Comments on “Islamic Studies Program”

السلام و علیکم

مبشر بھائی آپ اپنی لانگ ٹرم پلاننگ میں ایک ویب سائٹ رکھیں جو اردو زبان میں ڈسٹنس لیرننگ میتھڈ سے اسلامی کورسس کروائے ؟

عام دنیاوی تعلیم کیلئے تو کئی انگلش اور اردو ویب سایٹس ہیں – مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا فی الحال دستیاب حل صرف مدارس میں داخلہ لے کر پڑھنا ہے؛ جس سے ایک کم عمر طالب علم تو یقینا فائدہ اٹھا سکتا ہے؛ مگر ہم جیسے لوگ جو اسکول کالج کے پڑھے ہوئے ہیں ان کیلئے اس طریقے سے مذہبی تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں ہے – خود سے محنت کر کے اگر فارغ وقت میں کچھ پڑہیں تو یہ پڑھائی کسی ایسے کورس کا متبادل نہیں ہوسکتی جو باقائدہ اس مقصد کیلئے پلان کیا گیا ہو۔

اگر آپ ان خیالات کو اپنے قلم سے آگے بھی پھیلاتے رہیں اور مختلف علماء کرام کا سر کھاتے رہیں۔ جیسا کہ میں آپ کا سر کھاتا رہتا ہوں تو شاید پانچ دس سال میں کوئی ایسا منصوبہ شروع ہو جائے۔

جو چیز میری ناقص عقل میں نہیں سماتی وہ یہ بات ہے کہ اگر ایک کلاس کی ریکارڈنگ کر کے نیٹ پر اپلوڈ کردی جائے اور طالب علم کو استاد کا ایمیل ایڈریس دے دیا جائے کہ بیٹا جو بات عقل شریف میں نہ آئے وہ ایمیل پر پوچھ لینا – تو پھر اس طالب علم میں جو کلاس میں پڑھتا ہے اور اس طالب علم میں جو اس کی ویڈیو نیٹ پر دیکھ کر پڑھتا ہے کیا فرق ہے ؟ سوائے اس کے کے کلاس میں جو طالب علم آخری سیٹوں پربیٹتے ہیں انہیں نہ تو آواز صحیح آتی ہے اور اکثر بورڈ بھی ٹھیک نظر نہیں آتا جبکہ اگر ریکارڈنگ پروفیشنل طریقے سے کی جائے تو اس میں یہ مسائل نہ ہوں گے اور مستقل طالب علم بھی اس سے دوبارہ ریفر کر سکتے ہیں – مزید یہ کہ عموما لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی طرح کے سوالات اٹھتے ہیں؛ اگر استاد کو جو سوالات موصول ہوں انہیں ان کے جوابات کے ساتھ آن لائن کر دیا جائے تو مستقبل کے طالب علموں کو استاد سے رابطہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی؛ الا ماشااللہ – پھر استاد ویب کیم کے ذریعے آخری پیپر لے لے – آخر ہمارے علماء ٹیکنولوجی سے بھاگتے کیوں ہیں – پہلے لاوڈ سپکر پکڑتے نہیں تھے اور اب چھوڑتے نہیں ہیں۔

یہ ایک بہت فیزیبل پراجیکٹ ہے جس سے ثواب کمانے کے ساتھ پیسا بھی بنایا جاسکتا ہے؛ اگر یہ پراجیکٹ کسی چینی کی نظر میں آجائے تو عین ممکنات میں سے ہے کہ وہ کمرشل مفادات کیلئے ایسی ویب سائٹ بنا دے – اور ہم ٹوپی اور جائے نماز کے ساتھ ساتھ قرآن اور حدیث بھی چینیوں سے پڑھنے لگیں – کہ یہ دنیا کچھ لگے بندھے اصول و قوانین پر چل رہی ہے جس میں جو محنت کرنا ہے وہ پھل کھاتا ہے۔

دیکھیں یہ ویب سائٹ

http://www.arabicpod101.com/

و السلام

ذیشان ضیا، مسقط، عمان

جون 2010

ڈئیر ذیشان بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کا آئیڈیا  بہت شاندار ہے۔ یہی خیال میرے ذہن میں اب سے سولہ برس پہلے آیا تھا جب میں درس نظامی کا مطالعہ کر رہا تھا۔ آپ کی بات بالکل درست ہے کہ اچھی کوالٹی میں ریکارڈنگ اور اچھے کورس مٹیریل کے بعد استاذ کی ضرورت صرف یہی رہ جاتی ہے کہ کوئی سوال پیدا ہو تو وہ ان سے پوچھ لیا جائے۔

