عورت کے لئے بچے کی پیدائش سے پہلے کا زمانہ ایک سخت تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ مختلف ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔ ہر بچہ اللہ تعالی کی طرف سے انسانیت کے لئے ایک پیغام ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کون سا بچہ والدین کے لئے باعث سعادت اور معاشرے کے لئے باعث رحمت ہو گا۔ ہر آنے والا بچہ دنیا میں اپنے حصے کا رزق اور مقدر لے کر آتا ہے۔ بچوں کی پیدائش پہ دل میں تنگی محسوس کرنا، چاہے وہ کسی بھی سوچ کے ساتھ ہو، نرم سے نرم الفاظ میں بھی اللہ سے بغاوت ہے۔
مذہبی راہنما بازاروں اور محفلوں میں عزت کے خصوصی مقام کی تلاش میں رہتے ہیں اور عمل صرف ایک مقصد کے لئے کرتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھیں۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
بچے کا تعلق ابتدائی دنوں سے ہی ماں کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ وہ ننھا سیاہ خلیہ محض ایک جرثومہ نہیں، بلکہ ایک مکمل شخصیت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے، اور وہ اپنی ماں سے خاص نسبت رکھتا ہے۔ تخلیق کا عمل اللہ کا ایک کھلا کرشمہ ہے۔ ایک معمولی خلیے کا چھ سے دس پونڈ کے انسان میں تبدیل ہو جانا بلاشبہ ایک حیرت انگیز عمل ہے۔
تخلیق کے عمل سے گزرنے والی خاتون پر اللہ تعالی کی شکر گزاری لازم آتی ہے کہ خالق کائنات نے اشرف المخلوقات کی تخلیق کے لئے اسے منتخب کیا ہے۔ حاملہ خاتون کو حسن نیت، اور خوش اسلوبی کے ساتھ اس ڈیوٹی کو انجام دینا چاہیے۔ ایک سچی مسلمان عورت یہ زمانہ مصیبت سمجھ کر نہ گزارے، بلکہ ان تکالیف کو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے۔ اس زمانے میں وہ اللہ تعالی کی خصوصی نظر رحمت میں ہوتی ہے۔ اس شفیق ذات نے اس کے روزمرہ فرائض کو اجر کے حساب سے نفع بخش ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ایک حاملہ عورت کی نماز عام عورت کی نماز سے افضل ہے۔ حاملہ عورت اگر رب کریم کی فرماں بردار ہے اور اس کی لو اپنے رب سے لگی ہوئی ہے تو سارے زمانہ حمل میں اس کو رات اور دن میں بے پناہ ثواب ملتا ہے۔
باپ کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کو پاکیزہ اور صالح کردار پر اٹھانے کے لئے گھر میں ایسی کمائی لائے جو حلال اور طیب ہو۔ اپنی اولاد کو اگر حرام کمائی سے سینچا گیا تو اس کے کردار و اعمال میں شرافت کی سی تابندگی کیسے آئے گی؟۔۔۔۔
ہمہ وقت اللہ کا ذکر، نماز کی پابندی، باوضو رہنا، پاکیزہ گفتار ہونا، جسمانی، روحانی اور ذہنی سکون کا باعث ہوتا ہے۔ ہر وہ غذا جو حاملہ عورت کھاتی ہے، اس میں اس ننھی سی جان کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اگر جسمانی غذا معمول سے زیادہ درکار ہوتی ہے تو روحانی غذا کا تناسب بھی تو پہلے سے زیادہ چاہیے۔۔۔۔۔
ماہرین نفسیات سفارش کرتے ہیں کہ والدین اپنے آئندہ بچے کو جیسا کچھ بنانا چاہتے ہیں، ماں کو اسی کی طرف یکسو رہنا چاہیے۔ جن لائن پر لگانا چاہتے ہیں، جس مضمون یا فن کا ماہر بنانا چاہتے ہیں، ماں کو بھرپور اسی کی توجہ دینی چاہیے اور ویسے ہی ماحول میں رہنا چاہیے۔
ایک مسلمان ماں اپنے بچے کو “نمائندہ مسلمان” بنانا چاہتی ہو گی تو وہ ضرور ان سب امور کا خیال رکھے گی۔ بزرگان دین کی مائیں اکثر و بیشتر قرآن پاک کو ہر وقت ورد زبان رکھتی تھیں۔ آج بھی ایسی مثال مل سکتی ہے کہ جب ماں نے مدت حمل میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت سنی، خود بھی ورد زبان بنایا اور ایک ہی قاری کی زبان، لب و لہجہ میں کثرت سے قرآن سنا تو اس کا اثر یہ ہوا کہ نومولود قرآن کی تلاوت کو حیرت انگیز دلچسپی سے سنتا اور جب قرآن سیکھنے کی عمر ہوئی تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد سیکھ گیا۔
