جمعہ کا دن تھا۔ مساجد سے نماز جمعہ کے لئے پہلی اذان کی صدا بلند ہوئی۔ بہت کم لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ کاروبار زندگی ویسے ہی چلتا رہا۔ دفاتر میں لوگ اپنے کام میں مشغول رہے۔ دکانوں پر خرید و فروخت ہوتی رہی اور گھروں میں بیٹھنے والے گھروں ہی میں بیٹھے رہے۔ امام صاحب نے چند سامعین کے سامنے اردو خطبے کا آغاز کیا اور یہ چند سامعین چند ہی رہے۔ کچھ دیر بعد امام صاحب خاموش ہوئے اور دوسری اذان سے قبل چار رکعت پڑھنے کا وقت دیا گیا۔ جیسے ہی امام صاحب خاموش ہوئے، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف جانے لگے۔ دوسری اذان سے پہلے ہی مسجد کھچا کھچ بھر گئی اور عربی خطبہ جو کسی کی سمجھ میں شاید ہی آتا ہو، سننے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
اے مذہبی راہنماؤ! تم پر افسوس۔ تم مچھر تو چھانتے ہو مگر اونٹ نگل جاتے ہو۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام |
ہمارے علماء کے سامعین اتنے کم کیوں ہوتے جارہے ہیں؟ اگر یہ سوال انہی علماء سے کیا جائے تو وہ موجودہ دور کی خرابیاں بیان کریں گے اور معاشرتی بگاڑ کو اس کا ذمہ دار قرار دیں گے حالانکہ اسی معاشرتی بگاڑ کے باوجود بعض ایسے بھی اہل علم ہیں جن کی تقاریر سننے کے لئے ہزاروں افراد منتظر رہتے ہیں۔
ہمارے نزدیک اس مسئلے کی اصل وجہ علماء کی زبان ہے۔ ہمارے علماء کو جو زبان سکھائی جاتی ہے وہ قرون وسطیٰ کے فقہ، فلسفے اور منطق کی زبان ہے۔ یہ زبان یقینا اس دور کی کتب کے مطالعے کے لئے تو نہایت مفید ہے لیکن دعوت و تبلیغ کے لئے انتہائی ناموزوں۔ سینکڑوں سالوں میں جو تبدیلیاں دنیا میں رونما ہو چکی ہیں، اس کی طرف ان کی توجہ مبذول نہیں کروائی جاتی۔ جب دور جدید کا کوئی شخص ان کی بات سنتا ہے تو ان کی زبان اور گفتگو کو وہ اپنی زندگی سے قطعی غیر متعلق محسوس کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ مسجد میں جانے کے لئے امام صاحب کی تقریر کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ اگر ہمارے اہل علم اپنے افکار کو لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو انہیں، اسی معاشرے اور اسی دور کی زبان کو سیکھ کر اس میں اپنی دعوت ان تک پہنچانی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے جو نبی و رسول بھیجے وہ اپنے مخاطبین کو انہی کی زبان میں خطاب کیا کرتے تھے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
قرآن اور بائبل کے دیس میں اس سفرنامے کے مصنف کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا میں گھوم پھر کر خدا کی نشانیوں میں غور و فکر کیا جائے۔ یہ نشانیاں اللہ تعالی کی تخلیق کردہ فطرت کی صورت میں ہوں یا اس کی عطا کردہ انسانی عقل نے ان نشانیوں کو تیار کیا ہو، یہ انسان کو ایک اور ایک خدا کی یاد دلاتی ہیں۔ مصنف نے بعض قوموں کے تاریخی آثار کو خدا کے وجود اور اس کے احتساب کے ثبوت میں پیش کیا ہے۔ تفصیل کے لئے سفرنامہ ترکی مطالعہ کیجیے۔ |
اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ دعوت دین میں زبان کی اہمیت کیا ہے؟
۔۔۔۔۔ موجودہ دور میں خاص طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقے میں علماء کی دعوت کو زیادہ پذیرائی حاصل کیوں نہیں ہو سکی؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز