میرا نام علی ھے۔ میں نے حال ھی میں آپ کی سائیٹ دیکھی اور بہت پسند آئی۔ آپ ہی کی طرح کی اور آپ ھی جیسے ایک اور بھائی منہاج حسین ہیں۔ ان کی سائیٹ www.grandestrategy.com ہے۔ وہ بھی آپ اور دوسرے کئی مسلمانوں کی طرح اسلام کی سربلندی کے خواہاں ہیں اور انہیں آپ جیسے بندے کی ضرورت ہے۔
اگر ہم لوگ مل جل کر کام کریں اور ایک دوسرے کا ساتھ دیں تو اسی میں ہماری کامیابی کا راز ہے۔
جواب ضرور دیجیے گا۔
ڈئیر علی بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے تاثرات کا بہت بہت شکریہ۔ میں پچھلے ایک ماہ سے مسلسل سفر میں تھا اور انٹرنیٹ ایکسس نہ کر سکتا تھا، اس وجہ سے آپ کو جلد جواب نہ دے سکا، جس کے لئے معذرت۔ آپ کا تفصیلی تعارف ہو جائے تو بہت اچھا ہو گا۔
اللہ تعالی آپ کو اور منہاج بھائی کو اپنے دین کی خدمت کی توفیق دے۔ ان کی سائٹ ماشاء اللہ اچھی ہے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور فرمائیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
السلام علیکم
مبشر بھائی میرا پورا نام محمد علی ھے۔راولپنڈی میں رھتا ھوں۔ابھی ابھی بی ایس سی انجنیئرنگ مکمل کی ھے۔ مجھے مسلمانوں کی حالت دیکھ کر سخت دکھ اور افسوس ھوتا ھے۔آپ جیسے لوگ جو انھیں متحد کرنے کی کوشش کر رھے ھیں،ان کا ساتھ دینے کی کوشش کرتا ھوں۔ شکر ھے آپ نے جواب دے دیا۔ میں کچھ مایوس سا ہو گیا تھا۔
آپ نے جو اپنی سائیٹ پر اردو استعمال کی ھوئی ھے، وہ بھی کافی اچھا قدم ھے۔ اپنا خیال رکھیے گا اور منھاج بھائی اور ان جیسے دوسرے لوگوں سے جو دل میں مسلمانوں کا درد رکھتے ھیں،ان سے مل جل کر کام کرنے کی کوشش کریں۔
السلام علیکم
علی
ڈئیر علی بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
آپ کی میل اور تاثرات کا بہت شکریہ۔ میرے نزدیک امت مسلمہ کا اصل مسئلہ صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اخلاقی وجود کی تعمیر۔ دنیا میں ہماری عزت و عظمت اسی صورت میں قائم ہو سکتی ہے اگر ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اچھے انسان بن جائیں۔ غیر مسلموں پر ہمارا تاثر یہ ہو کہ صحیح معنوں میں اگر کوئی دیانتدار، مثبت سوچ کی حامل اور اعلی کردار رکھنے والی قوم دنیا میں موجود ہے تو وہ مسلمان ہیں۔ اسی کی کوشش ہمیں جاری رکھنی چاہیے۔ یہ مقصد حاصل کیے بغیر نہ تو ہمیں عزت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی کچھ اور۔
اگر ہم تاریخ عالم کا جائزہ لیں تو صرف دو ہی عوامل ہمیں نظر آتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں۔ ایک علم اور دوسرا اخلاق۔ جو قوم علمی اعتبار سے اپنی معاصر قوموں سے بہتر مقام پر موجود ہوتی ہے، اور اخلاقی اعتبار سے دوسری قوموں پر فائق ہوتی ہے، وہ ایک عظیم مقام اور مرتبہ پا لیتی ہے۔ مثلاً قرون اولی کے مسلمان اپنی معاصر اقوام کی نسبت علم کے زیادہ شائق تھے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی کوئی علمی کام ہوتا تھا، مسلمان فوراً اسے عربی میں ترجمہ کر کے حاصل کر لیا کرتے تھے۔ دوسری جانب ان کی اخلاقی حالت یہ تھی کہ بقول سر تھامس آرنلڈ عیسائیوں کے اچھے لوگ رومن ایمپائر کو چھوڑ کر مسلمانوں کی حمایت کیا کرتے تھے۔ جب علم و اخلاق کے میدانوں میں ہم پیچھے رہ گئے تو ہمارا زوال آ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم میں ہمیں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتا تھا۔ اس وجہ سے ہمیں یہی کوشش کرنی چاہیے کہ ان دونوں میدانوں میں اپنی تعمیر کریں۔
دعاؤں کی درخواست ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.