کیا آپ کو اپنے اساتذہ کی ہر بات سے اتفاق ہے؟

السلام علیکم

آپ کے اساتذہ کون ہیں، کس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں  اور کیا آپ ان کی ہر رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟

ایک بھائی

محترم بھائی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ

جن اساتذہ سے میں نے باقاعدہ طور پر دینی علوم کی تعلیم لی ہے، وہ یہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر  خالد ظہیر صاحب یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں اسلامک اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ہیں۔  ایم بی اے کے دوران پنجاب یونیورسٹی میں  ہم نے ان سے اسلامی معاشیات کے ابواب پڑھے تھے۔  اس موضوع پر انہیں غیر معمولی دسترس حاصل ہے اور انہوں نے اسی مضمون میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔  خالد صاحب خود کو کسی خاص مسلک سے وابستہ نہیں سمجھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ مفتی محمد عبداللطیف نقشبندی جامعہ نعیمیہ لاہور میں شیخ الحدیث ہیں۔ ان سے صرف و نحو، تفسیر، حدیث اور فقہ کی بعض کتب پڑھنے کا شرف مجھے حاصل ہوا ہے۔  ان کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے۔

۔۔۔۔۔۔ مفتی غلام محمد شرقپوری صاحب ہیں جو بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔  ان کا لاہور شرقپور روڈ پر اپنا مدرسہ ہے۔ ان سے میں نے منطق، فقہ ، علم المعانی اور وراثت سے متعلق درس نظامی کی کتب پڑھی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ حافظ محمد عزیر شمس صاحب  کا تعلق سلفی مکتب فکر سے ہے۔  انہوں نے جامعہ سلفیہ بنارس سے درس نظامی اور ام القری  یونیورسٹی  مکہ مکرمہ  سے ایم فل کیا ہوا ہے۔ آپ مکہ مکرمہ میں ایک تحقیقی ادارے سے وابستہ ہیں اور قدیم مخطوطات پر تحقیق کرتے ہیں۔  انہوں نے ابن تیمیہ کی متعدد کتب کو ایڈٹ کر کے شائع کیا ہے۔ ان سے میں نے حدیث ، اصول حدیث، اصول فقہ اور عربی ادب کی بعض کتب پڑھی ہیں۔

Ibn Taimiyah 661-728H/1263-1327CE

ایک بات واضح کرتا چلوں کہ استاذ شاگرد کے رشتے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شاگرد اپنے استاذ کی ہر ہر بات سے لازماً اتفاق رائے کرے۔  ہمارے ہاں یہ غلط تصور موجود ہے کہ شاگرد استاذ کا فکری غلام بن کر رہے اور اپنے استاذ کی ہر ہر بات سے اتفاق کرے خواہ اس کی عقل اس بات کو تسلیم کرے یا نہ کرے۔ علم کی دنیا کا اصول یہ ہے کہ ایک طالب علم مختلف ماہرین فن سے  ان کے علوم حاصل کرے، ان کا موازنہ کرے اور پھر اپنے ذہن کو استعمال کرتے ہوئے اس علم میں اضافہ کرے۔اس میں نہ تو استاذ کی کوئی بے ادبی ہے اور نہ شاگرد کی ناخلفی۔  ان تمام اساتذہ کا میں بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ہر معاملے میں ان کی رائے سے اتفاق کروں۔ بعض مسائل میں ان میں سے ہر ایک کی کچھ علمی آراء سے مجھے اختلاف ہے مگر اس کے باوجود ان کے لیے میرے دل میں وہی محبت و عقیدت موجود ہے جو کسی بھی شاگرد کو اپنے استاذ سے ہو سکتی ہے۔

ہمارے قدیم اہل علم ایسا ہی کرتے تھے مثلاً  امام ابو حنیفہ کے دونوں شاگردوں ابو یوسف اور محمد بن حسن شیبانی  نے ان سے 85% اجتہادی مسائل  میں اختلاف رائے کیا۔  امام شافعی  نے امام مالک اور امام محمد بن حسن کی شاگردی اختیار کی  اور دونوں کے نقطہ ہائے نظر کا تقابلی مطالعہ کر کے اپنے ذہن کو استعمال کرتے ہوئے اپنی فقہ مرتب کی۔ وہ ان میں سے کسی بزرگ کے فکری غلام نہ بنے۔ اسی طرح پھر ان کے شاگردوں اور شاگردوں کے شاگردوں نے اپنی اپنی فقہ مرتب کیں جن میں احمد بن حنبل، داؤد ظاہری اور ابن جریر طبری جیسے اہل علم موجود ہیں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Abu Hanifa (80-150H/699-767CE)

Abu Yusuf (113-182H/731-798CE)

Muhammad Ibn Hassan (131-189H/748-805CE)

Shaf’ee (150-204H/767-819CE)

Malik (93-179H/711-795CE)

Ahmed Ibn Hanbal (164-241H/780-855CE)

Dawood Zahri (200-270H/815-883CE)

Ibn Jareer (224-310H/838-923CE)

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

https://mubashirnazir.org/islamic-studies-urdu/

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا آپ کو اپنے اساتذہ کی ہر بات سے اتفاق ہے؟
Scroll to top