نکاح مسیار کی شرعی حیثیت کیا ہے اور بدکاری سے کم درجے کے گناہ کی سزا کیا ہے؟

صرف اپنی معلومات کے لیے اور میرے انڈین دوست کی کنفیوژنز دور کرنے کے لیے کچھ نامناسب سے سوال کر رہا ہوں۔ امید ہے آپ برا نہیں مانیں گے اور رہنمائی فرمائیں گے۔

زواج مسیار کیا ہے؟ شاید اس کے متعلق کافی سارا مواد انٹرنیٹ پر دستیاب ہو، مگر میں نے زیادہ مطالعہ نہیں کیا۔ کیا یہ ہماری طرز کے اسلام یعنی سنی فرقہ یا حنفی مسلک کی رو سے جائز ہے ؟ کیا یہ مخصوص حالات میں، مخصوص انسان پر قابل قبول ہے ؟ خاص طور پر ہمارے سعودی عرب میں رہنے والے ساتھی، جو لمبے عرصے تک اپنی بیویوں سے دور رہتے ہیں۔

اسلام میں جسم کی جنسی ضروریات پوری کرنے کے لیے نکاح کا طریقہ مستحب ہے، مگر ایک انسان کچھ ایسی مجبوری میں ہے کہ وہ بیوی کے پاس نہیں جا سکتا تو زواج مسیار کے علاوہ کوئی دوسرا طریقہ موجود ہے ؟ جس سے جنسی ضروریات پوری کی جا سکیں۔

اگر کسی انسان نے بغیر نکاح کےمباشرت کی ہو تو اسے زنا کہیں گے اور اس کی سزا 80 کوڑے ہیں لیکن اگر کسی انسان نے فقط بوس کنار اور چھونے کی حد تک گناہ کیا ہو تو اسے کیا کہیں گے، اور اس کی توبہ، یا اس گناہ سے پاک ہونے کا کیا طریقہ ہے ؟ اور یہ سزا شادی شدہ اور غیر شادی افراد کے لیے الگ الگ ہو گی؟

والسلام

یاسر عمران مرزا

فروری 2011

ڈئیر یاسر بھائی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

نکاح مسیار کے بارے میں محترم دوست ریحان احمد یوسفی صاحب نے یہ تحریر لکھی تھی۔ مجھے بھی ان کی رائے سے اتفاق ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

پچھلے دنوں عرب ممالک میں رائج شادی کی ایک قسم مسیار کا بہت ذکر رہا۔ اس کے جواز و عدم جواز پر کافی بحث ہوئی۔ اس ضمن میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ بات اٹھائی گئی کہ متعہ اور مسیار میں کوئی فرق نہیں اور یہ ایک ہی نوعیت کی دو چیزیں ہیں ۔

اس ضمن میں حقیقت یہ ہے کہ مسیار نکاح کی کوئی الگ قسم نہیں ہے ۔ اس میں ہوتا صرف یہ ہے کہ بیوی اپنے کچھ حقوق جیسے رہائش اور نان نفقہ وغیرہ سے دستبردار ہوجاتی ہے ۔ اپنی اصل شکل میں یہ تعلق نہ چوری چھپے ہوتا ہے نہ کسی عارضی مدت کے لیے ۔ اگر یہ باتیں اس میں شامل ہوں تو یقینا یہ تعلق ناجائز قرار پائے گا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح متعہ اس وجہ سے ناجائز ہے کہ اس میں مرد و عورت کا تعلق محض ایک عارضی مدت کے لیے ہوتا ہے ۔ اس لیے مسیار اپنی اصل شکل میں کسی طرح متعہ جیسی کوئی چیز نہیں ۔

رہا یہ سوال کہ مسیار کس درجہ میں گوارا کیا جا سکتا ہے تو ہمارے نزدیک یہ قانونی طور پر جائز لیکن ایک غیر مطلوب چیز ہے ۔ قانونی طور پر ایک خاتون کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ نکاح کے تعلق میں اپنے کچھ حقوق چھوڑ دے ، لیکن نکاح کی آئیڈیل شکل یہی ہے کہ مرد خاندان کی پور ی ذمہ دار ی اٹھائے ۔ عر ب ممالک میں بھی یہ طریقہ اکثر مجبوری ہی میں اختیار کیا جاتا ہے۔ مثلاً مہر زیادہ ہونے کی بنا پر کسی خاتون کا رشتہ نہیں ہوا اور اس کی عمر ڈھل گئی، یا کوئی لڑ کی ماں باپ کی دیکھ بھال کی وجہ سے انہیں چھوڑ نہیں سکتی یا پھر وہ مطلقہ خواتین جنھیں مناسب بر نہ مل رہا ہو یہ شاد ی کرتی ہیں۔

عملی طور پر بھی اس تعلق کی کئی خرابیاں ہیں جو سامنے آ رہی ہیں ۔ مثلاً باپ عموماً بچوں کے ساتھ نہیں رہتا۔ اسی طرح اس تعلق میں خواتین اپنے شوہروں کی دوسری تیسری بیوی بنتی ہیں اور اپنے کئی حقوق سے محروم رہتی ہیں ۔ اس لیے بجز استثنائی معاملات کو چھوڑ کر مسیار کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

یہ تحریر پر دستیاب ہے۔

ریحان صاحب کی اس تحریر پر میں ان نکات کا اضافہ کروں گا۔

۔۔۔۔۔۔ نکاح مسیار کی صورت میں ملک سے باہر رہنے والا مرد تو اپنی ضرورت پوری کر لیتا ہے مگر اس کی بیوی اس کی یاد میں اپنے وطن میں اکیلی ہی سلگتی رہتی ہے۔ اس وجہ سے یہ طرز عمل درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ نکاح مسیار کی صورت میں جب مرد اپنے وطن جانے لگتا ہے تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے جاتا ہے۔ بیوی کو بھی یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی ہے کہ مجھے ایک دن طلاق ملنی ہے۔ اس وجہ سے اس کی شکل متعہ سے ملتی جلتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔ میاں بیوی اگر کسی وجہ سے دور ہوں تو ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو، اپنے جنسی جذبات پر قابو پائیں۔ بعض علماء ایسی اضطراری حالت میں خود لذتی کو جائز قرار دیتے ہیں۔

آپ نے جو لکھا کہ زنا کی سزا 80 کوڑے ہے۔ یہ درست نہیں ہے بلکہ اس کی سزا قرآن میں 100 کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک شادی شدہ زانی کی سزا رجم ہے۔ اگر کوئی شخص بدکاری کا ارتکاب کر لے تو اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اللہ تعالی سے توبہ کرے اور حاکم کے پاس جا کر اعتراف نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اعتراف کے جو کیسز آئے، آپ نے انہیں پہلے رد کرنے اور بھگانے کی کوشش کی۔ جب وہ کسی طرح نہ ٹلے تو ان پر حد نافذ فرمائی۔

بدکاری سے کم درجے کے گناہوں کی توبہ کا طریقہ وہی ہے جو کہ سبھی گناہوں کا ہے۔ یعنی اللہ تعالی کے سامنے رو کر اور گڑگڑا کر معافی مانگی جائے، ندامت کا اظہار کیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے۔ اگر حاکم وقت کے پاس ایسے کیسز لائے جائیں تو وہ انہیں تعزیر کے طور پر کچھ سزا حالات کے لحاظ سے دے سکتا ہے۔ اس کی کوئی سزا شرعا مقرر نہیں ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

نکاح مسیار کی شرعی حیثیت کیا ہے اور بدکاری سے کم درجے کے گناہ کی سزا کیا ہے؟
Scroll to top