حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات
دور قدیم میں جب جنگی قیدیوں کو غلام بنائے جانے کا بین الاقوامی قانون موجود تھا، کم و بیش تمام فقہاء نے غیر مسلم جنگی قیدیوں کو غلام بنا لینے کا جائز قرار دیا تھا۔ اگر دشمن مسلمان ہوں تو بھی سب فقہاء کے نزدیک انہیں غلام بنا لینا جائز نہ تھا۔ یہی معاملہ دیگر اقوام کا تھا۔ اگر وہ جنگ میں فتح یاب ہوتیں تو مسلمانوں اور ان کے بیوی بچوں کو لونڈی غلام بنا لیا کرتی تھیں۔
موجودہ دور میں ایک اہم تبدیلی یہ رونما ہوئی ہے کہ پوری دنیا کی اقوام نے مل کر برضا و رغبت جنیوا کنونشن کی صورت میں ایک معاہدہ کر لیا ہے جس کے تحت یہ طے پا گیا ہے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کے جنگی قیدیوں کو غلام نہیں بنائے گی۔ اس معاہدے کے تحت جہاں دوسری قومیں مسلمانوں کی غلام بننے سے محفوظ ہو چکی ہیں، وہاں مسلمان بھی دوسری قوموں کے غلام بننے سے محفوظ ہو سکے ہیں۔ اس معاہدے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر کی صورت میں ایک اور معاہدہ بھی دنیا کے تمام ممالک کے مابین طے پا چکا ہے جس کی رو سے ہر ملک اپنے ہاں غلامی کو ختم کرنے کا پابند ہے۔ اس طریقے سے موجودہ دور کے بین الاقوامی جنگی قانون میں تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔
اب یہ فقہی و قانونی سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں اگر مسلمانوں کی کسی سے جنگ ہو اور اس میں دشمن کے سپاہی جنگی قیدی بنیں تو کیا اسلام کی رو سے انہیں غلام بنایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس مسئلے میں مسلمانوں کے اہل علم کی غالب اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ موجودہ دور میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانا اسلام کی رو سے جائز نہیں ہے۔ ایک معمولی سی اقلیت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان جنگی قیدیوں کو غلام بنانا جائز ہے۔ ہم ان دونوں نقطہ نظر کے حاملین کے دلائل یہاں پیش کر رہے ہیں جن کی روشنی میں قارئین خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے۔
مجوزین کے دلائل
جو لوگ موجودہ دور کی جنگوں میں بھی جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کو جائز سمجھتے ہیں، ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور خلفاء راشدین کے دور کی بعض جنگوں میں قیدیوں کو غلام بنایا گیا تھا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام بنانا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عمل کو منسوخ کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور قیامت تک مسلمانوں کو یہ اختیار حاصل رہے گا کہ وہ دشمن کے جنگی قیدیوں کو غلام بنائیں۔
موجودہ دور کے جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کو حرام قرار دینے کے دلائل
فقہاء کی اکثریت موجودہ دور میں جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ ان کے دلائل کی بنیاد قرآن مجید کی وہ آیات ہیں جن میں عہد کی پابندی کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے۔ قرآن مجید نے وعدہ اور معاہدہ پورا کرنے کو بہت بڑی نیکی اور اسے توڑنے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولاً۔ (بني اسرائيل 17:34)
اپنے معاہدے کی پابندی کرو کیونکہ معاہدوں کے بارے میں تم سے سوال کیا جائے گا۔
نیک لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے۔
وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا۔ (البقرة 2:177)
(نیک لوگ وہ ہیں جو) نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ ادا کرتے ہیں اور جب وعدہ کریں تو اس کی پابندی کرتے ہیں۔
بَلَى مَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ وَاتَّقَى فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ۔ (آل عمران 3:76)
ہاں، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اللہ سے ڈرا تو اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
وعدہ توڑنے کو اللہ تعالی نے بہت بڑا جرم قرار دیا ہے۔
أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْداً نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لا يُؤْمِنُونَ ۔ (البقرة 2:100)
