اسلام نے پرائیویٹ جنگجو تنظیمیں بنانے سے منع کیوں فرمایا ہے؟

سوال: السلام علیکم ۔ اس ویڈیو پر آپ کے تاثرات درکا ر ہیں: کیا یہ دہشت گرد نہیں ہیں؟

http://www.youtube.com/watch?v=ohhYYyVSZ7A

والسلام، ایک بھائی

مئی 2010

(نوٹ: یہ ویڈیو افغانستان اور پاکستان کے عسکریت پسندوں کی جانب سے ریلیز کی گئی تھی جس میں انہوں نے افواج پاکستان کے خلاف جنگ کی ترغیب دی تھی۔)

وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

جب دو فریقوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے تو محاذ جنگ کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر نظریاتی جنگ بھی لڑی جاتی ہے۔ افغانستان میں امریکہ  اور افغانی طالبان اور پاکستان میں پاکستانی فوج اور پاکستانی طالبان کے درمیان جو جنگ جاری ہے، آپ نے جس ویڈیو کا لنک بھیجا ہے ، یہ بھی اسی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

ہمارے ہاں یہ تصور عام کیا جاتا ہے کہ یہ جنگ اسلام اور کفر کی جنگ ہے اور لڑنے والے اسلام کا دفاع کر رہے ہیں۔ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ یہ جنگ محض مفادات کی جنگ ہے۔ ہمارے اس خطے کی خصوصی لوکیشن اور وسائل کے باعث اس میں امریکہ اور دوسری سپر پاورز کے سیاسی و معاشی مفادات ہیں۔ امریکی و یورپی حکومتیں مذہبی نہیں بلکہ خالص سیکولر دنیا دار ہیں۔ آپ جہاد کی تفصیلات سورۃ الانفال 8 میں پڑھ سکتے ہیں۔

سورۃ الانفال 8 ۔۔۔ جہاد کے اصول

Policies about Jihad in War

آیات 41-64: مال غنیمت کی پالیسی اور جہاد کے دوران تعمیر شخصیت اور اخلاقی احکامات

یہ لوگ اپنے مفادات کا حصول چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے یہ بساط بچھائی ہے۔ اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہزاروں بے گناہ بچوں، خواتین، مردوں اور بوڑھوں کو قتل یا معذور کر دینا ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ بات ان کے طرز عمل سے ظاہر ہے۔ ان کی اس کوشش کو دہشت گردی کے سوا شاید ہی کوئی نام دیا جا سکے۔ یہ لوگ انسانیت کے مجرم ہیں اور اللہ تعالی کے حضور اپنے ان جرائم کی سزا انہیں بھگتنا ہو گی۔ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ لوگ مذہبی آزادی، انسانی حقوق اور جمہوریت کے تصورات کا سہارا لیتے ہیں مگر حقیقتاً یہ لوگ ان اعلی تصورات سے مخلص نہیں ہیں۔

دوسری جانب مخالف فریق کا معاملہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے اپنے سیاسی و معاشی مفادات ہیں جن کے لئے یہ اپنے خطوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خود اپنے معاشروں کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مسجدوں میں دھماکوں سے لے کر عام لوگوں کو نشانہ بنانے تک کے ہر جرم کو یہ خود بڑے فخر سے قبول کرتے ہیں۔ جیسے سپر پاورز کی حکومتیں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے انسانی حقوق اور جمہوریت کا نام لیتی ہیں ویسے ہی اپنے ان گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ لوگ اسلام اور جہاد کا مقدس نام استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے میرے نزدیک دونوں فریقوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور دونوں ہی دہشت گرد ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قیامت کے دن یہ دوسرا فریق بھی پہلے فریق کے ساتھ ہی کھڑا ہو ا ہو گا اور خود کش حملوں میں شہید ہونے والے عام لوگوں کا ہاتھ ان دونوں کے گریبان پر ہو گا۔

اگر یہ فریقین اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے جنگلوں ، پہاڑوں یا خلا میں لڑتے تو ہمیں ان سے کوئی سروکار نہ تھا مگر انہوں نے اس جنگ کا میدان ہمارے شہروں اور دیہات کو بنا لیا ہے جس کے باعث ہاتھیوں کی اس لڑائی میں نقصان گھاس پھوس کا ہو رہا ہے۔

ممکن ہے کہ آپ کو میری رائے سے اختلاف ہو۔ آپ کو اس کا حق حاصل ہے۔ صورتحال کو سمجھنے کے لئے آپ کی خدمت میں ایک تجویز پیش کرتا ہوں۔ اس سے بات واضح ہو جائے گی۔

ذرا دیر کے لئے تصور کیجیے کہ آپ عسکریت پسندوں کی کسی تنظیم کے سربراہ ہیں اور نیٹو افواج کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آپ کو کیا کیا چیلنج درکار ہوں گے؟ آپ نے عسکری تنظیم کا نیٹ ورک چلانا ہے۔ ایک پستول کی قیمت بھی ہزاروں میں ہوتی ہے۔  کجا یہ کہ ایک پوری تنظیم کے لئے اسلحے کا انتظام کیا جائے۔ اس جنگ کے لئے درکار اسلحہ کہاں سے آئے گا؟ عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد آپ کے تحت کام کرتی ہے۔ ان سب کو خوراک کی ضرورت ہے۔ وہ کہاں سے آئے گی۔ گولہ بارود وغیرہ درکار ہو گا۔ اس کی فراہمی کون کرے گا؟

