گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟

چند سال کا بچہ جب ذرا سمجھ دار ہو جاتا ہے تو وہ ایک چھوٹا سا سائنس دان ہوتا ہے۔ گھٹنوں کے بل چلنے کی عمر سے لے کر تین چار سال تک وہ ہر نئی شے تک پہنچنے اور پرکھنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق بہت کچھ خود ہی سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔ یہ وہ ذہنی استعداد ہے جو رحم مادر سے لے کر باہر کا ماحول اسے فراہم کرتا ہے۔ اس کا لاشعور جو تربیت پا چکا ہوتا ہے وہ شعوری طور پر اس کا اظہار کرنا چاہتا ہے، تاکہ اگلے مرحلے میں وہ مزید اپنے ذہن کی نشوونما کر سکے۔

جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

بچے کی روحانی غذا شروع دن سے اسی طرح بڑھانی چاہیے، جیسے کہ جسمانی غذا بتدریج بڑھائی جاتی ہے۔ اگر جسمانی غذا شروع دن سے ناقص ہو گی، کم ہوگی، بروقت نہ ملے گی تو بچہ جسمانی طور پر کمزور ہوگا۔ مختلف بیماریوں کا شکار ہو جائے گا اور وہ معذور بھی ہو سکتا ہے، اگرچہ وہ صحت مند پیدا ہوا ہو۔

    بالکل اسی طرح شروع دن سے روحانی غذا بروقت نہ ملے گی، نامکمل اور ناقص ہوگی تو بچہ روحانی طور پر کمزور، بیمار اور شاید معذور ہوگا۔ جس طرح حاملہ عورت کو کچھ بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگانا ضروری سمجھا جاتا ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں سے بچنے کے لئے بھی پیدائش سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے ہوں گے اور پیدائش کے بعد بھی ان کا علاج کرنا ہوگا۔ اور وہ نیت کی درستگی، فرائض کی ادائیگی میں پابندی، قلب و نگاہ کو شعور مسلمان بنانے کے علاوہ اور کیا ہے؟

    ہم اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں تو فکر مند رہتے ہیں کہ اس کا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے؟ اسے بھوک کیوں نہیں لگ رہی؟ اسے نیدن کیوں نہیں آتی؟ پھر ہم اپنی استطاعت کے مطابق اچھے اچھے ڈاکٹروں سے اس کا علاج معالجہ کراتے ہیں۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ہم اپنے اسی بچے کی اخروی زندگی اور خود اس زندگی میں روحانی اور تہذیبی ترقی کے لئے ویسے فکرمند نہیں ہوتے۔ اس میں پائی جانے والی کمی کے لئے کسی اچھے دانش مند اور نیک سیرت انسان سے رجوع کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جس طرح اپنے بچے کی جسمانی صحت کے بارے میں لاپرواہی برا فعل ہے، اسی طرح بچے کی روحانی زندگی سے لاتعلقی بھی نہایت غلط اقدام ہے۔

دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار
یہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

جسمانی غذا اور روحانی غذا کے ساتھ ساتھ جسمانی و روحانی لباس کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ جسمانی لباس بچے کو عمر، موسم اور حالات کے لحاظ سے پہنایا جاتا ہے۔ چند دن کے بچے کو چند سال کے بچے کی خوراک اور چند سال کے بچے کو ایک جوان بچے کی خوراک دینا مناسب نہیں۔ جس طرح چند دن کے بچے کا لباس چند سال کے بچے کو اور کسی جوان کو چند سال کے بچے کا لباس زیب نہیں دیتا اور نہ عقل اس کو قبول کرتی ہے، اسی طرح روحانی لباس یعنی تقوی کا لباس بھی عمر، موسم، حالات اور ذہنی استعداد کے مطابق ساتھ ساتھ تیار کرتے رہنا ضروری ہے، بلکہ تقوی کا لباس و خوراک اس سے بھی زیادہ حکمت عملی اور احتیاط کا متقاضی ہے۔

    بچہ بہت جلد اپنے والدین کی خوشی و ناراضی کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں بھی بچے کو سمجھانے کی خاطر اسے باپ کی ناراضی کا احساس دلاتی ہے، یا اس کے خوش ہونے کی وجہ بتاتی ہے کہ کس کام سے ابو ناراض اور کس سے خوش ہوں گے۔ اسی طرح شروع ہی سے بچے کے دل اور دماغ میں اللہ تعالی کی محبت اور خوشی کا احساس دلانا چاہیے، کہ اللہ تعالی کس قدر مہربان ہے اور ہر چیز وہی عطا کرنے والا ہے۔

    بچے کو احساس دلایا جائے کہ وہ محبت کرنے والی ہستی باری تعالی ناراض ہو جائے تو پھر سب ناراض ہو سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی ہی سب کے دلوں میں یہ خیال ڈالتا ہے کہ بچے سے محبت کی جائے، پیار کیا جائے، اس کو اچھی اچھی چیزیں لا کر دی جائیں۔ بچے کے دل میں یہ یقین بٹھا دیا جائے کہ اگر اللہ تعالی کوئی چیز دینا چاہے تو وہ مل سکتی ہے۔ اس لئے اللہ کو ہمیشہ راضی اور خوش رکھنے کے لئے ہر اچھا کام کرنے کا جذبہ بچے کے ذہن، قلب اور سانسوں تک میں اتار دیا جائے۔ اللہ تعالی کی محبت کو خوشبو کی طرح بچے کے دل میں بٹھا دیا جائے۔ اللہ تعالی کی ذات کا تعارف: مہربان، شفیق، پیار کرنے والا، ہر چیز سے آگاہ اور وحدہ لاشریک کے طور پر کرایا جائے۔

    بچے کی شخصیت کا خاکہ بن جانے کے لئے پہلے پانچ سال اہم ہیں۔ باقی عمر اس خاکے میں رنگ بھرتے رہنا ہے۔ کسی بھی عمارت میں بنیادوں کی جو اہمیت ہوتی ہے، عمر کے ابتدائی پانچ سال کی حیثیت بھی ویسی ہی ہے۔ سفید اور کورے کپڑے پر جو رنگ چڑھ جائے وہ ساری عمر باقی کے رنگوں میں اپنی جھلک دکھاتا رہے گا۔ خارجی ماحول اور عارضی حالات بچے کو کسی وقت بدل بھی دیں، اس تبدیلی میں یہ ابتدائی عمر کے احساسات ضرور اپنا حصہ محفوظ رکھیں گے۔ یہ عمر انسان کے عیوب و محاسن کی نشان دہی کر دیتی ہے۔ اس کے بعد تعلیم و تربیت، ماحول اور حالات یا تو عیوب کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں یا محاسن کو، اور اسی کے مطابق دماغی نشوونما ہوتی چلی جاتی ہے۔

    مسلمان ماؤں کے لئے بچے ہی ان کے امتحانی پرچے ہیں۔ جس کے جتنے بچے ہیں اس کے اتنے ہی پرچے ہیں اور انہی پرچوں کے نتیجے پر ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کا دارومدار ہے۔ ان پرچوں کا نتیجہ بھی خود اللہ تعالی نے تیار کرنا ہے۔ کامیاب ہونے پر انعام سے نوازنا ہے اور انعام بھی کیا ہے؟ جنت جیسی عظیم نعمت اور اپنی رضا کی بشارت اور رب سے ملاقات کی نوید۔

    اسکول بھیجنے سے پہلے بچے میں اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا جذبہ ضرور پیدا کر دینا چاہیے۔ اسکول کا ماحول گھر کے اور مسلمان والدین کے ذہن سے مطابقت رکھتا ہو تو بہت خوش نصیبی ہے ۔۔۔ ورنہ والدین کو بہت سمجھ بوجھ اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ دین داری کو احساس کمتری کا نشان نہ بنایا جائے۔ دین اسلام کے بارے میں کسی معذرت خواہانہ طرز عمل سے اسے بچایا جائے۔ بچے کے دل میں یہ جرأت پیدا کی جائے کہ وہ پورے یقین کے ساتھ جانے اور اظہار کرے کہ اس کا لباس اسلامی ہے اور یہی سب سے بہتر ہے۔ اس کا طریقہ سب سے اچھا ہے۔ والدین کے خود اپنے ایمان میں پختگی ہوگی تو وہ اپنے بچے کو بھی یہ چیز بہتر طریقہ سے منتقل کر سکیں گے۔ بچے کو اتنا طاقتور ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ بدل دینے کا اور خود کو بہتر راستے پر گامزن رکھنے کا احساس زندہ رکھ سکے۔

    مسلمان ہونے پر احساس تشکر و مسرت پیدا کیا جائے۔ دوسرے مسلمان بچوں کو اپنے اوپر استہزاء کا موقع نہ دیا جائے۔ بچے کو یہ یقین دلایا جائے کہ جو آپ کا لباس ہے، جو آپ کا طریقہ ہے وہی اللہ تعالی نے بتایا ہے۔ اللہ تعالی سب سے اچھے ہیں تو ان کا بتایا ہوا طریقہ بھی سب سے اچھا ہے۔

    بچے کے دل میں شیطان سے نفرت بٹھائی جائے۔ ساری گندی باتوں کا سکھانے والا شیطان ہے۔ وہ ہی اصل دشمن ہے۔ غصہ، نفرت، عداوت کے تمام احساسات اسی دشمن اور اس کا کہنا ماننے والوں کے خلاف ہوں۔

    والدین کا اپنا طرز عمل بچوں کے لئے سب سے بڑا استاد ہے۔ بچے خاموشی سے اس طرز عمل کو دیکھتے اور اسی پر عمل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کو دوستوں کے ساتھ گفتگو کرتے، یا آپس میں کھیلتے اور پلاننگ پر غور کرتے ہوئے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین، رشتہ داروں اور استادوں سے حقیقت میں کیا سیکھ رہے ہیں اور کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا کی حیثیت بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

 (مصنفہ: بشری تسنیم، بشکریہ www.quranurdu.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

مصنفہ نے گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت سے متعلق جو نکات پیش کیے ہیں، انہیں ترتیب وار بیان کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

گفتگو کرنے والے بچے کی تربیت کیسے کی جائے؟
Scroll to top