یہ لوگ جب بھی معاہدہ کرتے ہیں، ان میں سے ایک فریق اسے توڑ دیتا ہے۔ ان میں سے اکثر اہل ایمان ہی نہیں ہیں۔
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لا يُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لا يَتَّقُونَ ۔ (الانفال 8:55-56)
زمین پر چلنے والوں میں سے اللہ کے نزدیک وہ انکار کرنے والے ہیں جو ایمان نہیں لاتے۔ یہ لوگ جب معاہدہ کر لیتے ہیں تو اسے ہر بار توڑ دیتے ہیں اور اللہ سے نہیں ڈرتے۔
وعدہ پورا کرنا اور معاہدے کی پابندی کرنا، قرآن مجید کے مطابق صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ قرآن مجید نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں سے کئے گئے معاہدوں کی پابندی بھی کی جائے۔ یہاں تک کہ اگر کہیں غیر مسلم، مسلمانوں پر ظلم بھی کر رہے ہوں تو دنیا کے دوسرے مسلمانوں پر ان کی مدد اسی صورت میں کرنا لازم ہے جب ان کے اور اس غیر مسلم قوم کے مابین صلح کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجَرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّى يُهَاجِرُوا وَإِنْ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمْ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَى قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ۔ (الانفال 8:72)
وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں مگر انہوں نے ابھی ہجرت نہیں کی، ان کے ساتھ تمہارا ولاء (ایک دوسرے کی حفاظت) کا رشتہ نہیں ہے۔ ہاں اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو تمہارے لئے ان کی مدد کرنا ضروری ہے، مگر کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن کے اور تمہارے مابین معاہدہ ہو۔ (یاد رکھو) کہ جو تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
عرب کے وہ مشرکین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ابتدائی مخاطب تھے، انہیں اللہ تعالی کے عذاب کے قانون کے تحت آپ کا انکار کرنے کی پاداش میں موت کی سزا دے دی گئی تھی۔ ان میں سے بھی جن لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کے معاہدے تھے، ان کی پابندی کرنے کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا۔
إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدتُّمْ مِنْ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئاً وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَداً فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ۔ (التوبة 9:4)
سوائے اس کے کہ ان مشرکین میں سے کسی کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا ہو اور انہوں نے اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کی ہو اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی ہو تو اس معاہدے کو اس کی مدت تک پورا کرو۔ بے شک اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے متعدد مواقع پر معاہدے کو پورا کرنے اور جو غیر مسلم، مسلمانوں کے ساتھ معاہدے میں شریک ہیں، کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ ایسا نہ کرنے والوں کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا۔
حدثنا قيس بن حفص: حدثنا عبد الواحد: حدثنا الحسن: حدثنا مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (من قتل نفساً معاهداً لم يُرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين عاماً). (بخاري، كتاب الديات، حديث 6914)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جس کسی نے معاہدے میں شریک کسی فرد کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو نہ پا سکے گا اگرچہ اس کی خوشبو (اتنی ہے) کہ چالیس سال سفر کے فاصلے سے بھی آ جاتی ہے۔
حدثنا زهير بن حرب. حدثنا عبدالصمد بن عبدالوارث. حدثنا المستمر بن الريان. حدثنا أبو نضرة عن أبي سعيد. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (لكل غادر لواء يوم القيامة يرفع له بقدر غدره. ألا ولا غادر أعظم غدرا من أمير عامة). (مسلم، كتاب الجهاد، حديث 4538)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر عہد شکن کے لئے، قیامت کے دن ایک جھنڈا بلند کر دیا جائے گا جس کی بلندی اس کی عہد شکنی کے مطابق ہو گی۔ کوئی عہد شکن اس سے بڑھ کر نہیں ہے جو لوگوں کا حکمران ہوتے ہوئے عہد شکنی کرے۔
