حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات
بعض غیر مسلم مصنفین نے اسلام پر یہ اعتراض پیدا کیا ہے کہ اسلام مسلمانوں کو صرف مسلمان غلام آزاد کرنے کی ترغیب دلاتا ہے اور غیر مسلموں کو غلام رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ اعتراض سرے سے ہی خلاف حقیقت ہے۔ غلام، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم، اسے آزاد کر دینا اللہ تعالی کے نزدیک نیکی ہی ہے۔ امام بخاری علیہ الرحمۃ نے صحیح بخاری میں غیر مسلم غلاموں کی آزادی کا باقاعدہ ایک باب بنایا ہے اور اس میں یہ حدیث بیان کی ہے:
حدثنا عبيد بن إسماعيل: حدثنا أبو أسامة، عن هشام: أخبرني أبي: أن حكيم بن حزام رضي الله عنه أعتق في الجاهلية مائة رقبة، وحمل على مائة بعير، فلما أسلم حمل على مائة بعير، وأعتق مائة رقبة، قال: فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله، أرأيت أشياء كنت أصنعها في الجاهلية، كنت أتحنث بها؟ يعني أتبرر بها، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أسلمت على ما سلف لك من خير). (بخاری، کتاب العتق، حديث 2538)
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے اسلام سے پہلے کے زمانے میں سو غلام آزاد کئے اور ضرورت مند مسافروں کو سواری کے لئے سو اونٹ فراہم کئے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی انہوں نے سو اونٹ ضرورت مندوں کو دیے اور سو غلام آزاد کئے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے پوچھا، یا رسول اللہ! ان نیک اعمال کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو میں دور جاھلیت میں کر چکا؟ آپ نے فرمایا، جو نیکیاں تم اسلام لانے سے پہلے کر چکے ہو، وہ سب کی سب قائم رہیں گی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غیر مسلم غلاموں کو آزاد کیا کرتے تھے۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب مصنف میں غیر مسلم غلاموں کی آزادی کا باقاعدہ باب قائم کرتے ہوئے اس میں سیدنا عمر، علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے غیر مسلم غلام آزاد کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
حدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبِي هِلاَلٍ ، عَنْ أُسَّقٍ ، قَالَ : كُنْتُ مَمْلُوكًا لِعُمَرَ ، فَكَانَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ الإِسْلاَمَ وَيَقُولُ : {لاَ إكْرَاهَ فِي الدِّينِ} فَلَمَّا حُضِرَ أَعْتَقَه. (مصنف ابن ابی شيبة، باب فی عتق اليهودی و النصراني، حديث 12690)
اسق کہتے ہیں کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ وہ مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دیا کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے، دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ایک مرتبہ اسق کو ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اسق کو آزاد کر دیا۔
ہمارے خیال میں ان مصنفین کو شاید فقہ کی کتابوں میں موجود ایک بحث کی بنا پر یہ غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ بحث یہ ہے کہ مذہبی احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں بطور کفارہ غلام آزاد کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، کیا اس کی ادائیگی، غیر مسلم غلام کو آزاد کر دینے سے بھی ہو جاتی ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک خالص قانونی بحث ہے جس سے غیر مسلم غلام کو آزادی دینے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ اس بحث میں بھی ہمارے جلیل القدر فقہاء کا اختلاف ہے اور ان کا ایک بڑا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ غیر مسلم غلام کو آزاد کر دینے سے بھی ظہار کرنے، قسم توڑنے یا روزہ توڑنے کا کفارہ ادا ہو جاتا ہے۔ اس پر بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں۔
(d. 852H / 1448CE)
بن بطال فقال لا خلاف في جواز عتق المشرك تطوعا وإنما اختلفوا في عتقه عن الكفارة. (ابن حجر عسقلاني؛ فتح الباري شرح البخاري؛ كتاب العتق)
ابن بطال کہتے ہیں، بطور نیکی کے مشرک غلام کو آزاد کر دینے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اختلاف تو کفارہ میں غلام کو آزاد کر دینے سے ہے۔
اس تفصیل کے بعد یہ کہنے کی گنجائش کسی کے لئے باقی نہیں ہے کہ اسلام غیر مسلم غلاموں کی آزادی کا قائل نہیں ہے۔ اسلام نے آزادی کے معاملے کو انسانیت سے متعلق کیا ہے نہ کہ مذہب سے۔
Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.