اب میں نے اسی پراجیکٹ کو زندگی کا مقصد بنا لیا ہے اور بقیہ زندگی اسی میں صرف کرنے کا ارادہ ہے۔ اس پراجیکٹ کی تفصیل اس لنک پر ہے۔ شاید آپ نے تعارف کو ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ لیا ہو گا۔

اس پراجیکٹ کو میں نے ان فیزز میں تقسیم کیا ہے۔

کورس میٹیریل کی تیاری۔ ٹارگٹ 2014 انشاء اللہ۔ اب تک عربی زبان کے کورسز آن لائن ہو چکے ہیں۔ جلد ہی علوم القرآن پر کام شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے بعد دیگر علوم پر کام ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔ کلاس روم لیکچرز کی تیاری۔ 2014-2018 انشاء اللہ۔

۔۔۔۔۔۔ ایڈمنسٹریشن اور کسی یونیورسٹی سے ایفی لی ایشن وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔ مسلسل تدریس ۔ بقیہ زندگی

ابھی میں فیز 1 پر ہوں اور دن رات اسی پراجیکٹ پر کام کر رہا ہوں۔ آپ کی دعاؤں کی درخواست ہے۔ اس پروگرام کی تفصیل دیکھنے کے بعد اگر آپ کے ذہن میں کوئی آئیڈیا آئے تو بلا تکلف شیئر کیجیے۔ مجھے آپ کے آئیڈیاز کی قدر ہے۔ اس میں سر کھانے والی کوئی بات نہیں بلکہ مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اس معاملے میں میں اپنے اساتذہ اور دیگر اہل علم دوستوں سے بھی بھرپور مدد لے رہا ہوں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

جون 2010

اسلام علیکم

اول تو میں بہت ہی معزرت خواہ ہوں اس تاخیر پر۔ دراصل مکمل انہماک، فرصت اور توجہ کے بغیر کوئی تبصرہ کرنا مجھ ناچیز کے لیے ممکن نہ تھا۔ بحمد الله اس ترتیب کو کافی مفید محسوس کرتا ہوں۔ بالخصوص عربی سیکھنے والا سلسلہ تو پی ٹی سی کے تمام ارکان کے لیے ناگزیر  ہونا چاہیے. اور میں بذات خود اس سے استفادہ کرنے کا جلد از جلد ارادہ رکھتا ہوں۔

مگر یہ بتائیے  کہ

   ۔۔۔۔۔۔۔ اس تمام کام میں کتنے علما شریک ہیں؟ اور اہل علم میں ان کا کیا مقام ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔ اس نصاب کی راج ٤ فقہوں سے کیا مناسبت ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔ مسائل کے استنباط کے لیے فقہ کو ترجیح دی جاتی ہے یا اپنی رائے کو؟

۔۔۔۔۔۔۔ اس کام کو چلانے کے لیے کیا کیا وسائل مستعمل ہیں اور ہوں گے ؟ اور ان کا ماخذ کیا ہے؟

 ۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ تصوف کی اپنی  حقیقت، غرض وغایت کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔ جو اسلامی معاشیات اس نصاب کے تحت پڑھائی جاۓ گی اس کی  بنیاد موجودہ مروجہ نظام پر ہو گی یا اس کے برعکس ہو گی؟

احمد محمد

خانیوال، پاکستان

ڈئیر احمد

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

آپ کے سوالات کا بہت بہت شکریہ۔ جوابات پیش خدمت ہیں۔

اس پروگرام کی خوبیوں اور خامیوں کا میں ہی ذمہ دار ہوں۔ البتہ پروگرام میں بہتری لانے کے لئے میں نے کوشش کی ہے کہ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ اہل علم اس کی ہر کتاب کو تفصیلی ریویو کر لیں تاکہ جہاں کہیں کوئی غلطی ہو تو اس کی اصلاح کی جا سکے۔ اس معاملے میں جو اہل علم تعاون فرما رہے ہیں، ان کے نام یہ ہیں۔

محمد عزیر شمس صاحب: یہ میرے استاذ ہیں۔ ان کا تعلق انڈیا سے ہے اور مکہ میں مقیم ہیں۔ پاکستان میں تو شاید کم ہی لوگ انہیں جانتے ہوں گے مگر عالم عرب کے علمی حلقوں کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انہوں نے علامہ ناصر الدین البانی سے اکتساب علم کیا ہے۔ ام القری یونیورسٹی مکہ سے ایم فل کیا ہوا ہے۔ قدیم مخطوطات پر تحقیق ان کا میدان ہے۔

ان کا پروفائل آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔

http://www.al-qeblah.com/vb/showthread.php?t=1819

عامر گزدر صاحب: یہ میرے دوست ہیں۔ جامعہ بنوریہ سے فارغ التحصیل ہیں۔ تعلیم و تدریس اور تحقیقی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ المورد کراچی اور یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب لاہور میں لیکچر دیتے ہیں۔

بشیر احمد صاحب: یہ بھی میرے دوست ہیں اور ویب سائٹ کے ذریعے ہی ان سے تعارف ہوا۔ کتابوں کو ریویو کرنے میں میری بہت مدد کر رہے ہیں۔ حیدر آباد سندھ کے ایک مدرسے میں پڑھاتے ہیں۔ سندھی زبان میں ایک تفسیر بھی لکھ رہے ہیں۔

ریحان احمد یوسفی صاحب: یہ میرے گہرے دوست ہیں۔ اکثر ٹی وی کے مختلف پروگرامز میں بطور اینکر پرسن آتے ہیں۔ یہ بھی میری کتابوں کو ریویو کر کے ان کی اصلاح کرتے ہیں۔

رائج فقہ کے بارے میں جو اصول میں نے اس پروگرام میں اختیار کیا ہے، وہ تقابلی مطالعے کا ہے۔ طالب علم کو اس بات کی عادت ڈالنا پیش نظر ہے کہ وہ کسی مخصوص فقہ کی اندھی پیروی کرنے کی بجائے کسی بھی مسئلے میں تمام نقطہ ہائے نظر کا غیر جانبداری اور دیانت داری سے جائزہ لے اور جو نقطہ نظر بھی قرآن و سنت کے قریب تر ہو، اسے وہ اختیار کر لے۔ تمام مکاتب فکر کی تعلیم اس پروگرام میں شامل کرنے کا پروگرام ہے۔

مسائل کے استنباط کے لئے میری ترجیح اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ نہ تو کسی امام کی رائے اور نہ ہی اپنی رائے کو میں اس معاملے میں اہمیت دیتا ہوں۔ جس امام کی جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو، وہ سر آنکھوں پر۔

فوری طور پر دستیاب وسیلہ تو انٹرنیٹ ہی ہے۔ بعد میں اللہ تعالی جو وسائل دیتا گیا، اسی حساب سے کام بڑھتا چلا جائے گا انشاء اللہ۔

تصوف سے متعلق آپ کا سوال ایک پورے مقالے کا تقاضا کرتا ہے۔میں نے ترکی کے سفرنامے میں اس سے متعلق پورے ایک باب میں اپنا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا مطالعہ وہاں کر لیجیے۔ لنک یہ ہے۔

اس نصاب میں طریق کار یہ اختیار کرنے کا پروگرام ہے کہ جو جو نقطہ ہائے نظر کسی فیلڈ میں پائے جاتے ہوں، ان سب کا غیر جانبداری اور دیانت داری سے مطالعہ کیا جائے۔ اس وجہ سے یہ دونوں بنیادیں ہی زیر بحث آئیں گی۔ اس معاملے میں آپ کے ذہن میں کوئی مشورہ ہو تو بلا تکلف بھیجیے۔ اس وقت ذہن میں تین پہلوؤں سے اسلامی معاشیات کی تعلیم کا ارادہ ہے۔

ا ۔ اسلامی معاشیات کی تاریخ: اس میں قرون وسطی کے معاشی نظام کی مختصر تفصیلات پڑھائی جائیں گی۔ امام ابویوسف کی کتاب الخراج، ابوعبید کی کتاب الاموال، امام غزالی کی کچھ تحریریں، مقدمہ ابن خلدون اور دیگر اہل علم کی معاشیات پر جو تحریریں ہیں، ان کا خلاصہ داخل نصاب ہو گا۔

ب۔ جدید اسلامی معاشیات پر پچھلے ۷۰ برس میں جو کچھ سامنے آیا ہے، اس کی تفصیلات کا مطالعہ کیا جائے گا۔ ہمارے اہل علم اور ماہرین معاشیات کی اکثریت نے سرمایہ دارانہ نظام کے کنزیومر ازم کو قبول کرتے ہوئے اس میں اسلامی نقطہ نظر سے جو خرابیاں ہیں، ان کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے میں انہیں بہت سے اداروں اور حکومتوں کی سپورٹ حاصل رہی ہے اور یہی طبقہ اس وقت اسلامی معاشیات میں واحد مکتب فکر کی صورت میں موجود ہے۔ انہوں نے اسلامی معاشیات کی بنیاد پر بنک، انشورنس کمپنیاں اور بہت سے دیگر ادارے قائم کیے ہیں جس سے انہیں عملی تجربہ بھی حاصل ہوا ہے۔

ج۔ اسلامی معاشیات کا دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جسے آپ پروموٹ کر رہے ہیں اور میرا رجحان بھی اسی جانب ہے۔ یہ نقطہ نظر سرمایہ دارانہ نظام اور کنزیومر ازم کی تردید کرتا ہے۔ یہ نقطہ نظر ابھی اس ویب سائٹ میں ہے۔ اس معاملے میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ بہت سے سوالات زیر بحث آئیں گے اور پھر جو حل پیش کیا جائے گا، اس کا عملی تجربہ بھی درکار ہو گا۔ میرے ایک استاذ ڈاکٹر خالد ظہیر بھی بڑی حد تک اسی نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ انہوں نے بینک فری معیشت کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس موضوع پر ان کی تحریریں آپ ان لنکس پر دیکھ سکتے ہیں:

http://www.khalidzaheer.com/essays/kzaheer/economic%20issues/spending_and_utilisation_of_resources.html

http://www.khalidzaheer.com/essays/kzaheer/economic%20issues/can_bank_lending_be_islamically_fair.html

http://www.khalidzaheer.com/essays/kzaheer/economic%20issues/popular_models_of_interest_free_banking.html

آپ کے جواب اور تبصرے کا منتظر رہوں گا۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

جنوری 2010

Dear Mubashir,

Assalam-o-Allaikum,

It is surprising that I was writing this email when I got your current email. I am Sorry for a delayed reply as you know Ramadan has started and it makes you very busy. I wish you also a very happy Ramadan.

Also, I took time to reply because I was reading the syllabus you gave me in quite detail. It appears to be a great and wonderful project which will definitely bring marvelous results.

However, I have some questions so if you please inform me, I would be able to understand it better,

1. What is specifically the objective of this program and for whom it is targeted especially?

2. Will it only be taught via internet?

3. Will it be taught by your website or you will find some new website solely for this purpose?

4. Have you discussed this project with Mr. Rehan also?

5. Do you have any other people also, except yourself, who will contribute in this project?

I hope you will give me the reply of these questions so I can tell you about my position on this subject, also I am very much willing to participate in this project.

You have seen my C.V and I hope it ahs given you a better understanding of my educational standing to you. So I think it would be more suitable if you please tell me that for which component I fit the best? Please keep in mind that I don’t have any formal education in this regard, so any work of mine will be a result of my own research and intellect.

Looking forward for your kind response.

Brgds & thanks

Kamran Nisar

Karachi, Pakistan

August 2009

Dear Kamran

Wa alaikum us salam wa Rahmatullah

Ramadan Mubarak to you.

The answers to your questions are as follows:

1. Objective of this program is to provide religious education to modern-educated people. It primarily targets the modern-educated people who want to learn Islam in an academic way but are unable to join a Madrassa or University. The program will be designed in a way Insha Allah that it will help the full-time students of Madaris & Universities as well. Unfortunately, no course is available for such people that takes a student from the beginner to the advanced level.

Why I’ve made modern-educated people the target? The reason is that I’ve found that there is a strong demand in them to learn about Islam in an academic way. Secondly, our religious madaris are producing the workers for their sectarian activism. There are very few people in them who can work for Islamic Da’wah in a modern context. For them, their sectarian issues are more important. On the other hand, scholars produced by the universities are mainly focused on research, not on Da’wah. Although they are usually free from biases of Madaris. The universities do not offer anything for part-time students in the area of Islamic Studies.

2. Initially it will be taught by the internet. Later on, if we find some resources to establish institutes for it, we’ll do so.

3. The issue of using my website or developing a separate website is open. We can decide at a later stage based on circumstances. This is an administrative issue not an academic issue. I’m willing to adopt any.

4. I am looking for a team to work on this project. It is very difficult to find the capable and dedicated people for such a long and big project. At the moment, I’m working alone + technical support from Brother Rehan, Amir Gazdar and one of my teachers Uzair Shams.

I started this project in the Ramadan of last year (2008). In one year, the progress is:

•        1 complete course in both English & Urdu languages

•        4 complete courses in one language

•        3 partially-complete courses.

I hope these eight courses will complete in another six months. The total number of courses is 50.

Like you, I’m also not a formally educated person in this area. Although I’ve taken coaching from the teachers of Islamic Studies at different Madaris privately. Therefore, please feel free to participate in it.

I am doing all this only for the sake of Allah. The objective is to produce a generation of Modern Islamic Scholars to work for Allah in future. There is no political or financial objective behind it. I hope this project will produce good results for the Muslim Ummah in this world and excellent results for us in the career of the Hereafter.

I’ll wait for your further comments & answers of above questions.

wassalaam

Mubashir

August 2009

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com .

Comments on “Islamic Studies Program”
Scroll to top