کیا اسلام نے عرب اور عجم کے غلاموں میں فرق کیا ہے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

بعض فقہاء نے عرب اور عجم کے غلاموں میں فرق کیا ہے۔ ان کے نزدیک جنگ میں عجمی کو تو غلام بنانا جائز ہے لیکن اہل عرب کو نہیں۔ یہ نقطہ نظر قائم ہونے کی وجہ بنیادی طور پر نسل پرستی ہی ہے جو مسلمانوں کے اندر رواج پذیر ہو گئی تھی۔ یہ دراصل دور جاہلیت کی عصبیت تھی جس کا مکمل خاتمہ مسلمانوں کے اندر سے نہ ہو سکا تھا۔

          ان حضرات نے بالعموم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ان فیصلوں سے استدلال کیا ہے جو انہوں نے عرب میں غلامی کے خاتمے کے لئے کئے تھے۔ ان فیصلوں میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مقصد نسل پرستی نہیں تھا بلکہ وہ تدریجا ان علاقوں سے غلامی کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے جہاں جہاں خلافت راشدہ مضبوط ہوتی چلی جا رہی تھی۔

          اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو پوری دنیا کی طرف مبعوث فرمایا ہے۔ اگر آپ ایک قوم کو دوسری قوم پر فوقیت دیتے تو آپ کی دعوت کو کبھی قبولیت حاصل نہ ہوتی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بارہا یہ واضح فرمایا ہے کہ اللہ کے ہاں کسی قوم سے پیدائشی تعلق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس کی نظر میں تمام افراد برابر ہیں۔ جو شخص بھی خود کو اللہ کے زیادہ قریب کرتا چلا جائے گا اس کا مقام اللہ کے نزدیک اتنا ہی بلند ہوتا چلا جائے گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسی شخص کا تعلق کس قوم، قبیلے، جنس، رنگ یا نسل سے ہے۔ اللہ تعالی کی نظر میں تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ. (الحجرات 49:13)

اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ اس کے بعد تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا۔ بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ بے شک اللہ (ہر ظاہر و پوشیدہ چیز) کا علم رکھنے والا اور خبردار ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَتَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً. (النساء 4:1)

اے انسانو! اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک ہی شخص سے پیدا کیا اور اسی شخص سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر ان دونوں سے بہت سے مرد و خواتین دنیا میں پھیلا دیے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم رشتے داروں سے اپنا حق مانگتے ہو۔ یقین رکھو کہ اللہ تم پر نگہبان ہے۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ. (الحجرات 49:10)

بے شک مسلمان تو بھائی بھائی ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ. (المائدة 5:8)

اے ایمان والو! اللہ کے لئے حق اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے کے لئے کھڑے ہو جاؤ۔ کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہی تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْراً مِنْهُمْ. (الحجرات 49:11)

اے ایمان والو! کوئی کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں یہی بات واضح طور پر ارشاد فرما دی تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں نسل پرستی سے بچ سکیں۔

تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا۔ اے لوگو! سنو تمہارا رب ایک رب ہے، کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ کوئی کالا کسی گورے سے بہتر ہے اور نہ گورا کالے سے۔ فضیلت صرف اور صرف تقویٰ کے سبب ہے۔

یہ بات معلوم و معروف ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہر قسم کی نسل پرستی سے پاک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے لوگوں کے مشورے کے باوجود اپنے بیٹے یا قبیلے کے کسی اور شخص کو خلیفہ نامزد نہ کیا۔ اس کی خواہش بھی اگر ظاہر کی تو ایک جلیل القدر صحابہ سیدنا ابوعبیدہ یا ایک آزاد کردہ غلام سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہم کے لئے۔

          اس کردار کے مالک خلیفہ سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ آپ غلامی کے خاتمے کے لئے عرب و عجم میں فرق کریں گے۔ تاریخ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں عرب میں اسلام کا اقتدار بالکل مستحکم ہو چکا تھا، اس وجہ سے آپ نے غلامی کے خاتمے کے لئے اپنی اصلاحات کا آغاز عرب سے کیا۔ اگر آپ کو مزید مہلت مل جاتی تو عجمی غلاموں کے بارے میں بھی آپ اسی قسم کا فیصلہ کر کے غلامی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنی ذاتی استعداد میں آپ نے بے شمار عجمی غلاموں کو آزاد فرمایا حتی کہ اپنی وفات کے وقت تمام آپ نے تمام عجمی غلاموں کو آزاد فرما دیا جن میں بہت سے غیر مسلم بھی شامل تھے۔ اس معاملے میں عربی اور عجمی غلام میں کوئی فرق نہیں تھا۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا اسلام نے عرب اور عجم کے غلاموں میں فرق کیا ہے؟
Scroll to top