ان آیات و احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کے تمام قدیم و جدید فقہاء کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ جس غیر مسلم قوم یا فرد کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہو جائے، اس کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت مسلم حکومت کا فرض بن جاتی ہے۔ اس معاہدے کو توڑنا کسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جائز نہیں رہتا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں نے اپنی مرضی سے دنیا بھر کی تمام غیر مسلم اقوام سے یہ معاہدہ کر لیا ہے کہ ان میں سے کوئی کسی کو غلام نہیں بنائے گا تو اب اسلام کی رو سے کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ جنگ میں کسی غیر مسلم کو بھی غلام بنائے۔
مجوزین کے بعض شبہات اور ان کا جواب
غلامی کو جائز قرار دینے والے بعض انتہا پسند حضرات یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے تحت یہ معاہدے مسلمانوں کے حکمرانوں نے کیے ہیں۔ یہ حکمران دین سے بہت دور ہیں اور اللہ کی شریعت کو اپنے ملکوں میں نافذ نہیں کرتے، اس وجہ سے ان کے کئے گئے معاہدوں کی پابندی ہم پر لازم نہیں ہے۔ یہ نقطہ نظر بیان کرنے کے بعد یہ حضرات اپنی اپنی حکومتوں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی پرائیویٹ تنظیمیں بناتے ہیں اور اعلان جنگ کر دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ان انتہا پسند حضرات کی اکثریت بھی غلامی کے دوبارہ احیاء کی قائل نہیں ہے۔
دین اسلام میں ظلم و عدوان اور بغاوت کے خلاف جہاد کرنے کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت پر عائد کی گئی ہے۔ اسلام پرائیویٹ تنظیموں کو جہاد کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔ چونکہ اس کتاب کا موضوع جہاد نہیں بلکہ غلامی ہے، اس وجہ سے ہم یہاں اس موضوع سے صرف نظر کرتے ہیں۔ یہاں ہم اپنی بحث کو صرف غلامی تک محدود رکھتے ہوئے اپنی معروضات پیش کرتے ہیں۔
اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے طرز عمل کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے کئے گئے معاہدوں کے بارے میں یہ طرز عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے تو اس بات کا حکم دیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا ایک عام فرد بھی دشمن کے کسی سپاہی کو پناہ دے دے تو اس کی پابندی سب مسلمانوں کے لئے لازم ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی نوجوانی کے دور میں قریش مکہ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کا نام حلف الفضول ہے۔ اس کے بارے میں آپ نے ارشاد فرمایا۔
روى الحافظ البيهقي بسنده عن جبير بن مطعم قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: شهدت مع عمومتي حلف المطيبين فما أحب أن أنكثه - أو كلمة نحوها - وأن لي حمر النعم. ثم روى البيهقي عن عمر بن أبي سلمة عن أبيه عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما شهدت حلفا لقريش إلا حلف المطيبين وما أحب أن لي حمر النعم وأني كنت نقضته. قال : و المطيبون: هاشم وأمية وزهرة ومخزوم (محمد ناصر الدين الباني؛ صحيح السيرة النبوية)
حافظ بیہقی اپنی سند سے سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میں مطیبین کے معاہدے میں عام لوگوں کے ساتھ شریک تھا۔ اس معاہدے کو میں کبھی توڑنا پسند نہیں کروں گا (یا غالباً اسی طرح کا کوئی اور لفظ ارشاد فرمایا) اگرچہ مجھے اس کے بدلے سرخ اونٹ بھی ملیں۔ اس کے بعد بیہقی نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، میں مطیبین کے معاہدے کے علاوہ قریش کے کسی معاہدے میں شریک نہیں ہوا۔ مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ میں سرخ اونٹوں کے بدلے ہی (یعنی کسی بھی قیمت پر) اس معاہدے کی خلاف ورزی کروں۔ راوی کہتے ہیں کہ مطیبین سے مراد بنو ہاشم، بنو امیہ، بنو زھرہ اور بنو مخزوم ہیں۔
