مکاتبت واجب ہے یا مستحب؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

اس ضمن میں فقہاء کے مابین یہ اختلاف موجود ہے کہ جب کوئی غلام اپنی آزادی خریدنے کا ارادہ کرے تو اس کے مالک کے لئے کیا یہ بات ضروری ہے کہ وہ اسے آزادی دے دے یا پھر اس کے لئے یہ محض ایک مستحب حکم ہے کہ وہ اپنے غلام کو چاہے تو آزادی دے اور چاہے تو نہ دے۔

دور صحابہ میں مکاتبت کے واجب یا مستحب ہونے کا معاملہ

حقیقت یہ ہے کہ یہ اختلاف بعد کے دور کی پیداوار ہے۔ دور صحابہ میں تو اس کا کوئی تصور موجود نہ تھا کہ اگر کوئی غلام اپنی آزادی خریدنے کا طالب ہو تو کوئی آقا اسے اس کی آزادی دینے سے انکار کر دے۔ ہر صحابی مکاتبت کے طالب غلاموں کو فوراً آزادی دے دیا کرتا تھا۔ استثنائی طور پر صرف دو واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں آقا نے غلام کو مکاتبت دینے سے انکار کیا ہو۔ ایک واقع سیدنا صبیح رضی اللہ عنہ کا ہے اور دوسرا سیرین رحمۃ اللہ علیہ کا۔

واحتجوا أيضا بأن هذه الآية نزلت في غلام لحويطب بن عبد العزى يقال له صبيح سأل مولاه أن يكاتبه فأبى عليه فأنزل الله تعالى هذه الآية فكاتبه حويطب على مائة دينار ووهب له منها عشرين دينارا فأداها وقتل يوم حنين في الحرب. (عینی، شرح البخاری، کتاب المکاتب)

اہل علم نے اس بات سے بھی دلیل حاصل کی ہے کہ (مکاتبت کی یہ آیت) حویطب بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں صبیح کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنے آقا سے مکاتبت کی درخواست کی جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔ انہوں نے حویطب سے سو دینار پر مکاتبت کر لی اور اس میں سے بیس دینار انہیں معاف بھی کر دیے۔ انہوں نے یہ رقم ادا کی۔ یہ صاحب جنگ حنین میں شہید ہو گئے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام سیرین کو آزادی دینے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں وہ خلیفہ وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پہنچ گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو بلایا اور کوڑا لے کر ان پر پل پڑے۔ یہ واقع امام بخاری نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

وقال روح، عن ابن جريج: قلت لعطاء: أواجب علي إذا علمت له مالا أن أكاتبه؟ قال: ما أراه إلا واجبا. وقاله عمرو بن دينار. قلت لعطاء: تأثره عن أحد، قال: لا. ثم أخبرني: أن موسى بن أنس أخبره: أن سيرين سأل أنسا المكاتبة، وكان كثير المال فأبى، فانطلق إلى عمر رضي الله عنه فقال: كاتبه، فأبى، فضربه بالدرة ويتلو عمر: {فكاتبوهم إن علمتم فيهم خيرا}. فكاتبه. (بخاری، کتاب المکاتب، ترجمة الباب عند حديث 2559)

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء  سے پوچھا، کیا مجھ پر یہ لازم ہے کہ اگر مجھے علم ہو کہ غلام ادائیگی کر سکتا ہے تو اس سے مکاتبت کر لوں؟ وہ کہنے لگے، میں اسے ضروری تو نہیں سمجھتا۔ عمرو بن دینار نے ان سے کہا، کیا آپ کو اس معاملے میں کسی صحابی کے قول و فعل کا علم ہے؟ وہ کہنے لگے، نہیں۔ انہوں نے یہ موسی بن انس کے حوالے سے یہ واقعہ بیان کیا۔

سیرین (جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے غلام تھے) کے پاس کثیر مال موجود تھا۔ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے مکاتبت کی درخواست کی۔ انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ یہ معاملہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت میں لے گئے۔ انہوں نے (انس سے) کہا: مکاتبت کرو۔ انہوں نے پھر انکار کیا۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں درے سے مارا اور یہ آیت تلاوت کی، ان سے مکاتبت کرو اگر تم ان میں بھلائی دیکھتے ہو۔ اب انس نے مکاتبت کر لی۔ (یہ روایت طبرانی میں متصل سند کے ساتھ موجود ہے۔)

اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مکاتبت کے واجب یا مستحب ہونے کا اختلاف پہلی مرتبہ تابعین کے آخری دور میں پیدا ہوا جب بنو امیہ کی ملوکیت پوری طرح مسلم معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے کیا ثابت ہوتا ہے، اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔

مکاتبت کو مستحب قرار دینے والوں کی توضیح کا جواب

جو حضرات مکاتبت کو مستحب قرار دیتے ہیں، وہ اس روایت کا جواب یہ دیتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو جو کوڑے سے مارا، وہ محض ایک بزرگ نے نصیحت کے طور پر کیا۔ یہ قانونی سزا نہ تھی بلکہ محض ایک نصیحت ہی تھی۔ ان حضرات نے اپنی اس توجیہ کی صرف یہ دلیل پیش کی ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے۔ اگر وہ مکاتبت کو واجب سمجھتے تو اس سے انکار نہ کرتے۔

          ان حضرات سے چند سوالات کرنے کی ہم جسارت کریں گے:  پہلا سوال یہ ہے کہ اگر سیرین نے محض ایک بزرگانہ نصیحت حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا تھا تو یہ کام تو وہ مدینہ کے اور بزرگوں سے بھی کروا سکتے تھے، اس کام کے لئے خاص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتخاب ہی کیوں کیا گیا؟

          دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک مستحب عمل کی ترغیب دینے کے لئے نصیحت کا طریقہ تو یہی ہوتا ہے کہ مخاطب کو پیار محبت سے سمجھایا جائے۔ کسی کو کوڑے مار کر تو نفل نماز پڑھنے یا نفلی روزے کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا۔ ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی دین کے کسی لازمی قانون پر عمل نہ کر رہا ہو۔ اگر مکاتبت محض مستحب ہوتی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پیار محبت سے یا بہت ہوتا تو ڈانٹ ڈپٹ کر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو سمجھا دیتے۔ کوڑے سے پیٹنے کی آخر انہیں کیا ضرورت پیش آ گئی تھی جبکہ مخاطب محض ایک نفلی کام ہی ترک کر رہا تھا۔ اس سے متعلق علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں۔

وفيه نظر لا يخفى لأن الضرب غير موجه على ترك المندوب خصوصا من مثل عمر لمثل أنس رضي الله تعالى عنهما ولا سيما تلا عمر قوله تعالى فكاتبوهم الآية عند ضربه إياه. (عينی، شرح البخاری، کتاب المکاتب)

اس میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ ایک مستحب امر کے ترک کرنے پر خاص طور پر مارا تو نہیں جاتا جیسا کہ سیدنا عمر نے انس رضی اللہ عنہما کے ساتھ کیا۔ انہیں مارتے وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ ان سے مکاتب کرو تلاوت کر رہے تھے (جس کا معنی یہی ہے کہ وہ مکاتبت کو واجب سمجھتے تھے۔)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ بھی مکاتبت کو واجب سمجھا کرتے تھے۔ اس کا اندازہ حافظ ابن حجر کے اس بیان سے ہوتا ہے۔

واستدل بفعل عمر على أنه كان يرى بوجوب الكتابة إذا سألها العبد لأن عمر لما ضرب أنسا على الامتناع دل على ذلك وليس ذلك بلازم لاحتمال أنه أدبه على ترك المندوب المؤكد وكذلك ما رواه عبد الرزاق أن عثمان قال لمن سأله الكتابة لولا آية من كتاب الله ما فعلت فلا يدل أيضا على أنه كان يرى الوجوب ونقل بن حزم القول بوجوبها عن مسروق والضحاك. (ابن حجر عسقلاني؛ فتح الباري شرح البخاري؛ كتاب المکاتب)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو غلام کی طلب پر کتابت کو واجب قرار دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو اس بات پر جو مارا تھا، وہی اس بات کی دلیل ہے کہ مکاتبت واجب ہے۔ اس میں یہ احتمال نہیں ہے کہ انہوں نے ایک مستحب موکد کو ترک کرنے پر انہیں مارا ہو گا۔ یہی بات عبدالرزاق نے روایت کہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے جب کتابت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا، اگر اللہ کی کتاب میں یہ آیت نہ ہوتی تو (شاید) میں ایسا نہ کرتا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے واجب سمجھتے تھے۔ ابن حزم نے مسروق اور ضحاک (تابعین) سے اس کے واجب ہونے کی رائے نقل کی ہے۔

ابن حزم  نے المحلی کی کتاب الکتابۃ میں مکاتبت کے واجب ہونے پر تفصیلی بحث کی ہے اور انہوں نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے اسے واجب قرار دیا ہے۔ انہوں نے مکاتبت کو مستحب قرار دینے والوں پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے کتاب اللہ کے خلاف قرار دیا ہے۔

(d. 456H)

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

مکاتبت واجب ہے یا مستحب؟
Scroll to top