مغربی معاشرت کی فکری بنیادیں اور ہمارا کردار

مغربی تہذیب اور اسکے نتیجے میں وجود پانے والا معاشرہ چند بنیادوں پر کھڑا ہے جن کو سمجھنا ضروری ہے۔ مگر اس سے قبل مغربی تہذیب کی اصل نوعیت کو جان لینا بہت اہم ہوگا۔ یہ تہذیب دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرح مخصوص جغرافیائی، معاشرتی، معاشی، تاریخی اور مذہبی حالات کے پس منظر میں جنم لینے والی ایک عام تہذیب نہیں۔ میرے نزدیک یہ تہذیب باقاعدہ ایک فکر کی بنیاد پر اٹھی ہے جو ان تین بنیادی افکار میں سے ایک ہے جن پر کبھی انسان نے اپنی اجتماعی زندگی کا ڈھانچہ تشکیل دیاہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے انسانی تاریخ کو خدا کی نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

دولت سے کتابیں مل جاتی ہیں مگر علم نہیں۔ دولت سے ساتھی مل جاتے ہیں مگر دوست نہیں۔ دولت سے اچھا بستر مل جاتا ہے مگر نیند نہیں۔ بقراط

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کائنات دراصل حق و باطل کی کشمکش کے میدان کے طور پر وجود میں آئی ہے ( الانبیاء 21: 18-16)۔ حق اس دنیا میں ایک ہی ہے اور وہ توحید ہے۔ اس دنیا میں انسان کو امتحان کے لیے بھیجتے ہوئے خدا نے جو پرچہ تھمایا وہ اصلاً اسی توحید پر قائم رہنا تھا۔ میں پیچھے ’’عہد الست ‘‘ کے حوالے سے اسکی تفصیل ’ ’قرآن کا علم ا لانسان‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کرچکا ہوں۔

    یہ عہد الست انسانیت کے لاشعور میں اس طرح پیوست ہے کہ فکر وعمل کے میدان میں انسان نے کبھی بھی اور جو کچھ بھی تخلیق کیاوہ اسی عہد الست کے اعتراف، اس سے انحراف اور اسکے انکار کے ساتھ تخلیق کیا ہے۔

    انسان جب اس عہد کا اعتراف کرتا ہے تو توحید وجود میں آتی ہے۔ انحراف کرتا ہے تو شرک جنم لیتا ہے اور انکار کرتا ہے تو الحاد ایتھی ازم پیدا ہوتا ہے۔ آخر الذکر دو چیزیں یعنی شرک اور الحاد باطل کی دو شکلیں ہیں۔ انسان کی پوری تاریخ توحید اور باطل کی ان ہی دو شکلوں سے ٹکراؤ کی داستان ہے۔ اس داستان کا خلاصہ یہ ہے کہ باطل بار بار حق سے ٹکراتا ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اب باطل غالب آگیا اور حق مٹنے کو ہے مگر عین اس وقت خدا ایسے انسانوں کو جنم دیتا ہے جو حق کی نصرت کرتے ہیں اور پھر حق باطل پر فیصلہ کن ضرب لگاکر اسے نابود کردیتا ہے۔

    انسانیت کا آغاز سیدنا آدم علیہ السلام سے ہوا جو ایک پیغمبر بھی تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانیت کی ابتدا توحید سے ہوئی۔ وقت کی ایک نامعلوم مدت تک یہ زمانہ جاری رہا۔ اس دوران شیطانی طاقتوں کی مسلسل کوششوں اور بعض انسانی کمزوریوں کے نتیجے میں توحید کی جگہ شرک نے لے لی۔ پھر ہزاروں سال پر محیط شرک کے دور کا آغاز ہوتا ہے جس میں شرک بحیثیتِ مجموعی وقت کی غالب فکر کے طورپر موجود رہا۔ یعنی جو تہذیب جس جگہ اس دور میں وجود میں آئی اسکی بنیاد شرک کے فلسفہ پر تھی۔ اس پورے عرصے میں انسانوں کے فکر، عمل، سوچ، نظریات، طرزِ زندگی، قانون، اخلاق، فلسفہ، معیشت، معاشرت، ثقافت، تمدن، طرزِ تعمیر، علوم، فنون غرض ہر شعبۂ زندگی پر شرک کی چھاپ رہی۔

    اس دور میں شرک نے کس قسم کے جبر کو جنم دیا اور دھرتی میں کس قسم کا فساد بر پا کیا اسکا تصور آج کا انسان نہیں کرسکتا۔ اس دور میں خدا نے حق کی مدد اور باطل کو شکست دینے کے لیے بار بار مداخلت کی۔ اس طرح کہ اس نے نبیوں کے علاوہ اپنے رسولوں کو انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔

    نبیوں کے برعکس رسول نہ صرف توحید کا بھولا سبق لوگوں کو یاد دلاتے تھے بلکہ جب انکی دعوت کا انکار کردیا جاتا تو خدا توحید کی بنیاد پر تاریخ کا آغاز ایک نئے سرے سے کرتا۔ وہ یوں کہ اس مخصوص قوم کو، جسکی طرف رسول بھیجا گیا ہوتا، اتمامِ حجت کے بعد اسکی تہذیب و تمدن کے ساتھ نیست و نابود کردیا جاتا اور رسول کی قیادت میں ایک خدا پرست معاشرہ قائم کیا جاتا۔

    یہ وہ عمل ہے جسے سورۂ الانبیاء کی مذکورہ بالا آیات میں ’’باطل پر حق کی ضرب لگا کر اسکا بھیجا نکالنے اور باطل کے بھاگ جانے‘‘ سے تعبیر کیاگیا ہے۔ مگر ہر دفعہ پھر وہی پرانی کہانی جنم لیتی۔ شرک آہستہ آہستہ انسانی زندگی میں سرائیت کرتا چلا جاتا۔ حق و باطل کی کشمکش کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خدا نے انسانیت کی زندگی میں فیصلہ کن مداخلت کی اور اپنے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشن کے ساتھ بھیجا کہ آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شرک کوشکست دیکر دنیا کی غالب فکر کے مقام سے ہٹادیں۔ آپ نے اپنی زندگی میں جزیرہ نما عرب سے اور آپ کے اصحاب نے پوری متمدن دنیا سے شرک کو ختم کردیا۔ شرک اگر رہا تو غیر متمدن قوموں کے افراد کا آبائی عقیدہ بن کر۔ زندگی اور تہذیب کی تشکیل میں اسکا کو ئی کردار نہ رہا۔

قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس شخص کا ہو گا جو خود کو ملک الاملاک (یعنی بادشاہوں کا بادشاہ) قرار دے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

    یہی انسانی تاریخ کا دوسرا دور ہے جسے ہم بجا طور پر دورِ توحید سے منسوب کرسکتے ہیں۔ یہ دور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوا اور مغرب کے حالیہ عروج تک جاری رہا۔ اس دور میں توحید وقت کی غالب فکر رہی اور زندگی کا ڈھانچہ توحید کی بنیاد پر تشکیل پانے لگا۔ خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب پر درود و سلام بھیجے جنکی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں انسانیت نے شرک کے چنگل سے رہائی پائی۔ تاہم انسانیت کا یہ ہنی مون اس وقت ختم ہوا جب موجودہ مغربی تہذیب دھرتی کے خشک و تر پر چھاگئی۔

    یہی انسانیت کا تیسرا دور ہے جس میں باطل نے الحاد کی زنجیروں سے انسانیت کو جکڑ لیا۔ اس واقعہ کا آغاز اس وقت ہوا جب پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے والی مغر ب کی نشاہ ثانیہ کی تحریک نے مذہب بیزاری کی لہر کو پیدا کیا۔ یہ لہر بڑھتے بڑھتے انکارِ خدا تک جاپہنچی اور الحاد کو انسانی زندگی میں وہی حیثیت حاصل ہوگئی جو کبھی شرک اور توحید کو تھی۔ عین اسی وقت زندگی کی توانائیوں سے بھرپور اہل مغرب نے اپنے اپنے ملکوں سے نکل کر مشرق کی نڈھال قوموں پر یلغار کردی۔ جس کے نتیجے میں الحاد ی فکر پوری زمین پر چھاگئی۔ اور یوں وہ دور وجود میں آیا جس میں ہم جی رہے ہیں۔

    مغربی تہذیب کا موجودہ عروج حق و باطل کی مذکورہ بالا تاریخی کشمکش کا حصہ ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ اس دفعہ باطل نے شرک کے بجائے الحاد کی قبا اوڑھ رکھی ہے۔ اس دور میں بظاہر ایک دفعہ پھر باطل نے حق کو شکست دیدی ہے۔ تاہم باطل کے اس عروج کا مطلب میرے نزدیک یہ ہے کہ اس کی بربادی کا وقت آرہا ہے۔ اس دنیا کی تخلیق کا مقصد باطل کا عروج نہیں بلکہ بار بار اس کی بربادی ہے۔ یہ ماضی میں بھی ہوا اور مستقبل میں بھی ہوگا۔ میں اسکی تفصیل ذرا آگے چل کر بیان کرونگا۔ لیکن فی الوقت مغربی تہذیب کے بعض پہلوؤں کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔

    الحاد ایتھی ازم کے لفظ کے استعمال سے کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اب مغرب میں مذہب کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایسی بات نہیں۔ بیسویں صدی میں مغرب نے یہ سیکھ لیا کہ خدا کے تصور سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں ہے۔ مغربی مفکرین نے یہ سمجھا کہ خدا کا تصور قدیم انسانوں نے اپنے حالات کے اعتبار سے گھڑا تھا۔ آج وہ حالات نہیں رہے اس لیے اس تصور کو رخصت ہوجانا چاہیے۔ مگر انہیں اندازہ نہ تھا کہ یہ انسان کے اندر کی طلب ہے۔ مجبوراً خدا اور مذہب کو مشروط طور پر قبول کرلیا گیا۔

    وہ شرط یہ تھی کہ مذہب اجتماعی زندگی کی تشکیل میں کوئی حصہ نہ لے گا۔ اسکا تعلق فرد کی آزادی کے دائرے سے ہے۔ ایک شخص اگر اپنی تفریح کے لیے گانا سننا چاہتا ہے تو گانا سنے اور خدا کی عبادت کرناچاہتا ہے تو عبادت کرے۔ اس کا انحصار اسکی پسند و نا پسند پر ہے۔ گویا مذہب اور خدا اب وہاں روحانی تفریح کی حیثیت رکھتے ہیں جو کوئی شخص مادی تفریح سے بور ہونے کے بعد یا ان کے ساتھ ساتھ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے اختیار کرسکتا ہے۔

    آپ نتیجے کے اعتبار سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا اور مذہب کومانتے ہیں مگر آخرت کو نہیں مانتے۔ کیونکہ یہ آخرت کا عقیدہ ہے جو خدا کو خالق سے آگے بڑھاکر مالک الملک کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ یہ آخرت کا عقیدہ ہے جو خدا کے احکامات کی پیروی کو لازم کرتا ہے۔ گویا اس وقت الحاد کا مطلب خدا کا نہیں بلکہ آخرت کا انکار ہے۔ یہاں میں یہ بھی نوٹ کرانا چاہوں گا کہ قرآن کا جتنا زور توحید پر ہے اتنا ہی آخرت پرہے۔ توحید آخرت کے بغیر کچھ نہیں۔

    مجھے امید ہے کہ قارئین پر یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ مغرب کا موجودہ عالمی غلبہ کسی خاص قوم یا محض ایک تہذیب کا غلبہ نہیں ۔ یہ ایک عظیم فکر کا غلبہ ہے۔ یہ ٹوٹے گا تو ایسی ہی کسی عظیم کوشش کے نتیجے میں ٹوٹے گا جیسی حضورصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے کی تھی۔ لیکن پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم اس کی نوعیت کو درست طور پر سمجھیں ۔ اسکے بعد ہی ہم صحیح سمت میں قدم اٹھاسکیں گے۔

اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ
غلامی کا آغاز کیسے ہوا؟ دنیا کے قدیم معاشروں میں غلامی کیسے پائی جاتی تھی؟ اسلام نے غلامی سے متعلق کیا اصلاحات کیں اور ان کے کیا اثرات دنیا پر مرتب ہوئے؟ موجودہ دور میں غلامی کا خاتمہ کیسے ہوا۔  

مغربی تہذیب کی بنیادی فکر اور اسکی نوعیت کو سمجھ لینے کے بعد دوسری بات یہ جان لینی چاہیے کہ انہوں نے جو نظامِ زندگی تشکیل دیا ہے اسکی بنیادیں کیا ہیں ۔ یہاں خیال رہے کہ دورِ شرک میں اصلاً اقتدار خدا کے نام پر حکومت کرنے والے بادشاہوں اور انکے اقتدار کو سندِ جواز بخشنے والے مذہبی طبقے کا ہوتا تھا۔ چنانچہ پورا نظامِ زندگی انہی کے مفادات کے گرد گھومتا تھا۔ باقی لوگ ان کے جبر کی چکی تلے پرمشقت زندگی گزارتے تھے۔ انکے کوئی حقوق نہ تھے، صرف فرائض ہی فرائض تھے۔ انہیں صرف اتنے اسبابِ زندگی فراہم کیے جاتے کہ وہ ان دو طبقات کی عیاشیوں کے لیے وسائل وسامان فراہم کرتے رہیں ۔

    جب دورِ توحید آیا تو انسانیت کو اس بدترین ظلم سے نجات مل گئی۔ اب نظامِ زندگی اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی روشنی میں تشکیل پایا۔ خدا کی شریعت میں سب انسان برابرتھے۔ چنانچہ ملوکیت اور غلامی جیسی لعنتوں کا خاتمہ کیا گیا۔ کمزور طبقات مثلاً عورتوں اور یتیموں کے حقوق کا خصوصی تحفظ کیا گیا۔ فرد کی آزادی اور معاشرے کے اجتماعی مفاد میں حسین توازن قائم کیا گیا۔ معاشی استحصال کی تمام صورتوں کا خاتمہ کردیا گیا۔ مختصر یہ کہ خدا کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت نے انسانی زندگی کی صورت گری بہترین طریقے سے کی۔ جس میں اسکے مادی اور روحانی وجود دونوں کی نشوونما کا پورا خیال رکھاگیا تھا۔

    دورِ الحاد میں نظامِ زندگی ان مفکرین کے خیالات و آرا کی روشنی میں تشکیل پایا جو انسان کے روحانی وجود کے منکر تھے۔ جو صرف اس دنیا کی زندگی کے قائل تھے اور اسی کو جنت بنانا ان کے پیشِ نظر تھا۔ اسکا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بعض جگہ انہوں نے ٹھوکر کھائی۔ البتہ بعض جگہ انہوں نے ان مقاصد کو بہترین درجے میں پورا کیا جو خود اسلام کا مقصود تھا۔ مثلاً انسانی مساوات اور غلامی کا خاتمہ وغیرہ۔ یہاں میں زندگی کے چند نمایاں شعبوں کو لیکر ان کے بارے میں مغربی تہذیب کا نقطۂ نظر مختصراًبیان کر رہا ہوں۔

    مغرب کے سیاسی نظام کی اساس دو اصولوں پر ہے۔ یہ نظام جمہوریت سے وجود میں آتا ہے اور سیکولر ازم کی بنیاد پر چلتا ہے۔ سیکولرازم کا مطلب مذہب دشمنی نہیں بلکہ یہ ہے کہ مذہب اجتماعی زندگی کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں لے گا۔ اسکی معاشرتی زندگی کی بنیاد فرد کی آزادی اور اسکے حقوق کا تحفظ ہے۔ اس اصول کی روشنی میں حکومت اور معاشرے کا فرض ہے کہ وہ ہر شخص کی آزادی اور اسکے لیے ان تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے جن سے وہ اپنی پسند کی زندگی گزارسکے۔

    اس کی دوسری شق مساوات ہے۔ یعنی معاشرے میں بلا تفریقِ رنگ، نسل، زبان، مذہب اورجنس تمام لوگوں کو برابر کے حقوق دیے جائیں ۔ اسکے معاشی نظام کی اساس سرمایہ داری ہے جو آزاد منڈی کے اصول پر قائم ہے۔ تاہم سرمایہ کی فراہمی کا ذریعہ بینک کے سودی قرضہ جات ہیں ۔ یہی اس کے معاشی نظام کا تباہ کن پہلو ہے۔

حق کے غلبے کی نوعیت

میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ باطل کے عروج کے بعد حق کے غلبے کا وقت قریب ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس غلبے کی نوعیت کیا ہوگی۔ حالات پر سرسری نگاہ ڈالیں تو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اور ہم دو مختلف دنیاؤں کے لوگ ہیں۔ دونوں کے اصولِ زندگی اس قدر مختلف ہیں کہ ایک کی دوسرے پر غلبے کی کسی بھی کوشش کے نتیجے میں ایک زوردار تصادم ناگزیر ہے۔ لہٰذاجب تک ہم صحابہ کرام کی طرح، جنہوں نے قیصر و کسریٰ کے تخت الٹ دیے تھے، اہل مغرب اور ان کی تہذیب کو میدانِ جنگ میں شکست نہ دے دیں اور ان کے نظام کو ملیا میٹ نہ کر دیں حق کے غلبے کا کوئی امکان نہیں ۔ لیکن انہیں ٹیکنالوجی میں ہم پر فیصلہ کن برتری حاصل ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ حق کا غلبہ ان حالات میں نا ممکن ہے۔

    تاہم میرے نزدیک یہ مفروضہ درست نہیں۔ حق و باطل کی جنگ اصلاً ایک فکری جنگ ہے۔ لیکن سابقہ ادوار میں ایسے حالات تھے کہ یہ فکری جنگ جلد ہی عملی جنگ میں بدل جاتی تھی۔ موجودہ دور کی الحادی فکر اپنے عملی انطباق میں شرک سے مختلف ہے۔ شرک کے زیرِ اثر جو نظام پروان چڑھا تھا اس میں جبر کا عنصر آخری حد تک غالب تھا۔

    شرک کے خلاف آواز اٹھانے کا مطلب نظام کے خلاف بغاوت تھی جسکی سزا موت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں اقتدار ایک مذہبی فکر یعنی شرک کی بنیاد پر قائم ہوتا تھا۔ اس فکر کے خلاف کچھ کہنا اقتدار سے ٹکر لینے کے مترادف تھا۔ چنانچہ حق کے غلبے کی ہر کوشش ایک عملی ٹکراؤ کو جنم دیتی تھی۔ جبکہ موجودہ دور میں ہم الحاد کے خلاف ایک بھر پور فکری جنگ لڑ لیں تب بھی اہل اقتدار کو براہِ راست اس سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ کیونکہ اقتدار اسکا محافظ نہیں ۔

    دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کو دورِ الحاد میں تشکیل پانے والے نظام سے ٹکرا کر اسے ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض ہے کہ جب اہل مغرب نے اپنا نظامِ زندگی بنایا تو اسلام کی عطا کی ہوئی متعدد اقدار انہیں اپنانی پڑیں ۔

    ان کا جو نظام میں نے اوپر بیان کیا ہے آپ اسے غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ اسکی بیشتر شقیں خلافِ اسلام نہیں ۔ میں صرف ایک مثال کو لیکر بات کی وضاحت کررہا ہوں ۔ انکے سیاسی نظام کو دیکھ لیں ۔ جمہوریت عین اسلامی عمل ہے۔ صرف یہ شرط لگادی جائے کہ جمہوری حکومت سیکولر نہیں ہوگی۔ یعنی نظام حکومت شریعت کے اصولوں کی روشنی میں چلایا جائے گا۔ اسکے بعد اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو قیاس کرلیجیے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہمارا نصب العین واضح رہنا چاہیے۔ ہمارا اصل کام توحید کی فکر کا غلبہ ہے۔ یہ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے بغیر ٹکراؤ کے ہوسکتا ہے تو بلا وجہ جان لینے اور دینے کی کیا ضرورت ہے۔

خدا کی مدد

جیسا کہ اوپر عرض کیا تھا کہ دورِ شرک میں خدا نے رسولوں اور نبیوں کے ذریعے حق کی کھل کر مدد کی تھی۔ دور الحاد میں بھی خدا کی مدد پورے طور پر آئی ہے۔ البتہ ختمِ نبوت کے بعد کوئی نبی یا رسول آ سکتا تھا نہ اس کی ضرورت تھی۔ لیکن اس سے ہٹ کر خدا نے غیب میں رہتے ہوئے اس طرح حق کی مدد کی ہے کہ اگر دل کی آنکھیں اندھی نہ ہوں تو صاف نظر آتا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے خود اللہ کی ذات ہے۔

    اس عمل میں سب سے پہلے خدا نے الحاد کے قدموں سے سائنس کی زمین کھینچ لی۔ انیسویں صدی کے سائنسی علم کی روشنی میں خدا کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہورہے تھے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے سائنسی علم نے ایسی کروٹ لی کہ نہ صرف وہ سوالات بے وقعت ثابت ہوئے بلکہ فیصلہ کن طور پر یہ بات طے ہوگئی کہ خدا کی ہستی سائنس کے دائرہ کار سے بہت بلند ہے۔ سائنس سے اگر خدا کو ثابت نہیں کیا جاسکتا تو انکار بھی ممکن نہیں ۔

    دوسرے یہ کہ پورا عالم اسلام پچھلی صدی کے آغاز تک الحادی طاقتوں کا غلام تھا۔ اگر یہ غلامی ایک صدی تک بھی جاری رہتی تو توحید کی فکر پر مسلمانوں کا اعتماد ختم ہوجاتا اور پھر اس کے لیے اٹھنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ (جو لوگ میری اس بات کے وزن کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ ہماری اشرافیہ کی ذہنی حالت کو دیکھ لیں۔) خدا نے مسلمانوں کو اس غلامی سے بچانے کے لیے ایسے اسباب پیدا کیے کہ اہل یورپ آپس میں ٹکراگئے۔ اس کے بعد وہ اس قابل ہی نہ رہے کہ مسلمان ملکوں پر قبضہ باقی رکھ سکیں ۔ چند سالوں میں پورا عالمِ اسلام آزاد ہوچکا تھا۔

    تیسری بات یہ کہ مادیت کے اس دور میں صرف قومی آزادی کافی نہیں بلکہ پیسہ فیصلہ کن طاقت بن چکا ہے۔ نیز دعوتِ دین کے لیے بھی مالی استحکام چاہیے۔ چنانچہ خدا نے عربوں کے قدموں سے تیل کی وہ دولت نکال دی جس کے نتیجے میں پورے عالمِ اسلام میں بالعموم ایک خوشحالی کی فضا پیدا ہوگئی۔

    خدا کی چوتھی مدد اس طرح ظاہر ہوئی کہ خدا نے الحاد کی اس قوت کو جو شرک کی طرح جبر کی شکل میں مسلط ہوچکی تھی صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔ میری مراد سوویت یونین اور کمیونزم کے خاتمے سے ہے۔

    یہ مسلمانوں کی بدقسمتی تھی کہ ان میں وہ قائدین پیدا نہ ہوسکے جو مندرجہ بالا امکانات کو محسوس کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے۔ ان کا زور ابتدا میں اپنی مغرب زدہ اشرافیہ سے ٹکراؤ پر تھا اور اب وہ براہِ راست مغرب سے ٹکراؤ چاہتے ہیں ۔ اول تو اس ٹکراؤ میں ان کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ۔ اور کامیاب ہو بھی گئے تو ایک برباد زمین ان کے حصے میں آئے گی۔ جس میں الحاد اور شرک کے ماننے والے اگر نہیں ہونگے تو توحید کے پیرو کار بھی باقی نہیں بچیں گے۔

    ٹکراؤ کے اس عمل میں انہوں نے ماضی کے ان سار ے امکانات کوضائع کردیا جو خدا نے پیدا کیے تھے۔ بہرحال اب خدا نے ایک بہت ہی فیصلہ کن امکان پیدا کردیا ہے۔ وہ یہ کہ اس نے انفارمیشن ایج کا آغاز کردیا ہے۔ اب جنگ براہِ راست افکارو نظریات کی ہوگی۔

    اس جنگ کے لیے پوری امت کی بیداری کے انتظار میں بیٹھے رہنے کی ضرورت بھی نہیں ۔ گنتی کے چند اعلیٰ دماغ محدود وسائل کی مدد سے بھی وہ جنگ لڑ سکتے ہیں جو ہر دور میں خدا کے پیغمبر لڑتے آئے ہیں۔ یعنی توحید اور آخرت کے فکری غلبے کی جنگ۔

    میرے نزدیک یہ بات طے ہے کہ قیامت سے پہلے باطل کو شکست دیکر توحید ایک دفعہ پھر وقت کی غالب فکر بن جائے گی۔ اس کے بعد جوہو سو ہو۔ میری اس امید کی وجہ صرف یہی نہیں کہ انفارمیشن ایج کی شکل کے آغاز کے بعد ہمارے ہاتھ ویسا ہی ہتھیار آ چکا ہے جو ہمارے دشمنو ں کے پاس ہے، اور یوں وسائل کے اعتبار سے ہم برابر ہوگئے ہیں ۔

    اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی پیدا ہو رہے ہیں جنہیں اسے استعمال کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مغرب میں ایک طرف اسلام نومسلموں کی طاقت کے ساتھ جنم لے رہا ہے اور دوسری طرف مشرقی ممالک سے جانے والے مسلمانوں کا سیلاب دعوتِ اسلامی کے نئے امکانات پیدا کر رہا ہے۔ مشرق میں دوسو سال کے تجربات کے بعد اسلامی فکر بالکل متعین اور واضح ہو کر سامنے آچکی ہے۔ اسلام دورِ جدید کے اعتبار سے اپنے حسنِ تناسب کو حاصل کر چکا ہے۔ جس کے بعد اسلام کی نظریاتی طاقت پوری قوت کے ساتھ حملے کے لیے تیار ہے۔ اب بمشکل ایک یا دو نسلوں کی بات ہے۔ توحید پھر دنیا پر غالب ہوجائے گی۔ اقبال نے جو خواب پچھلی صدی کے آغاز پر دیکھا تھا اسکی تعبیر کا وقت اب آگیا ہے۔

آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی

اس قدر ہوگی ترنم آفریں بادِ بہار

نکہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہوجائے گی

آ ملیں گے سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک

بزمِ گل کی ہم نفس بادِ صبا ہو جا ئے گی

شبنم افشانی مری پیدا کریگی سوز و ساز

اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی

دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآ ل

موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جا ئے گی

پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشناں ہوجائے گی

نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور

خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہوجائے گی

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پے آسکتا نہیں

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی

شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے

یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مغرب کی موجودہ تہذیب کی فکری بنیادی کیا ہیں اور ان میں کیا غلطی پائی جاتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔ جدید سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں اہل توحید کے لئے اللہ تعالی کی کیا مدد سامنے آ رہی ہے؟

اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

مغربی معاشرت کی فکری بنیادیں اور ہمارا کردار
Scroll to top