یہ معاہدہ قریش مکہ کی قیادت نے کیا تھا جو اس وقت غیر مسلم افراد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے نہ صرف اسے پسند فرمایا بلکہ اس پر اعلان نبوت کے بعد بھی عمل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی معاہدہ انسانیت کے مطابق ہو تو اس پر ہر حال میں عمل کیا جائے گا خواہ اس معاہدے کا آغاز غیر مسلم حکمرانوں کی جانب سے ہی کیا گیا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس معاہدے کو اتنا پسند کیوں کیا کرتے تھے، اس کی وجہ جاننے کے لئے اس معاہدے کی تفصیلات دیکھنا ضروری ہوں گی۔ علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری، سیرت ابن ہشام کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
یہ لوگ عبداللہ بن جدعان تیمی کے مکان پر جمع ہوئے کیونکہ وہ سن و شرف میں ممتاز تھا، اور آپس میں عہد و پیمان کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ وہ مکے کا رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسے اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے اور بعد میں شرف رسالت سے مشرف ہونے کے بعد بھی فرمایا کرتے تھے، میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں ہیں اور اگر (دور) اسلام میں بھی مجھے اس عہد و پیمان کے لئے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس معاہدے کو قائم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی کے بیان کے مطابق جب مدینہ کے گورنر نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا حق غصب کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے حلف الفضول کے تحت ہی لوگوں کو پکارا جسے سن کر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما ان کی مدد کے لئے کھڑے ہو گئے اور گورنر سے ان کا حق دلا کر رہے۔
زیادہ مناسب ہو گا کہ اگر ہم موجودہ دور کے معاہدے جنیوا کنونشن کے بعض اقتباسات بھی یہاں نقل کرتے چلیں۔ اس کے بعد ہم اس معاہدے کا موازنہ حلف الفضول سے کریں گے۔
Prisoners of war must at all times be humanely treated. Any unlawful act or omission by the Detaining Power causing death or seriously endangering the health of a prisoner of war in its custody is prohibited, and will be regarded as a serious breach of the present Convention. In particular, no prisoner of war may be subjected to physical mutilation or to medical or scientific experiments of any kind which are not justified by the medical, dental or hospital treatment of the prisoner concerned and carried out in his interest. Likewise, prisoners of war must at all times be protected, particularly against acts of violence or intimidation and against insults and public curiosity. Measures of reprisal against prisoners of war are prohibited.
Prisoners of war are entitled in all circumstances to respect for their persons and their honour. Women shall be treated with all the regard due to their sex and shall in all cases benefit by treatment as favourable as that granted to men. Prisoners of war shall retain the full civil capacity which they enjoyed at the time of their capture.
Prisoners of war shall enjoy complete latitude in the exercise of their religious duties, including attendance at the service of their faith, on condition that they comply with the disciplinary routine prescribed by the military authorities.
Unless he be a volunteer, no prisoner of war may be employed on labour which is of an unhealthy or dangerous nature. No prisoner of war shall be assigned to labour which would be looked upon as humiliating for a member of the Detaining Power’s own forces.
The treatment of prisoners of war who work for private persons, even if the latter are responsible for guarding and protecting them, shall not be inferior to that which is provided for by the present Convention. The Detaining Power, the military authorities and the commander of the camp to which such prisoners belong shall be entirely responsible for the maintenance, care, treatment, and payment of the working pay of such prisoners of war.
