سوال: السلام علیکم۔ سر سب سے پہلے تو آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ایک بہت ہی اچھا سلسلہ (مذہبی سوالات اور جوابات کا) شروع کرنے کا۔ میرا سوال متعہ (عارضی شادی) کے بارے میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔ کیا اسلام نے متعہ کو جائز قرار دیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔ کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں متعہ حلال تھا اور اسے بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حرام قرار دے کر بند کروایا؟
میں بہت شکر گزار ہوں گا اگر آپ مجھے احادیث یا مستند تحریروں کے حوالے سے جواب دیں۔
بہت شکریہ۔
سجاد درانی، دمام، سعودی عرب۔
مئی 2010
ڈئیر سجاد صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تاخیر کے لئے معذرت۔ میں آفس کے کچھ کاموں میں اتنا مصروف تھا کہ جلد جواب نہ دے سکا۔
متعہ ایک مشہور بحث ہے جو طویل عرصے سے اہل سنت اور اہل تشیع کے مابین جاری ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے کچھ تمہیدی باتیں عرض کر دوں، پھر آپ کے سوالات کا جائزہ لوں گا۔ میری کوشش ہو گی کہ صورتحال کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے اور پھر اس تجزیے کے بعد ایک نقطہ نظر کو ترجیح دی جائے۔
خوراک اور نیند کی طرح سیکس بھی ہر انسان مرد و عورت کی جسمانی ضرورت ہے۔ اسی کے نتیجے میں معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں مختلف طریقے رائج رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ طریقے تین ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ نکاح: اس طریقے میں مرد و خاتون باہمی معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ پوری عمر ساتھ گزاریں گے اور اولاد پیدا کریں گے۔ مرد و خاتون پوری عمر اکٹھی گزارنے کی نیت گوئنگ کنسرن کے ساتھ زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ ان کے ہاں جو اولاد ہوتی ہے، اسے مل جل کر سنبھالتے ہیں۔ یہی بچے بڑے ہو کر پھر اپنے والدین کی کیئر کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کی شریعت میں یہی طریقہ معیاری طریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔ زنا یا بدکاری: اس طریقے میں مرد و خاتون کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوتا۔ بس وقتی طور پر وہ اکٹھا ہوتے ہیں، اپنی خواہش پوری کرتے ہیں اور پھر اپنے اپنے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اگر کوئی بچہ ہو جائے تو پھر اس کی ذمہ داری لینے کو کم از کم ایک فریق تیار نہیں ہوتا اور بچے کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ یہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے اور اس کے والدین بوڑھے ہوتے ہیں تو پھر اس بچے کو اپنے والدین میں سے کم از کم ایک فریق کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی جس سے اس بوڑھے کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی شریعت میں اس طریقے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ محدود مدت کا نکاح یعنی متعہ: اس طریقے میں مرد و خاتون ایک محدود مدت کے لئے میاں بیوی کے طور پر زندگی گزارنے کا معاہدہ کرتے ہیں۔ یہ مدت ایک سال بھی ہو سکتی ہے اور ایک گھنٹہ بھی۔ اسے متعہ کہا جاتا ہے۔ اگر متعہ کے نتیجے میں کوئی بچہ ہو جائے تو اس کے مجوزین کے نزدیک وہ باپ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور وہ بچہ ماں باپ کے دیگر بچوں کے ساتھ وراثت اور دیگر حقوق میں شریک ہوتا ہے۔ لیکن عملی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے کہ بچے کو والدین سے اس کے حقوق دلوائے جا سکیں یا پھر بوڑھے والدین کے حقوق کو بچے سے وصول کیا جا سکے۔ اس مسئلے پر مسلمانوں کے دو بڑے فرقوں میں اختلاف موجود ہے کہ یہ طریقہ جائز ہے یا نہیں۔
عملی اعتبار سے دیکھیے تو بدکاری یا متعہ دونوں کے نتائج میں کوئی فرق نہیں ہے یعنی نہ تو بچے کو ماں اور باپ دونوں کا پیار ملنے کی کوئی گارنٹی ہے اور نہ ہی والدین کو بچے کی توجہ اور شفقت۔ ان دونوں کے نتیجے میں صالح تمدن کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔
مناسب ہو گا کہ اس بحث کی روشنی میں آپ اہل تشیع کے ہاں متعہ سے متعلق قوانین کا مطالعہ کر لیجیے اور خود اندازہ لگائیے کہ اوپر بیان کردہ شادی کے مقاصد کا حصول کا متعہ کے ذریعے ممکن ہے۔ یہ تفصیلات آپ کو شیخ الصدوق ابی جعفر محمد بن علی القمی (وفات 381ھ) کی کتاب من لا يحضره الفقيه میں مل جائیں گی جو کہ شیعہ فقہاء میں بہت بلند مقام کے حامل ہیں۔ متعہ سے متعلق قوانین، اس کتاب کی تیسری جلد کے ص 282 پر موجود ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ اس لنک پر دستیاب ہے۔
http://www.shiamultimedia.com/urdubooks3.html
ان قوانین کا مطالعہ کر کے یہ دیکھیے کہ کیا ایسے معاشرے میں ایک صالح تمدن قائم کرنا ممکن ہے، جہاں متعہ کی کھلی اجازت ہو؟ جب آپ ان تفصیلات کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طریق نکاح کی ممانعت فرمائی ہے۔ اب میں آپ کے سوالات کی طرف آتا ہوں۔
یہ بات سرے سے ہی غلط ہے کہ اسلام نے متعہ کو جائز قرار دیا تھا۔ اپنی اخلاقی برائی کے باعث یہ اللہ تعالی کی شریعت میں ہمیشہ سے ہی حرام تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو حکمت عملی کے تقاضوں کے تحت آپ نے پہلے دن سے ہی غیر مسلموں کے سامنے دین کا ہر ہر حکم نہیں رکھ دیا بلکہ تدریج کا طریقہ اختیار فرمایا۔ پہلے ایمان و اخلاق کی دعوت دی۔ جب ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہو گیا اور مسلمانوں کی ایک ریاست وجود میں آگئی تو وقتاً فوقتاً احکام جاری ہوتے رہے جن کے مکمل ہونے میں 23 برس لگے۔ صحیح بخاری کی مشہور حدیث ہے۔
حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا هشام بن يوسف: أن ابن جريج أخبرهم قال: وأخبرني يوسف بن مالك قال: إني عند عائشة أم المؤمنين رضي الله عنها إذ جاءها عراقي فقال: أي الكفن خير؟ قالت: ويحك وما يضرك. قال: يا أم المؤمنين أريني مصحفك، قالت: لم؟ قال: لعلي أؤلف القرآن عليه، فإنه يقرأ غير مؤلف، قالت: إنما نزل أول ما نزل منه سورة من المفصل، فيها ذكر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل أول شيء: لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر أبدا، ولو نزل: لا تزنوا، لقالوا: لا ندع الزنا أبدا، لقد نزل بمكة على محمد صلى الله عليه وسلم وإني لجارية ألعب: {بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر}. وما نزلت سورة البقرة والنساء إلا وأنا عنده، قال: فأخرجت له المصحف، فأملت عليه آي السورة.
یوسف بن مالک کہتے ہیں کہ میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا کہ ایک عراقی آیا اور کہنے لگا: کون سا کفن بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا ستیا ناس! تمہیں کیا مسئلہ ہو گیا ہے؟ وہ بولا: ام المومنین! آپ اپنا مصحف مجھے دکھائیے۔ آپ بولیں: کیوں؟
وہ کہنے لگا: تاکہ میں اپنے مصحف کی ترتیب اس کے مطابق کر لوں کیونکہ لوگ اسے (نزول سے) مختلف ترتیب میں پڑھتے ہیں۔
آپ نے فرمایا : سب سے پہلے جو سورت نازل ہوئی وہ مفصل (سورہ ق سے لے کر الناس تک کی سورتیں) میں سے ایک سورت تھی جس میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے، پھر حلال و حرام کے احکام نازل ہوئے۔ اگر شروع ہی میں یہ حکم نازل ہوتا کہ شراب نہ پیو، تو لوگ کہتے: ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔ اگر یہ نازل ہو جاتا کہ بدکاری نہ کرو تو لوگ کہتے، ہم تو کبھی بدکاری نہیں چھوڑ سکتے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے جب میں کھیلتی کودتی تھی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ بلکہ قیامت تو ان کے وعدے کے وقت ہے اور یہ ساعت بڑی ہی سخت اور کڑوی چیز ہے۔ سورہ بقرہ اور سورہ نساء اس وقت نازل ہوئیں جب میری آپ سے شادی ہو چکی تھی۔
راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد انہوں نے مصحف نکالا اور اس عراقی کو آیات کی املا کروا دی۔ (بخاری ، کتاب فضائل القرآن)
یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام نے آغاز میں اخلاقی برائیوں جیسے شراب، سود اور زنا کو جائز قرار دے دیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ دعوتی تدریج اور حکمت عملی کے باعث لوگوں کو ان کاموں سے روکنے میں سختی نہیں برتی گئی۔ اس کی بجائے ان کے دلوں میں ایمان و اخلاق کو راسخ کیا گیا اور پھر ان کاموں سے سختی سے روک دیا گیا۔ یہ سب چیزیں اسلام کے آغاز میں بھی حرام ہی تھیں، البتہ ان سے روکنے پر سختی نہیں کی جاتی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ تربیت یافتہ صحابہ شراب، سود، اور بدکاری سے متعلق آیات نازل ہونے سے پہلے ان سے اجتناب کیا کرتے تھے۔ یہ چیزیں دور جاہلیت میں بھی برائی سمجھی جاتی تھیں اور ان سے عربوں کے نیک لوگ دور ہی رہا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو صراحت سے آیا ہے کہ انہوں نے اعلان نبوت سے پہلے کبھی ان برائیوں کو اختیار نہ کیا۔
متعہ کا معاملہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچھ مختلف ہے۔ یہ نکاح اور بدکاری کے درمیان کی چیز ہے۔ اسلام نے متعہ کا آغاز نہیں کیا بلکہ یہ دور جاہلیت کی ایک رسم تھی جو کہ ان کے ہاں صدیوں سے جاری تھی۔ شروع اسلام میں اس پر سختی نہیں کی گئی۔ غزوہ خیبر کے موقع پر اس سے روکا گیا لیکن بہت شدت نہیں کی گئی۔ غزوہ حنین کے موقع پر اس کی مکمل ممانعت کر دی گئی۔ اس ضمن میں کچھ احادیث پیش خدمت ہیں۔
حدثنا مالك بن إسماعيل: حدثنا ابن عيينة: أنه سمع الزهري يقول: أخبرني الحسن بن محمد بن علي، وأخوه عبد الله، عن أبيهما: أن عليا رضي الله عنه قال لابن عباس: إن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة وعن لحوم الحمر الأهلية، زمن خيبر. (بخاری، کتاب النکاح، باب متعہ)
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے زمانے میں متعہ اور گدھے کے گوشت سے منع فرمایا۔
وحدثني سلمة بن شبيب. حدثنا الحسن بن أعين. حدثنا معقل عن ابن أبي عبلة،، عن عمر بن عبدالعزيز. قال: حدثنا الربيع بن سبرة الجهني عن أبيه ؛ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المتعة. وقال: "ألا إنها حرام من يومكم هذا إلى يوم القيامة. ومن كان أعطى شيئا فلا يأخذه". (مسلم، کتاب النکاح، باب متعہ)
سبرہ الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرمایا اور کہا: خبردار رہو! یقیناً یہ آج کے دن سے قیامت تک کے لئے حرام ہے۔ جس نے (نکاح متعہ میں موجود خاتون کو) کوئی چیز دی ہو، تو وہ اس سے واپس نہ لے۔
بعض اہل سنت علماء نے یہ غلط نظریہ پیش کیا ہے کہ متعہ پہلے جائز تھا، پھر حرام ہوا، پھر جائز ہوا اور پھر قیامت تک کے لئے حرام ہو گیا۔ یہ بات بالکل ہی غلط ہے۔ جو چیز اللہ کی شریعت میں حرام ہے، وہ ہمیشہ سے حرام تھی اور رہے گی۔ متعہ اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک غلط چیز ہے۔ وہ ہمیشہ سے غلط اور حرام تھی۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ دعوتی حکمت عملی کے تحت اس سے روکنے میں سختی نہیں کی گئی۔
ہمارے بعض تنگ نظر فقہاء چونکہ عام طور پر دعوتی حکمت عملی ٹائپ کی چیزوں کو اہمیت نہیں دیتے، اس وجہ سے وہ اسے بالکل ہی نظر انداز کرتے ہوئے ایسے ہر معاملے کو ناسخ و منسوخ کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دعوتی حکمت عملی کا مسئلہ ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کہ انہوں نے اسی حکم کو سختی سے نافذ فرما دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کسی طرح بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز کردہ کام کو حرام یا آپ کے حرام کردہ کام کو جائز کرنے کے حقدار نہ تھے۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ دور جاہلیت کی یہ رسم، ممانعت کے باوجود عرب کے بعض لوگوں میں جاری رہی۔ اس کی وجہ بالکل فطری تھی۔ اسلام نے ان لوگوں کے ذہن کو تو پوری طرح تبدیل کر دیا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست فیض یاب ہونے کا موقع ملا یا پھر انہوں نے آپ کے تربیت یافتہ صحابہ سے علم حاصل کیا۔ مگر دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اخلاقی تربیت کے لئے طویل عرصہ درکار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دور جاہلیت کی برائیوں کو ختم کرنے کے اس عمل میں مزید چالیس پچاس برس لگے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اس کا ایک مقدمہ لایا گیا تو انہوں نے سختی سے اس حکم کو نافذ کیا اور فرمایا کہ آئندہ جو ایسا کرے گا، اسے میں کوڑوں سے سزا دوں گا۔ یہ بات اللہ تعالی کے رسول اور آپ کے اصحاب پر ایک بہت بڑا بہتان ہے کہ یہ حضرات اس کی اجازت دیتے ہوں گے۔ معاملہ صرف دعوتی حکمت عملی کے تحت سختی نہ کرنے کا تھا، جس سے لوگوں نے غلط نتائج اخذ کر لیے۔
اس موضوع پر اگر آپ کے ذہن میں مزید کوئی اشکال پیدا ہو، تو بلاتکلف لکھ لیجیے گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.