السلام علیکم
لے پالک بچہ پالنا کیا جائز ہے اور بالغ ہونے پر وہ کیا اپنے منہ بولی ماں اور بہنوں کے لیے نامحرم ہو گا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کتنی تھی اور کن ازواج مطہرات سے تھی؟ کیا آپ کے بھی منہ بولے بیٹے تھے اور ازواج مطہرات ان سے پردہ کرتی تھیں؟
جواد عاصم
کراچی، پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جواد بھائی
لے پالک بچہ پالا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید نے اس میں شرط صرف یہ عائد کی ہے کہ اس بچے کو اس کے حقیقی والدین کا بتا دیا جائے اور کسی کا نسب تبدیل نہ کیا جائے۔ ایسی ماں بچے کے سامنے ویسے ہی باحیا رہے گی جیسا کہ وہ اپنے بیٹوں کے سامنے رہتی ہے۔ بہنیں بھی اسی طرح باحیا رہیں گی جیسا کہ وہ اپنے حقیقی بھائیوں کے سامنے رہتی ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے چھ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ہوئے اور ایک بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ، سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا سے۔ سبھی بیٹے بچپن میں فوت ہوئے جبکہ سبھی بیٹیاں زندہ رہیں اور انہوں نے دین کی خاطر بہت قربانیاں دیں۔ آپ کے منہ بولے بیٹے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ازواج مطہرات بہرحال ان کے سامنے بھی باحیا انداز ہی میں آتی تھیں۔ یہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب میں آیا ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسی ٹاپک سے متعلق ایک اور سوال ہے۔ ہمارے جاننے والوں کے ہاں اولاد نہیں تھی، انہوں نے ایک نومولود بچے کو اڈاپٹ کر لیا۔ اس بات کو چھ ماہ ہو گئے ہیں لیکن وہ خاتون یہ کہتی پھرتی ہیں کہ یہ ان کا اپنا بچہ ہے۔ اس کے لیے انہوں نے باقاعدہ ڈرامہ کیا اور جو کچھ بچے کی ولادت پر کیا جاتا ہے، وہ کیا۔ اب آگے چل کر اس بچے کو ولدیت کی ضرورت ہو گی تو کس کا نام لکھا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
عجیب سا کیس ہے۔ انہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی؟ قرآن مجید سے یہ واضح ہے کہ ہر بچے کو اس کے حقیقی باپ اور ماں ہی کی نسبت سے پکارا جانا چاہیے۔ سورۃ الاحزاب کے شروع میں دیکھ لیجیے۔ اس وجہ سے یہ پورا ڈرامہ ایک غلط عمل ہے اور خاندان والوں کو اس کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ پردہ پوشی کا حکم ان معاملات میں ہے جہاں کسی کا ذاتی نوعیت کا گناہ ہو۔ یہ تو حقوق العباد کا معاملہ ہے اور یہاں پردہ پوشی جائز نہیں ہے۔اس معاملے میں ایک اور بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ وہ بچہ جب بڑا ہو گا اور اسے کسی اور سے ساری بات کا علم ہو گا تو اس کے دل میں ان منہ بولے والدین کی کیا عزت رہے گی؟ ہو سکتا ہے کہ وہ نفسیاتی مریض بن جائے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ حکم دیا ہے کہ بچے کو اس کے حقیقی والدین کا بتا دینا چاہیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.
Quranic Studies – English Lectures