ان تمام چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے آپ کو لازماً دولت کی ضرورت ہو گی۔ دنیا بھر میں آج کل اس مقصد کے لئے چندہ جمع کرنے پر پابندی ہے۔ ویسے بھی چندوں کے ذریعے اتنی رقم جمع نہیں ہو سکتی کہ اس سے جنگ جاری رکھی جا سکے۔ لازمی طور پر رقم کے حصول کے دو راستے ہیں: یا تو جرائم کی راہ اپنائی جائے۔ جیسے لوگوں کو اغوا کر کے ان سے تاوان وصول کیا جائے اور منشیات کی اسمگلنگ کی جائے۔ یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ کسی مخالف بڑی طاقت سے رابطہ کر کے اس سے مدد لی جائے۔ یہ بڑی طاقت مفت میں تو پیسہ اور اسلحہ دینے سے رہی۔ اس کے اپنے مفادات ہوں گے۔ عسکریت پسند تنظیم کی مدد کے بدلے وہ اپنے مفادات حاصل کرے گی۔

جب عسکریت پسند تنظیم کے پاس پیسہ آئے گا تو وہ اس کے بدلے اسلحہ خریدے گی۔ یہ اسلحہ کہاں سے دستیاب ہو گا؟ اس کے حصول کا واحد راستہ اسمگلروں کی تنظیمیں ہوں گی۔ عسکریت پسند تنظیم کو یہ اسلحہ پیسہ دے کر خریدنا پڑے گا جس کے نتیجے میں اسمگلنگ کا نیٹ ورک مضبوط ہو گا اور جرائم کی پرورش ہو گی۔

اس مثال سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پرائیویٹ عسکری تنظیمیں قائم کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی علاقے کا جائزہ لے لیجیے جہاں پرائیویٹ عسکری تنظیمیں قائم ہوئی ہوں جیسے صومالیہ، سوڈان، فلسطین، سری لنکا، شمال مشرقی اور شمال مغربی بھارت، آئر لینڈ، پاکستان، افغانستان اور عراق وغیرہ۔ ہمیں ان میں سے ہر علاقے میں جرائم کے نیٹ ورک مضبوط نظر آئیں گے۔

جب کسی معاشرے میں عسکریت پسندی عام ہوتی ہے تو پھر ہر عالمی طاقت اس پوزیشن میں آ جاتی ہے کہ وہ مختلف گروہوں کو اسلحہ اور پیسہ دے کر اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر سکے۔ اس طرح جرائم کے نیٹ ورکس مضبوط ہوتے ہیں ۔ یہ تنظیمیں مختلف طاقتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آپس میں جنگ کرتی  ہیں ۔ خانہ جنگی ہوتی ہے۔ معیشت تباہ ہوتی ہے اور معاشرہ تباہی کا شکار ہو جاتا ہے۔ 

یہی وہ نتائج ہیں جن کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ سے پہلے کے انبیاء کرام علیہم السلام نے حکومت ملنے سے قبل کوئی جہادی تنظیم قائم نہ فرمائی تھی۔ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام فرعون سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کرتے رہے۔ انہوں نے فرعون کے خلاف کوئی عسکری اقدام نہ فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورے پندرہ برس مشرکین کے ہر ظلم کو سہا مگر اس کے خلاف تلوار نہ اٹھائی۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔

حدثنا إبراهيم عن مسلم. حدثني زهير بن حرب. حدثنا شبابة. حدثني ورقاء عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة،  عن النبي صلى الله عليه وسلم. قال (إنما الإمام جنة. يقاتل من ورائه. ويتقى به. فإن أمر بتقوى الله عز وجل وعدل، كان له بذلك أجر. وإن يأمر بغيره، كان عليه منه). (صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث 1841)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً حکمران ڈھال ہے۔ اس کے پیچھے رہ کر ہی جنگ کی جاتی ہے اور اسی کے ذریعے حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر وہ اللہ عزوجل سے ڈرنے اور عدل کا حکم دے، تو اس کے لئے اس کا اجر ہو گا۔ اگر وہ اس کے علاوہ حکم دے، تو اس کا وبال اسی پر ہو گا۔

اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں آپ جائزہ لے سکتے ہیں کہ عسکریت پسندی کے کیا نتائج کسی معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کار کے برعکس عسکریت پسندی کا طریقہ اختیار کیا، جس کی سزا اب ہمیں بے گھر ہونے، گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتے ہوئے جرائم کی صورت میں بھگتنی پڑ رہی ہے۔

امید ہے کہ میرا نقطہ نظر واضح ہو گیا ہو گا۔

دعاؤں کی درخواست ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

اسلام نے پرائیویٹ جنگجو تنظیمیں بنانے سے منع کیوں فرمایا ہے؟
Scroll to top