انسانوں میں تکبر، حسد، ریاکاری اور دیگر شخصی مسائل کیوں پائے جاتے ہیں؟ ان کا علاج کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔ |
ایک ذمہ دار اور حساس مسلمان ماں وہ ہے، جو زمانہ حمل میں متقی خواتین کی صحبت سے فیض یاب ہو، قرآن و حدیث کا بکثرت مطالعہ کرے، قرآن پر غور و فکر کرے اور درس و تدریس میں وقت گزارے۔ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بھی اللہ تعالی کی رضا کے لئے انجام دے۔ یہ آزمائی ہوئی بات ہے کہ مستقل بنیادوں پر منعقدہ قرآنی کلاسوں میں شامل ہونے والی خواتین نے اس بچے کی عادات میں نمایاں تبدیلی محسوس کی، جو قرآنی کلاسوں میں شریک ہونے کے زمانے میں رحم میں پرورش پا رہے تھے۔
ماں بننے والی خاتون کو شعوری کوشش کے ساتھ صبر و قناعت اور قوت برداشت کا اجاگر کرنا چاہیے۔ وہ بنیادی اخلاقی عیب جو انسانی زندگی کو بدصورت بناتے ہیں اور انسانیت کی توہین ہیں مثلاً بغض، کینہ، حسد، تکبر اور جھوٹ سے بچنے کی کوشش کرے۔ بے جا، لایعنی اور غیر ضروری بحث سے گریز کرے۔ ذکر و تسبیح کو اپنا معمول بنائے۔ یقیناً اس کی عبادت، ذکر، روزہ و دیگر حقوق و فرائض کی ادائیگی میں ایک معصوم روح بھی شریک ہوتی ہے اور وہ اللہ کے حضور اپنی ماں کے ہر نیک عمل کی گواہ بھی ہو گی۔
جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی اعلی اور زیادہ مقدار میں ہونی چاہیے۔ روشن کردار، اعلی ذہنی و فکری استعداد کی مالک ماں ہی اپنے بچے کے روشن مستقبل کی فکر کر سکتی ہے۔ کم ظرف، جھگڑالو، حاسد، احساسا برتری یا کمتری کی ماری، ناشکری اور بے صبری عورت، اعلی کردار کا سپوت قوم و ملت کو کیسے دے سکتی ہے۔
جسمانی صحت و صفائی کے ساتھ ساتھ ماں کو روحانی صحت و صفائی کا خیال رکھنا لازمی امر ہے۔ باوضو رہنا، ہر کھانے سے پہلے وضو کر لینا، ہر لقمے کے ساتھ بسم اللہ پڑھنا اور اپنے ہونے والے بچے کا دھیان بھی اس غذا کے ساتھ رکھنا کہ وہ اس غذا میں حصہ دار ہے۔ اسی طرح عورت اپنے ہر چھوٹے، بڑے کام میں زیر تخلیق معصوم ہستی کو شامل رکھے تو اس کی اپنی روحانی تربیت میں بے حد اضافہ ہو گا۔ گویا ماں بننے کے مراحل میں عورت خود اپنے لئے ایک ایسا ادارہ بن جاتی ہے، جس میں ہر لمحہ اس کو ایک بات سیکھنے اور سکھانے میں مدد ملتی ہے اور اللہ تعالی کی نظر رحمت میں رہتی ہے۔۔۔۔
اللہ تعالی سے محبت کرنے والی، روشن ضمیر، اللہ پر توکل کرنے والی خاتون روحانی طور پر مضبوط اور پرعزم ہوگی۔ اس زمانے میں عورت کے گھر کا ماحول اور خصوصا شوہر کا رویہ اور انداز فکر بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس غیر معمولی صورت حال میں شوہر کی بھی ذمہ داریاں غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ اس لئے خاتون کی ذہنی، جسمانی، روحانی طمانیت کے لئے شوہر کو بھرپور طریقہ سے اپنا کردار انجام دینا چاہیے۔ یہ شوہر کا فرض عین ہے جس کی اس سے باز پرس ہو گی۔ دیگر رشتہ دار اور شوہر ایک نئی ہستی کو دنیا میں لانے کے لئے عورت کو جتنی آسانیاں، آرام، ذہنی و جسمانی سکون مہیا کریں گے تو وہ بھی لازماً اس کا صلہ اللہ تعالی کے ہاں پائیں گے۔ دیکھا گیا ہے کہ تخلیق کے مراحل میں پورے نو ماہ جس خاتون کے شوہر نے بیوی کے آرام و سکون کے لئے خاطر خواہ انتظامات کئے، اپنی نفسانی اور عمومی خواہشوں کی تکمیل کے لئے قربانی اور ایثار کا راستہ اختیار کیا، ان کے بچے صحت مند، خوبصورت، ذہین اور پراعتماد نکلے۔
(مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ دوران حمل خواتین کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز