائق سمجھتا تھا۔ دوسرے قبیلے کا کوئی شخص کتنا ہی نیک کیوں نہ ہوتا، وہ ایک قبیلے کے نزدیک اتنی قدر نہیں رکھتا تھا جتنا کہ ان کے نزدیک ان کا اپنا ایک برا آدمی رکھتا تھا۔۔۔۔
جس سرزمین میں انسانوں کے درمیان امتیاز نسل، قبیلے اور رنگ کی بنا پر ہوتا تھا وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پکار انسان کی حیثیت سے بلند کی۔ ایک عرب نیشنلسٹ کی حیثیت سے نہیں اور نہ عرب یا ایشیا کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے کی تھی۔ آپ نے پکار کر فرمایا۔
اے انسانو! میں تم سب کی طرف مبعوث ہوا ہوں۔
اور جو بات پیش کی وہ یہ کہ۔۔۔۔
اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا، اور تم کو قبیلوں اور گروہوں میں اس لئے بانٹا ہے کہ تم کو باہم تعارف ہو۔ اللہ کے نزدیک برتر اور عزت والا وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ تمام انسان اصل میں ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اور اس حیثیت سے بھائی بھائی ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق رنگ، نسل اور وطن کی بنیاد پر نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلسفی نہیں تھے کہ محض ایک فلسفہ پیش کر دیا۔ آپ نے اس بنیاد پر ایک امت بنائی اور اسے بتایا کہ جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شھداء علی الناس [یعنی تمہیں درمیانی امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اللہ اور آخرت کی) گواہی قائم کر دو۔ امت وسط کا] مفہوم یہی ہے کہ مسلمان امت عادل ہے۔
اب یہ امت عادل بنتی کس چیز پر ہے؟ یہ کسی قبیلے پر نہیں بنتی، کسی نسل یا وطن پر نہیں بنتی، یہ بنتی ہے تو ایک کلمے پر یعنی اللہ اور اس کے رسول کا حکم تسلیم کر لو تو جہاں بھی پیدا ہوئے ہو، جو بھی رنگ ہے، بھائی بھائی ہو۔ اس برادری میں جو بھی شامل ہو جاتا ہے اس کے حقوق سب کے ساتھ برابر ہیں۔ کسی سید اور شیخ میں کوئٰ فرق نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت ہے۔۔۔۔
اس امت میں بلال حبشی بھی تھے، سلمان فارسی بھی اور صہیب رومی بھی [رضی اللہ عنہم]۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ساری دنیا کو اسلام کے قدموں میں لا ڈالا۔ خلافت راشدہ کے عہد مبارک میں ملک پر ملک فتح ہوتا چلا گیا۔ اس لئے نہیں کہ مسلمان کی تلوار سخت تھی بلکہ اس لئے کہ وہ جس اصول کو لے کر نکلے تھے اس کے سامنے کوئی گردن جھکے بغیر نہ رہ سکتی تھی۔ ایران میں ویسا ہی اونچ نیچ کا فرق تھا جیسا کہ عرب جاہلیت میں۔ جب ایرانیوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں کھڑے دیکھا تو ان کے دل خود بخود مسخر ہو گئے۔۔۔۔
مسلمان جب بھی اس اصول سے ہٹے، مار کھائی۔ اسپین پر مسلمانوں کی آٹھ سو برس حکومت رہی۔ جب مسلمان وہاں سے نکلے تو اس کی وجہ تھی، قبائلی عصبیت کی بناء پر باہمی چپقلش۔۔۔۔ اسی طرح ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی طاقت کیوں ٹوٹی، ان میں وہی جاہلیت کی عصبیتیں ابھر آئی تھیں۔ کوئی اپنے مغل ہونے پر ناز کرتا تھا تو کوئی پٹھان ہونے پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پہلے مرہٹوں سے پٹے، پھر سکھوں سے پٹے اور آخر میں چھ ہزار میل دور سے ایک غیر قوم آ کر ان پر حاکم بن گئی۔ اسی [پچھلی] صدی میں ترکی عظیم الشان سلطنت ختم ہو گئی۔۔۔۔
آپ سیرت پر کانفرنسیں ضرور کریں، ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مبارک کوئی کام نہیں ہے لیکن یہ محض ذکر اور لپ سروسز ہو کر نہ رہ جائے۔ اس پر عمل کریں گے تو اس رحمت سے آپ کو حصہ ملے گا جو صرف پیروی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر ہے۔
(مصنف: سید ابو الاعلی مودودی، تفہیمات حصہ 4 سے انتخاب)
آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی رحمت کے کن پہلوؤں کی طرف مصنف نے توجہ دلائی ہے؟
۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے عدل کا کیا فلسفہ بیان فرمایا اور اس کے نتائج کیا نکلے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز