بیسویں صدی کے نصف اول میں برصغیر کے مسلمانوں میں تجدید و احیائے دین کے دو ماڈل سامنے آئے۔ ایک ٹاپ ڈاؤن اور دوسرا باٹم اپ۔
جو شخص تمہاری تعریف کرتے ہوئے تم سے وہ خوبیاں منسوب کرے جو تم میں نہ ہو، وہ تم سے ایسی خامیاں بھی منسوب کر سکتا ہے جو تم میں نہ ہوں۔ اقلیدس |
ٹاپ ڈاؤن اپروچ
ان میں پہلا نقطہ نظر یہ تھا کہ معاشرے کی اصلاح اوپر سے کی جائے۔ اسے ہم ٹاپ ٹن اپروچ کا نام دے سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق حکمت عملی یہ وضع کی گئی کہ خدائی فوجداروں کی ایک جماعت بنائی جائے جو دین پر پوری طرح عمل کرنے والی ہو۔ یہ جماعت جیسے بھی ممکن ہو، اقتدار حاصل کرے اور حکومتی طاقت کے زور پر معاشرے کی اصلاح کا کام کرے۔
اس تحریک کو برصغیر میں مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور سید ابوالاعلی مودودی جیسے عبقری میسر آ گئے۔ مولانا آزاد اور علامہ اقبال کی کوششیں تو زیادہ تر نظریاتی محاذ پر مرکوز رہیں لیکن مودودی صاحب نے نظریاتی میدان کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں اتر کر باقاعدہ ایک جماعت بھی بنا ڈالی۔ معاشرے کی اصلاح کا پروگرام لے کر قیام پاکستان کے بعد جماعت اسلامی سیاست کے میدان میں اتر آئی۔
اسی نقطہ نظر کے تحت مختلف مسلکوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اپنی جماعتیں بنائیں۔ ساٹھ ستر سال کی اس جدوجہد میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ ان کی کوششوں کی نتیجے میں پاکستان کا اسلامی تشخص قائم ہو سکا ہے مگر عملی زندگی میں اس کے اثرات بہت زیادہ نمایاں نہیں ہیں۔ اسی طرز پر تمام مسلم ممالک میں مذہبی سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔ ٹاپ ڈاؤن ماڈل اختیار کرنے والی بعض جماعتوں نے مسلح جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا جس کی انتہائی صورت اب القاعدہ اور طالبان کی صورت میں موجود ہے۔
بحیثیت مجموعی ٹاپ ڈاؤن ماڈل کو پچھلے ستر برس میں ایران اور افغانستان کے علاوہ کہیں بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ترکی میں اسلام پسند جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘ کو کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ میرے خیال میں تمام مذہبی سیاسی جماعتوں کو ترکی کی جماعت کے طریق کار کا مطالعہ کر کے ان سے سیکھنا چاہیے۔
باٹم اپ اپروچ
تجدید و احیائے دین کا دوسرا ماڈل باٹر اپ اپروچ تھی جسے تبلیغی جماعت نے اختیار کیا۔ جماعت کے بانی مولانا الیاس، سید مودودی کی طرح بہت بڑے مفکر تو نہ تھے لیکن اعلی پائے کے منتظم اور عملی میدان کے آدمی تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں تبلیغی جماعت ہندوستان کی حدود سے نکل کر پوری دنیا میں پھیل گئی۔ تبلیغی جماعت کی شاخیں مسلم ممالک کے علاوہ غیر مسلم ممالک میں بھی قائم ہیں۔ رائے ونڈ میں ہونے والا تبلیغی اجتماع دنیا میں حج کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع سمجھا جاتا ہے۔
موجودہ دور کی بین الاقوامی سیاست میں کیا عوامل کار فرما ہیں؟ عصر حاضر کی اسلامی تحریک کو امریکی دانشور کس نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں؟ اسلام اور مغرب کے مابین موجودہ تصادم کی حرکیات کیا ہیں؟ اسلامی جماعتیں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ ان سوالات کا جواب مشہور امریکی مصنف جان ایل ایسپوزیٹو نے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے؟ یہ مضمون ان کی کتاب کے تعارف پر مشتمل ہے۔ |
