حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات
اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اس معاملے میں ہمارے فقہاء میں کوئی اختلاف موجود نہیں ہے کہ غلام، کسی آزاد خاتون کے سرپرست کی اجازت سے اس کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اور ان کے بچے بھی آزاد تصور ہوں گے۔ یہی معاملہ سابقہ غلام کا بھی ہے۔ اسلام سے پہلے اس بات کو نہایت ہی شرم کا باعث سمجھا جاتا تھا کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن کا رشتہ کسی موجودہ یا سابقہ غلام سے کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس تصور کو ختم کر دیا اور مختلف سماجی رتبے کے حامل بہت سے صحابہ و صحابیات کے مابین شادیاں ہوئیں۔ اس کی تفصیل ہم پچھلے ابواب میں بیان کر چکے ہیں، یہاں اسی تفصیل کو دوبارہ نقل کیے دیتے ہیں۔
آزاد کردہ غلاموں کا درجہ بلند کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنے خاندان سے مثال قائم فرمائی۔ آپ نے اپنے آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا نکاح اپنی کزن سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے کیا۔ یہ خاتون قریش کے خاندان بنو ہاشم سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ بات مشہور و معروف ہے کہ عربوں میں قریش کو سب سے افضل سمجھا جاتا تھا اور قریش میں بنو ہاشم کا درجہ خصوصی سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی لیکن بہرحال یہ مثال قائم ہو گئی کہ مولی کا درجہ اس کی قوم کے برابر ہے۔ اس کے بعد صحابہ کرام میں نہ صرف آزاد کردہ غلاموں بلکہ موجودہ غلاموں سے بھی اپنی لڑکیوں کی شادی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
حدثنا أبو اليمان: أخبرنا شعيب، عن الزهري قال: أخبرني عروة بن الزبير، عن عائشة رضي الله عنها: أن أبا حذيفة بن عتبة بن ربيعة بن عبد شمس، وكان ممن شهد بدرا مع النبي صلى الله عليه وسلم، تبنى سالما، وأنكحه بنت أخيه هند بنت الوليد ابن عتبة بن ربيعة، وهو مولى لإمرأة من الأنصار.(بخاری، کتاب النکاح، حديث 5088)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس (جو کہ قریش کے ایک ممتاز خاندان بنو عبدشمس سے تھے) اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ساتھ جنگ بدر میں حصہ لیا تھا، نے سالم کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا اور ان کی شادی اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے کر دی تھی۔ یہ سالم ایک انصاری خاتون کے آزاد کردہ غلام تھے۔
حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أبِي الزِّنَادِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ: أَنَّ نُفَيْعاً مُكَاتَباً كَانَ لأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَوْ عَبْداً لَهَا، كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ حُرَّةٌ, فَطَلَّقَهَا اثْنَتَيْنِ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُرَاجِعَهَا، فَأَمَرَهُ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْتِيَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَيَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَلَقِيَهُ عِنْدَ الدَّرَجِ آخِذاً بِيَدِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، فَسَأَلَهُمَا، فَابْتَدَرَاهُ جَمِيعاً فَقَالاَ : حَرُمَتْ عَلَيْكَ، حَرُمَتْ عَلَيْكَ.(موطاء مالک، کتاب الطلاق، حديث 1672)
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک غلام یا مکاتب نفیع تھے۔ ان کے نکاح میں ایک آزاد خاتون تھیں۔ انہوں نے انہیں دو مرتبہ طلاق دے دی اور پھر رجوع کرنے کا ارادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ازواج نے معاملے کو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (جو کہ خلیفہ تھے) کی عدالت میں لے جانے کا حکم دیا۔ وہ ان سے فیصلہ کروانے کے لئے گئے تو ان کی ملاقات سیڑھیوں کے نزدیک ان سے ہوئی۔ اس وقت وہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ساتھ جلدی جلدی کہیں جا رہے تھے۔ ان سے پوچھا تو وہ دونوں کہنے لگے، وہ اب تمہارے لئے حرام ہے، وہ اب تمہارے لئے حرام ہے۔
حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ اشْتَرَى عَبْداً فَأَعْتَقَهُ، وَلِذَلِكَ الْعَبْدِ بَنُونَ مِنِ امْرَأَةٍ حُرَّةٍ، فَلَمَّا أَعْتَقَهُ الزُّبَيْرُ قَالَ هُمْ مَوَالِيَّ.، وَقَالَ مَوَالِي أُمِّهِمْ : بَلْ هُمْ مَوَالِينَا. فَاخْتَصَمُوا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَقَضَى عُثْمَانُ لِلزُّبَيْرِ بِوَلاَئِهِمْ. (موطاء مالک، کتاب العتق و الولاء، حديث 2270)
ربیعۃ بن ابو عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے ایک غلام کو خرید کر اسے آزاد کر دیا۔ اس غلام کے ایک آزاد بیوی میں سے بچے تھے۔ جب سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے آزاد کیا تو فرمایا کہ تمہارے بچے بھی میرے موالی ہیں۔ اس شخص نےکہا، “نہیں، یہ تو اپنی ماں کے موالی ہوئے۔” وہ یہ مقدمہ لے کر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی عدالت میں گئے۔ آپ نے ان بچوں کی ولاء کا فیصلہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں کر دیا۔
اس ضمن میں فقہاء کے ہاں ایک مسئلے نے جنم لیا ہے اور وہ ہے “کفو” یعنی میاں بیوی کے خاندانوں کے ہم پلہ ہونے کا مسئلہ۔ بعض فقہاء کے نزدیک غلام یا آزاد کردہ غلام چونکہ آزاد خاتون کو کفو نہیں ہے، اس وجہ سے اگر کوئی خاتون کسی غلام یا سابقہ غلام سے شادی کر لے تو اس خاتون کے سرپرستوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس نکاح کو فسخ کروا دیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کفو کے اس مسئلے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق قرون وسطی کے سماجی نظام ہے۔ یہ معاملہ اسلام کے قانون مساوات اور اوپر بیان کردہ آیات و احادیث کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود فقہاء میں سے بہت سے اہل علم نے اس معاملے میں شدید اختلاف کیا ہے۔
Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.