کالی ماتا کا زیور اور مسز فلاں کا استعمال

بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلام علیکم مبشر بھائی

امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ ایک دوست نے یہ سوالات کے جواب پوچھے ہیں، دلیل کے ساتھ۔ ان دو سوالات کے جوابات شریعت مطہرہ کی روشنی میں درکار ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے یہاں شادی کے بعد مسلمان عورت ایک قسم کا زیور پہنتی ہے جس کو لچھا  کہا جا تا ہے۔ یہ عورت کے شادی شدہ ہونے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اور اس زیور کو کالی ماتہ کابھی زیور کہا جاتا ہے بقول ایک مولوی صاحب کے۔ ایک اور زیور ہندو عورتیں بھی پہنتیں ہیں جسے منگل سوتر کہا جاتا ہے اور یہ بھی شادی شدہ ہونے کی نشانی اور شائید شوہر کے زندہ رہنے کی بھی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ کیا مسلمان عورت کا اسطرح کا زیور استعمال کرنا جائز ہے؟

۔۔۔۔۔۔۔ شادی کے بعد عورت کا اپنے نام کے ساتھ شوہر کا نام لگانا کیا جائز ہے جیسا کہ یہ طریقہ اہل مغرب میں عام ہے؟ کہیں یہ عمل جس کو ہم نے اپنایا ہے اہل مغرب سے مشابہت تو نہیں؟ میرے مختصرعلم کے مطابق کسی صحابیہ نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شوہر کا نام نہیں لگایا (مجھے آپ صحیح کریں اگر میں غلط ہوں تو دلیل کے ساتھ) مگراسکے برخلاف ہمیں صحابیات کے ناموں کے ساتھ انکے والد کے ناموں کی کئی مثالیں مل جائیں گی جیسے  ام المومنین عائشہ صدیقہ، صفیہ بنت حئی  رضی اللہ عنہما وغیرہ وغیرہ۔

امید ہے اس سمت مدلل روشنی ڈالی جائیگی۔

خلیل احمد

دمام، سعودی عرب

ڈئیر خلیل بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کافی دن بعد بات ہوئی۔ کیا احوال ہیں؟ جوابات یہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ اس معاملے میں شریعت کا اصول یہ ہے کہ دیگر قوموں کے مذہبی شعار کا استعمال درست نہیں ہے۔ مذہبی شعار سے مراد وہ نشانیاں ہوتی ہیں جنہیں وہ قوم اپنے لیے بطور مذہبی نشان یا قومی نشان کے اختیار کر لیتی ہے۔ آپ نے جو صورتحال بتائی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم خواتین نے ہندو خواتین کا شعار منگل سوتر اختیار نہیں کیا بلکہ ایک الگ سے زیور بنا لیا ہے۔ اس میں بظاہر تو کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا تاہم اگر اس کے ساتھ کچھ مشرکانہ تصورات وابستہ ہوں تو اس سے محتاط رہنا چاہیے۔ اگر اسے واقعتاً کالی ماتا کا زیور کہا جاتا ہے تو پھر اس سے لازماً اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ ایک شرکیہ تصور اس کے ساتھ وابستہ ہو گیا ہے۔ ظاہرہے کہ کالی ماتا ہندوؤں کی ایک عظیم دیوی کا نام ہے اور اگر ان کے ساتھ کوئی چیز منسوب ہو گی تو وہ ہندو مذہب کا شعار کہلائے گی۔ اس بات کی تحقیق البتہ کر لینی چاہیے کہ یہ بات درست ہے یا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات درست ہے کہ شوہر کا نام ساتھ لگانا عربوں کی روایت نہیں ہے اور اس کا اسلام سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ صحابیات کے ہاں شوہر کا نام نہ لگانے کی وجہ یہ ہے کہ عربوں میں ایسا رواج نہ تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ دور جاہلیت میں خواتین شوہر کا نام لگاتی تھیں اور اسلام نے آ کر اسے تبدیل کر دیا۔ عربوں کے ہاں اہمیت اس بات کی تھی کہ کسی کا باپ کون ہے؟ اس وجہ سے ان کے ہاں نام میں ہمیشہ باپ کا نام لگایا جاتا تھا۔

اہل مغرب کے ہاں بھی یہ کوئی دینی شعار نہیں ہے بلکہ محض ایک رسم ہے۔ اس کا ان کے مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں اگر کوئی خاتون اسے اختیار کر لیتی ہے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر نہیں کرتی تو بھی ٹھیک ہے۔ دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ دین وہاں مداخلت کرتا ہے جہاں کوئی اخلاقی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

ڈئیر مبشر بھائی

السلام علیکم، میں اللہ کے کرم سے ٹھیک ہوں اور آپ کے بارے میں بھی یہی امید رکھتا ہوں۔ کاموں کی مصرو فیت کی وجہ سے کافی دنوں بعد رابطہ ہوا۔ آپ کے جوابات کے لیے جزاک اللہ خیر۔

قرآن و حدیث میں واضح طور پر ہمیں اس تعلق (مسز فلاں کہنا) سے ممانعت کا حکم  نہ ملتا ہو مگر چونکہ صحابیات کا اپنے ناموں کے ساتھ ان کے والد کا نام لگانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و صلم کی مو جودگی میں تھا اور اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و صلم کی ممانعت کا بھی ثبوت نہیں ہے تو کیا یہ سنت تقریری ہے؟ ویسے ما انا علیہ و ا صحابہ کی رو سے بھی سنت میں داخل ہے؟

یہ عرب کا کلچر ہی سہی مگر کیا مندرجہ بالا صورتوں کی بنیاد پر سنت بن جائے گا؟ ویسے مغربی چھاپ نے ایسے قدم جمائے ہیں کہ عورت شادی کے بعد اپنے نام سے محروم ہوکر صرف مسز لیاقت، مسز امجد، مسزعبداللہ باقی رہ گئی ہے۔

امید ہے مزید وضاحت فرمائیں گے۔

جزاک اللہ خیرا

ڈئیر خلیل بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

سنت تقریری بننے کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل بھی دینی نوعیت کا ہو اور صحابہ کرام بھی اس عمل کو دین کے حکم کی حیثیت سے کر رہے ہوں۔  خواتین کے نام کا معاملہ دینی نوعیت کا نہیں۔ یہ اسی قسم کی چیز ہے جیسے عرب میں مثلاً تہبند اور کرتے کا رواج تھا، وہ لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے، اونٹنی کا دودھ اور کھجور ان کی مرغوب غذا تھی وغیرہ وغیرہ۔ احادیث کے پورے ذخیرے پر نگاہ ڈالیے تو کہیں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان امور کو نہ تو دین کی حیثیت سے بیان فرمایا اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض کلچرل امور تھے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کسی سرد خطے مثلاً سائبریا وغیرہ میں ہو جاتی تو آپ ظاہر ہے کہ وہی معاملات کرتے جو وہاں کا رواج تھا۔ اس صورت میں شاید بعض لوگ  برف باری میں پہنے جانے والے لباس اور رینڈیر پر سواری کو سنت قرار دے رہے ہوتے۔

اس وجہ سے ہمیں کلچرل اور دینی معاملات میں فرق کرنا چاہیے۔ ہاں کلچرل معاملات میں جہاں کوئی اخلاقی خرابی پائی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی اصلاح فرما دی۔ جیسے عربوں کے کلچر میں منہ بولے بیٹے کا معاملہ حقیقی اولاد جیسا سمجھا جاتا تھا جس سے حقیقی اولاد کی حق تلفی ہوتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے شادی کر کے اس رسم کو ختم کیا۔ یہی معاملہ سودی معیشت، غلامی اور دیگر امور میں اختیار فرمایا۔ اگر خواتین یہ محسوس کریں کہ مغربی تہذیب نے انہیں کی اپنی شناخت سے محروم کر کے محض شوہر کی شناخت عطا کر دی ہے، تو وہ اس طریقے سے اپنا نام نہ لیں۔ اسلام انہیں ہرگز اس سے روکتا نہیں ہے اور نہ ہی اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ شوہر کی نسبت سے اپنا نام رکھیں۔

امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو گئی ہو گی۔ اگر اور کوئی سوال پیدا ہو تو بلا تکلف لکھیے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کالی ماتا کا زیور اور مسز فلاں کا استعمال
Scroll to top