جنگی قیدیوں کے ساتھ ہر حالت میں انسانی سلوک کیا جائے گا۔ فاتح قوت کی جانب سے کوئی بھی ایسا غیر قانونی کام نہ کیا جائے گا اور ایسی عدم توجہی نہ برتی جائے گی جس سے جنگی قیدی کی موت واقع ہو جائے یا اس کی صحت کو خطرہ لاحق ہو۔ ایسے تمام اقدامات ممنوع ہوں گے اور اس معاہدے کی سنگین خلاف ورزی تصور کئے جائیں گے۔ خاص طور پر، کسی جنگی قیدی کو مخنث نہیں بنایا جائے گا اور اسے کسی بھی قسم کے ایسے طبی یا سائنسی تجربات کا نشانہ نہ بنایا جائے گا جو کہ قیدیوں کے طبی حقوق کے منافی ہو۔ اسی طرح، جنگی قیدیوں کی ہر حال میں حفاظت کی جائے گی، خاص طور پر تشدد، ہراساں کیا جانا اور ہر قسم کی بے عزتی اور لوگوں کے سامنے پیش کئے جانے سے اسے بچایا جائے گا۔ جنگی قیدیوں کے خلاف انتقامی کاروائی ممنوع ہو گی۔
جنگی قیدیوں کو ہر قسم کے حالات میں ذاتی عزت دی جائے گی۔ خواتین کو ان کے جنسی معاملات میں عزت دی جائے گی اور انہیں وہ تمام حقوق دیے جائیں گے جو مردوں کو دیے گئے ہیں۔ جنگی قیدیوں کو وہ تمام حقوق دیے جاتے رہیں گے جو قیدی بننے کے وقت انہیں حاصل تھے۔
جنگی قیدیوں کو اپنے مذہبی فرائض کی بجا آوری کی مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ وہ اپنے مذہب کی عبادت میں شریک ہو سکیں گے بشرطیکہ وہ فوجی اتھارٹی کے ڈسپلن کی پابندی کریں۔
سوائے اس کے کہ جنگی قیدی اپنی خدمات خود پیش کرے، اس سے کوئی ایسا کام نہ لیا جائے گا جو کہ خطرناک یا صحت کے لئے نقصان دہ ہو۔ کسی جنگی قیدی سے ایسا کام نہ لیا جائے گا جسے کرتے ہوئے فاتح فوج کے اپنے افراد ذلت محسوس کرتے ہوں۔
ایسے جنگی قیدی جو کہ مختلف افراد کی ذاتی خدمت پر مامور ہوں، اگرچہ ان کے مالکان ان کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہوں، کو موجودہ معاہدے کے تحت کمتر نہ بنایا جائے گا۔ فاتح فوج، ملٹری کے ذمہ دار افراد اور کیمپ کا کمانڈر جس سے ان قیدیوں کا تعلق ہے مکمل طور پر ان جنگی قیدیوں کو ضروریات کی فراہمی، توجہ، علاج اور کام کے بدلے تنخواہ دلانے کے ذمہ دار ہوں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حلف الفضول سے متعلق رویے اور غلاموں اور جنگی قیدیوں سے متعلق آپ کے اقدامات کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم پورے یقین سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر جنیوا کنونشن جیسا معاہدہ آپ کے دور ہی میں ہو جاتا تو اس معاہدے پر دستخط کرنے والے پہلے فرد خود حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہی ہوتے۔ کاش! آپ سے محبت رکھنے والے آپ کے امتی اس معاہدے کو اپنے رسول کی پسند و ناپسند سمجھتے ہوئے دل و جان سے اس کی پابندی کرنے، اسے ہمیشہ کے لئے برقرار رکھنے اور مستقبل میں اسے مزید بہتر بنانے کی کوشش کو اپنا فریضہ سمجھ لیں۔
اب آخری سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم ملک اس معاہدے کو توڑ دیتا ہے تو کیا مسلمانوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں ہمارے اہل علم کو اپنا موقف تفصیل سے پیش کرنا چاہیے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے خون کے آخری قطرے تک اس معاہدے کی پابندی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ ہماری اخلاقی برتری ہی ہمیں دیگر اقوام سے ممتاز کر سکتی ہے۔
mubashirnazir100@gmail.com