کیا اسلام غلام کو شادی کرنے کا حق دیتا ہے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

دین اسلام سے پہلے غلاموں کو دیے جانے والے تمام انسانی حقوق اس کے مالک کی صوابدید پر منحصر تھے۔ اسلام نے عرب میں سب سے پہلے غلام کے لئے انسانی حقوق متعارف کروائے۔ فقہاء کے نزدیک غلام کو یہ حق تو حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا کی مرضی کے بغیر شادی کر لے کیونکہ اس کے نتیجے میں معاشرے میں سماجی انارکی جنم لے سکتی ہے لیکن قرآن مجید نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ اگر کوئی غلام یا لونڈی شادی کرنا چاہے تو اس کے آقا کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان کی شادی کا اہتمام کرے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے گا اور اس کے نتیجے میں اگر یہ غلام بدکاری پر مجبور ہوئے تو ان کے اس گناہ کے ذمہ دار ان کے مالکان ہوں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَأَنكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمْ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ۔ (النور 24:32)

تم میں سے جو (مرد و عورت) مجرد ہوں، ان کی شادیاں کر دیا کرو اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح بھی کر دیا کرو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ بڑی وسعت اور علم والا ہے۔

اگر آقا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کی درخواست کے باوجود اس کی شادی نہیں کرتا تو وہ اس معاملے کو عدالت میں لے جا کر مالک کو ان کی شادی کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں یہ رواج تھا کہ وہ خود غلاموں کو ترغیب دلایا کرتے تھے کہ وہ شادی کر لیں۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اپنے غلاموں سے کہا کرتے تھے، شادی کرو، کیونکہ اگر کوئی بندہ بدکاری کا ارتکاب کرتا ہے تو اللہ اس سے ایمان کا نور ختم کر دیتا ہے۔

          غلام کو اس بات کی نصیحت ضرور کی گئی ہے کہ جب وہ شادی کرنا چاہے، تو اپنے مالک کے توسط سے کرے، خود ہی ایسا نہ کرے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ غلام کی پوری فیملی کی ضروریات کی فراہمی آقا کے ذمے تھی۔ اس وجہ سے اسے شریک کئے بغیر ایسا معاملہ کرنے سے بہت سے مسائل پیدا ہو جاتے۔

          شادی کرنے کے بعد طلاق کا حق صرف اور صرف غلام کو ہی دیا گیا۔ کسی مالک کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے غلام کو اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں یہی عمل تھا۔

وَحَدَّثَنِي عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ : مَنْ أَذِنَ لِعَبْدِهِ أَنْ يَنْكِحَ، فَالطَّلاَقُ بِيَدِ الْعَبْدِ، لَيْسَ بِيَدِ غَيْرِهِ مِنْ طَلاَقِهِ شَيْءٌ۔ (موطاء مالک، کتاب الطلاق، حديث 1676)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے، جس نے اپنے غلام کو شادی کرنے کی اجازت دے دی، تو اب طلاق کا معاملہ غلام کے ہاتھ ہی میں ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کو طلاق کے معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔

حَدَّثَنَا مُحَمَّد بن يحيى. حَدَّثَنَا يحيى بن عبد اللَّه بن بكير. حَدَّثَنَا ابن لهيعة، عن موسى بن أيوب الغافقي، عن عكرمة، عن ابن عباس؛ قَالَ: أتى النَّبِيّ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَم رجل فقال يَا رَسُولَ اللَّه! إن سيدي زوجني أمته، وهو يريد أن يفرق بيني وبينها، قَالَ، فصعد رَسُولَ اللَّهِ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَم المنبر فقال ((يا أيها الناس! ما بال أحدكم يزوج عبده أمته ثم يريد أن يفرق بينهما؟ إنما الطلاق لمن أخذ بالساق))۔ (ابن ماجه، کتاب الطلاق، حديث 2081)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ! میرے آقا نے میری شادی اپنی ایک لونڈی سے کر دی تھی اور اب ہمیں علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم یہ سن کر منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا، اے لوگو! یہ کیا ہو گیا ہے کہ تم میں سے ایک شخص نے اپنے غلام کی شادی اپنی ایک لونڈی سے کر دی ہے اور اب وہ چاہتا ہے کہ ان میں علیحدگی کروا دے۔ طلاق تو اسی کا حق ہے جو شوہر ہے۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا اسلام غلام کو شادی کرنے کا حق دیتا ہے؟
Scroll to top