ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہوگا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لئے دعا اور دوا کا اہتمام نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالی ایسے ماں باپ کے لئے آسانیاں فراہم کر دے گا۔
کسی چیز کو بغیر سوچے سمجھے مقدس قرار دے دینا انسان کے لئے ایک (شیطانی) پھندا ہے۔ سیدنا سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام |
نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لئے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ “بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔” مرد حضرات خود باجماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پالینے کی آرزو پیدا کی جائے۔
اللہ تعالی سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والیدن کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی تو مانگنی ہیں۔ بچے کو روزمرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا، اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔
نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتدا میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر میں نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں، انہی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے، اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ۔۔۔۔ صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کروائی جائے۔
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں اس تحریر میں مصنف نے دور حاضر میں وقوع پذیر ہونے والی نفسیاتی، عمرانی، ثقافتی، سیاسی، معاشی اور تکنیکی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اسلام کے نقطہ نظر سے ان پر بحث کی ہے۔ ان قارئین کے لئے جو دنیا کے مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہوں۔ |
دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعا و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت انشاء اللہ کبھی رائیگاں نہ جائے گی۔
(مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )
فاضل مصنفہ نے بچوں کو تدریج کے ساتھ نماز کی عادت ڈالنے کا جو طریقہ کار تجویز کیا ہے، وہ نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے دینی حلقوں میں پورے کے پورے دین کو کسی فرد پر زبردستی لاد دینے کی جو روایت چل نکلی ہے، وہ عقل و دانش کے ساتھ ساتھ خود دینی احکام کے خلاف ہے۔ اللہ تعالی نے مختلف برائیوں جیسے شراب، بدکاری وغیرہ کے خاتمے کے لئے تدریجی طریقہ اختیار کیا۔
اگر ابتدا ہی سے بچوں کو یہ بتایا جائے گا کہ عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے انہیں 17 رکعتیں ادا کرنی ہیں، تو کس بچے کا دل چاہے گا کہ وہ اپنے اندر نماز کی عادت پیدا کرے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ابتدا میں صرف فرض رکعتوں کی عادت ڈالی جائے اور جب یہ عادت پختہ ہو جائے تو پھر بچوں کو سنن و نوافل کی ترغیب (اور صرف ترغیب ہی) دلائی جائے۔ انہیں بچے پر مسلط نہ کیا جائے۔ میں نے بہت سے بچوں کو محض اس وجہ سے دین سے دور ہوتے دیکھا ہے کہ ان کے والدین نے ان پر نماز کو مسلط کیا تھا۔
ابتداء میں بچوں کو فجر کی نماز ادا کرنے کی ترغیب اس وقت دی جائے جب وہ سو کر اٹھیں خواہ اس وقت نماز قضا ہو چکی ہو۔ نماز کے وقت ان کی چادر کھینچ کر اور لائٹ جلا کر انہیں زبردستی اٹھانا انہیں نماز سے باغی کر سکتا ہے۔ جب بچے میں فجر کی نماز کی عادت پختہ ہو جائے تو اسے آہستہ آہستہ نماز کے وقت کی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔ ہمارے موجودہ لائف اسٹائل میں دیر سے سونے کی جو عادت رواج پذیر ہو چکی ہے، وہ فجر کی بروقت ادائیگی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بچوں میں نماز کو اپنے وقت میں ادا کرنے کی عادت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ والدین خود جلدی سونے کی عادت ڈالیں تاکہ فجر اور ہو سکے تو تہجد کے وقت اٹھنا ان کے لئے آسان ہو سکے۔
(محمد مبشر نذیر)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ دینی احکام کی تربیت میں تدریج کی اہمیت بیان کیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ بچوں کو نماز کا عادی بنانے کے لئے والدین کا پہلے خود نمازی بننا ضروری ہے۔ تبصرہ کیجیے۔
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز