کیا لونڈی کی اجازت کے بغیر عزل جائز ہے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

اس معاملے میں فقہاء میں ایک اختلاف یہ پیدا ہو گیا ہے کہ بیوی یا لونڈی سے ازدواجی تعلقات قائم کرتے ہوئے عزل کرنا جائز ہے یا نہیں۔ عزل کا معنی یہ ہے کہ مرد اپنے مادہ منویہ کو خاتون کے جسم سے باہر خارج کرے۔ یہ فیملی پلاننگ کا ایک طریقہ تھا جس پر قدیم دور سے عمل ہوتا چلا آ رہا تھا۔ فقہاء کے ایک گروہ نے تو اسے ہر حالت میں جائز قرار دیا ہے جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک اگر کوئی اپنی آزاد بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کر رہا ہو تو عزل صرف اسی صورت میں جائز ہے جب بیوی اس کی اجازت دے دے لیکن اگر وہ لونڈی سے ازدواجی تعلق قائم کر رہا ہے تو اس کی اجازت کے بغیر بھی عزل کر سکتا ہے۔ اس دوسرے نظریے کی کوئی بنیاد قرآن و سنت میں نہیں ملتی۔

          ان حضرات کو شاید اس بات کا خیال نہیں رہا کہ لونڈی بھی ایک انسان ہے۔ بیوی سے عزل کرنے کی اجازت لینے کا مقصد یہی ہے کہ یہ معلوم کر لیا جائے کہ ایسا کرنے سے کہیں وہ خاتون جنسی اعتبار سے ناآسودہ تو نہیں رہ گئی۔ اگر وہ ناآسودہ رہے گی تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ نکلے گا کہ وہ کسی اور طرف کا رخ کرے گی۔ بعینہ یہی معاملہ لونڈی کا ہے۔ جسمانی اعتبار سے بیوی اور لونڈی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ان میں ازدواجی تعلقات کے بارے میں اس قسم کے امتیازی سلوک کو “ظلم” کے علاوہ شاید ہی کوئی نام دیا جا سکتا ہے۔ اس ظلم کی ایک ممکنہ وجہ یہ بھی تھی کہ لونڈیوں کے آقا ان کے ہاں بچے کی پیدائش کو روک کر ان کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننا چاہتے تھے۔

          اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے لوگوں نے سوال کیا تو آپ نے اس طریق کار کو بیوی ہو یا لونڈی، ہر حال میں مطلقاً ناپسند فرمایا کیونکہ عزل کی وجہ سے خاتون کی ناآسودگی بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

عن ابی سعيد الزرقی: ان رجلاء سال رسول الله عن العزل، فقال: ان امراتی ترضع و انا اکره تحمل؟ فقال النبی، “ان ما قد قدر فی الرحم سيکون ” ۔ (نسائی، کتاب النکاح، حديث 3328)

ابو سعید الزرقی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا، “میری بیوی بچے کو دودھ پلاتی ہے اور میں اسے (تکلیف سے بچانے کے لئے حاملہ نہیں ہونے دینا چاہتا۔” آپ نے فرمایا، “اللہ نے جس جان کو ماں کے پیٹ میں بھیجنا ہے، وہ تو آ کر رہے گی۔”

اس معاملے لونڈی اور بیوی میں امتیازی سلوک کے حامی ابن ماجہ کی ایک حدیث پیش کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا الحسن بن علي الخلال. حَدَّثَنَا إسحاق بن عيسى. حَدَّثَنَا ابن لهيعة. حدثني جعفر بن ربيعة، عن الزهري، عن محرر بن أبي هُرَيْرَ، عن أبيه، عن عمر بن الخطاب؛ قَالَ:  نهى رَسُول اللَّهِ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَم أن يعزل عن الحرة إلا بإذنها. فِي الزَوَائِد: في إِسْنَاده ابن لهيعة وهو ضَعِيْف. (ابن ماجه، کتاب النکاح، حديث 1928)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آزاد خاتون سے اس کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا۔ زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی سند میں ابن لھیعۃ ہے جو کہ ضعیف راوی ہے۔

جیسا کہ خود حدیث ہی میں صراحت ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ ضعیف حدیث کے بارے میں محدثین کا یہ متفقہ اصول ہے کہ اسے کسی صحیح حدیث کے تابع کے طور پر (یعنی صحیح حدیث کی موافقت میں) تو پیش کیا جا سکتا ہے مگر اس سے کوئی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی ابن لھیعۃ ہے جو کہ ضعیف ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی “ارواء الغلیل” میں ان صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ ان کا حافظہ کمزور تھا اور ان کے پاس حدیث کا لکھا ہوا ذخیرہ جل کر ضائع ہو گیا تھا۔ عین ممکن ہے کہ حدیث میں لفظ “المراۃ (یعنی خاتون)” ہو جسے ان صاحب نے غلطی سے بدل کر “الحرۃ (یعنی آزاد خاتون)” کر دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حدیث سے کوئی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طور پر ایسا حکم جس کے نتیجے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ظلم کا شکار ہو جائے۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا لونڈی کی اجازت کے بغیر عزل جائز ہے؟
Scroll to top