تبلیغی جماعت کی دعوت نے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ مزدور پیشہ دیہاتیوں سے لے کر فوج اور انٹیلی جنس کے جرنیل، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سینئر ایگزیکٹوز اور بڑی بڑی یونیورسٹی کے پروفیسر تبلیغی جماعت میں شامل ہیں۔ ان کی دعوتی جدوجہد کے نتیجے میں مختلف شعبوں کے بڑے نام بھی تبلیغی جماعت کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس میں وہ شعبے بھی شامل ہیں جو دینی طبقے کے نزدیک اینٹی اسلامک ہیں۔ پاکستان میں اس کی حالیہ مثال لیجنڈ کرکٹر سعید انور، انضمام الحق اور محمد یوسف ہیں۔ شوبز کی دنیا سے جنید جمشید جیسے بڑے گلوکار اور متعدد ٹی وی اور فلم آرٹسٹ بھی تبلیغی جماعت سے متعلق ہوئے۔
اس باٹم اپ ماڈل کو تبلیغی جماعت کے علاوہ دنیا بھر میں بہت سی جماعتوں اور افراد نے اختیار کیا۔ اس ماڈل کا نظریہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہیے اور لوگوں کا تعلق اللہ تعالیٰ اور اس کے دین سے قائم کرنا چاہیے۔ جب معاشرے کی اکثریت دین پر کاربند ہو گی تو اس کے نتیجے میں حکومت بھی اسلامی ہو جائے گی۔ مختلف مسلم اور غیر مسلم ممالک میں بے شمار افراد اور جماعتیں اس طریقے سے اپنے معاشرے کی اصلاح کا کام کر رہے ہیں۔ ان افراد میں قدیم طرز کے علماء کے ساتھ ساتھ بہت سے جدید تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں۔
ہماری دعوت کامیاب کیوں نہیں ہے؟
ہماری دینی جماعتوں اور دین دار افراد کی ان تمام فتوحات کے باوجود معاشرے پر ہماری اصلاحی کاوشوں کے بڑے اثرات نمایاں نظر نہیں آتے اور مسلم ممالک کے معاشرے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ میری ناقص رائے کے مطابق اس معاملے میں ہماری تمام دینی اور اصلاحی تحریکوں کے طریق کار میں چند سقم پائے جاتے ہیں جنہیں دور کیے بغیر ہم معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے۔
تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت میں ایک بنیادی عنصر یہ رہا ہے کہ وہ اپنے معاشرے کو اچھی طرح سمجھتے تھے اور اسی کی زبان میں اللہ کی توحید کی دعوت پیش کیا کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس بات کا بار بار ذکر کیا ہے کہ ہم نے ہر قوم میں انہی میں سے رسول بھیجا جو انہی کی زبان میں دعوت پیش کیا کرتا تھا۔
ہماری تمام دینی تحریکوں کی جدوجہد، دعوت دین کے اس بنیادی عنصر سے محروم ہے۔ ہمارا پورا دینی طبقہ نہ تو آج کے جدید معاشروں کی نفسیات اور عمرانی ترکیب سے واقف ہے اور نہ ہی وہ ان کی زبان بولتا اور سمجھتا ہے۔ اگر چہ بظاہر یہ خواتین و حضرات اردو یا اپنی مادری زبان ہی بول رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے الفاظ، تراکیب، اسالیب اور گفتگو کا انداز سامعین کے لئے اتنا ہی اجنبی ہوتا ہے جتنا کہ کوئی اور زبان ہو سکتی ہے۔
اگر ہم اپنے دینی طبقے کے لباس، رہن سہن، لائف اسٹائل، گفتگو کے انداز، کھانے پینے کے آداب، نشست و برخاست کے طریقے، غرض کسی چیز کا بھی جائزہ لیں تو اس میں یہ اپنے مخاطب معاشروں سے بالکل مختلف جگہ کھڑے نظر آتے ہیں۔ ایک صاحب علم کے الفاظ میں ہمارے داعین کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ دنیا کو کیا ہونا چاہیے؟ وہ اس بات کو قطعی نظر انداز کر جاتے ہیں کہ دنیا اس وقت ہے کیا؟ یہ جانے بغیر کہ آپ اس وقت کہاں کھڑے ہیں، آپ یہ طے کر ہی نہیں سکتے کہ آپ کو کس طرح اپنی منزل پر پہنچنا ہے۔ یہ چیز اتنی غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے باعث ہمارے معاشروں کی اکثریت دین دار افراد کی بات سننے کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتی۔
میرے رائے میں مبلغین کی تربیت کے دوران انہیں نفسیات سائیکالوجی اور عمرانیات سوشیالوجی کے مبادیات کی تعلیم دینا اشد ضروری ہے۔ پوری دنیا میں تمام مسلم کمیونیٹیز کو چھوڑ کر صرف امریکی مسلمانوں نے اس بات کی اہمیت کو محسوس کیا ہے اور انہوں نے اسلامی سوشل سائنسز کے چند ادارے قائم کیے ہیں۔ جس احباب اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں، وہ تفصیلی بحث کے لئے حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے امریکی دانشور مقتدر خان کے ان آرٹیکلز سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
ہمارے دین دار افراد اور تحریکوں کے ہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سوائے چند لوگوں کے، ان کی دعوتی جدوجہد کا محور و مرکز قرآن مجید نہیں رہا۔ بہروپیوں کو نظر انداز کر کے اگر ہم اپنے کاز سے انتہائی مخلص لوگوں کا بھی جائزہ لیں تو ان کے ہاں بھی دعوت دین کا مقصد اپنے مسلک یا گروہ کی دعوت، فقہی مسائل کی تبلیغ، من گھڑت روایات میں بیان کئے گئے فضائل کے ذریعے چند مخصوص عبادات و رسوم پر عمل درآمد یا پھر بہت ہوا تو سوچے سمجھے بغیر قرآن مجید کو حفظ کرنے کی کوشش ان کی جدوجہد کا مقصد ہوتی ہے۔
ہماری اکثریت کے ہاں اخلاقیات، جو دین کا اہم ترین جزو ہیں، سرے سے زیر بحث ہی نہیں آتے اور اگر آتے بھی ہیں تو ان پر وہ زور نہیں دیا جاتا جو دوسرے معاملات میں روا رکھا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک دنیا میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے کہ مسلمان علم اور اخلاقیات میں دوسری اقوام سے پیچھے ہیں۔ جب تک ہم علم اور اخلاق میں دوسروں سے پیچھے رہیں گے، ہم دنیا کی گاڑی میں بیک سیٹ پر ہی سفر کرتے رہیں گے۔ اگر ہم ڈرائیونگ سیٹ پر آنا چاہتے ہیں تو ہمیں علم اور اخلاق میں اپنا معیار دوسروں کی نسبت بلند کرنا ہو گا۔
قرآن نے پرزور طریقے سے بتایا ہے کہ ولقد یسرنا القرآن لذکر فھل من مدکر یعنی بے شک ہم نے اس قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنا دیا ہے تو ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا۔ فقہی مسائل کے استنباط کے لئے قرآن و سنت کو سمجھنے کے لیے بہت سے علوم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن محض نصیحت حاصل کرنے کے لیے کسی مخصوص علم یا سالوں کی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی شخص محض ترجمہ پڑھ کر یا تلاوت مع ترجمہ سن کر بھی نصیحت حاصل کر سکتا ہے۔ قرآن مجید میں احکام سے متعلق آیات پورے قرآن کا دس فیصد بھی نہیں جبکہ نصیحت اور تذکیر قرآن کی نوے فیصد سے زائد آیات کا موضوع ہے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ دعوت دین کی ٹاپ ڈاؤن اور باٹم اپ اپروچ میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔ ان دونوں میں سے کون سی اپروچ معاشرے کے لئے بہتر ہے؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیرشخصیت لیکچرز
اللہ کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیا میں آمد پر مکہ کے معاشرے کی جو اخلاقی حالت تھی وہ آج کسی بھی مسلم معاشرے میں نہیں ہے۔ بلکہ آج سے ستر اسی سال قبل جب تجدید و احیائے دین کی مختلف تحریکیں مختلف مسلم ممالک میں اپنے اپنے نقطہ نظر کے ساتھ وجود میں آیئں عین اس وقت بھی کسی بھی مسلم معاشرے کی اخلاقی حالت بعثت نبوی کے وقت اہل مکہ کی اخلاقی حالت سے کہیں بہتر تھی۔
اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں اعلیٰ اخلاق کی بہترین صورت پیش کی۔ ساتھ دینے والوں کی بظاہر ایک قلیل تعداد ہی تھی لیکن وہ گروہ قلیل بھی اخلاق اور قربانی کے اس بلند مقام پر آ چکا تھا کہ اب اس کے افراد پر اسلام کا مکمل نطام حیات یعنی فوجداری قانون تک نافظ کر دیا جائے تو نہ صرف وہ اس پر عمل کریں گے بلکہ یہاں تک تیاری ہو گئی کہ اپنا حق چھوڑنا، دوسرے کا حق ادا کرنا، جرم سرزد ہوجانے پر خود ہی عدالت پہنچ جانا، ان کے لئے آسان ہو گیا۔ قانون کا ابھی اعلان ہی ہوا اور خواتین خوش ہو کر پردے میں آ گئیں، قانون کا ابھی اعلان ہی ہوا اور منہ سے لگی شراب کے جام گر گئے۔۔۔۔۔۔۔ قانون کو تو بہت سالوں بعد جا کر حرکت مین آنا پڑا، ورنہ جن افراد پر سب سے پہلے اسلام کا فوجداری قانون نافظ کیا گیا ان پر تو کبھی قانون کو حرکت میں آنا ہی نہیں پڑا، وہ تو خود ہی قانون کے رکھوالے تھے۔
اگر ٹاپ ڈائون اپروچ بہتر ہے تو مکہ میں کام کے ابتدائی سالوں ہی میں اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو مکہ یعنی ملک کی صدارت کی کھلی پیش کش ہو چکی تھی۔ لیکن وہ صدارت یا امارت کس کام کی جس کے نظام کو ملک کی ایک بڑی اکثریت )کفار و مشرکین( قبول نہیں کرنا چاہتی تھی۔ حتیٰ کہ حبشہ کے حکمران کا تو ہمدردانہ رویہ تک دیکھ کر اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس حکمران سے معاملات طے نہیں کئے کہ اس کے علاقے میں اس سے اسلامی حکومت قائم کروا دیتے۔ بلکہ افراد سازی میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جب ان افراد پر کام مکمل ہو گیا اور ادہر دوسرے مقام پر یعنی مدینہ میں بھی لوگ سوچ سمجھ کر ساتھ دینے کو تیار ھو گئے تو پھر اسلامی حکومت بننے میں دیر نہیں لگی۔ اور جب اسلامی حکومت بن گئی تو ہمیں معلوم ہے کہ خاص طور پر حضرات ابوبکر و عمر اور عثمان و علی )رضی اللہ عنہم( کو اسلامی حکومت کو چلانے، پولیس اور ایجنسیاں بنانے اور ان کو چلانے میں ریاست کے کتنے وسائل لگانے پڑے؟ بلکہ ریاست کے وسائل تو اہل ریاست کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتے تھے۔
اس سے یہ تو ثابت ہوا کہ اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اپروچ ٹاپ ڈائون نہیں بلکہ باٹم اپ تھی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ تجدید و احیائے دین کی جو جماعتیں اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دکھائے ہوئے باٹم اپ اپروچ پر ہی کام کر رہی ہیں تو وہ بھی کسی تبدیلی کی طرف کیوں نہیں جا سکیں؟
میں زیادہ تفصیل سے گریز کرتے ہوئے ساری بات کو چند نکات میں لے آتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ جو آیت آ جاتی ہر شخص اسے اپنے لئے سجھتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔ جو فرمان نبوی جاری ہوا اسے اپنے لئے سجھتا تھا
۔۔۔۔۔۔ قرآن اور فرمان نبوی کا ایک ہی مقام تھا ان کے درمیان
۔۔۔۔۔۔ وہ دنیا میں سزا لے کر آخرت کی سزا سے بچنا جان گئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔ دنیا کو برت کر آخرت کو سنوارنے کے ایکسپرٹ تھے
آج دعوت دین کا کام کرنے والے سب سے پہلے خود کو مومن اور دوسروں کو جاہل اور گمراہ سمجھ کر کام شروع کرتےہیں۔ اور یہی چیز انہیں خود اپنے اخلاق سنوارنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔
اگر آج کی ترقی یافتہ دنیا جدید ترین ٹیکنالوجی، بے پناہ وسائل، اور سرمایہ رکھنے کے باوجود آج سے چودہ سو برس قدیم حکمران عمر فاروق کے دور حکمرانی کی مثال پیش نہیں کر سکی تو اس کی وجہ اللہ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ چلنے والے لوگوں )صحابہ( کے درمیان ہمہ جہتی باٹم اپ اپروچ تھی۔ اگر عمر )رضی اللہ عنہہ( کی حکمرانی اتنی کامیاب تھی تو مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ اس میں عمر )رضی اللہ عنہہ( کا اتنا حصہ نہیں جتنا عمر )رضی اللہ عنہہ( کی رعایا کا تھا، کہ لوگ بھی ایسا ہی حکمران چاہتے تھے اور لوگوں نے بھی اپنے حکمران کو ایسی حکومت کرنے دی تھی۔ خلفاء راشدین اور ان کے بعد کے ادوار میں معاشرے کا یہ حال آج کے داعیان دین، مفکران اسلام، مفتی عظام، کو نظر کیوں نہیں آتا؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فرد واحد اور اس کے چند مٹھی بھر افراد ہزاروں اور لاکھوں مربع میل پر پھیلے ہوئے پورے معاشرے کونہ صرف کنٹرول کر لیں بلکہ انتہائی اطمینان کے ساتھ کامیاب حکومت کر لیں؟ (ساجد محمود، کراچی)