السلام علیکم سر
آج پہلی مرتبہ آپ کی ویب سائٹ پڑھنے کا موقع ملا ہے، ابھی تک تمام باتیں بہت اپیلنگ ہیں، آگے پڑھنے سے پہلے ایک سوال ذہن میں ہے، جو پوچھنا چاہتا ہے۔ میں اپنے اندر دین کے لیے محبت محسوس نہیں کرتا۔ زبانی کلامی بہت کچھ مگر دل میں احساس نہیں ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ میرا نفس برائی کی طرف زیادہ کھنچتا ہے۔ میں اچھا انسان بننا چاہتا ہوں مگر سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے شروع کروں۔ کیا کروں نماز ہی کافی نہیں ، اپنے اخلاق کو کیسے بہترین کیا جائے، کیسے اپنے نفس کو مار کے بھی میں سکون محسوس کر پاؤں گا؟؟؟؟
اس سے پہلے کبھی آپ سے رابطہ نہیں کیا، اس لیے نہیں جانتا کہ سوال جواب کا کیا طریقہ ہے، پھر بھی اللہ پاک سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو ہر دم اپنی امان میں رکھے ۔ آپ کو مجھ کو اور ہمارے تمام دنیا میں مسلمانوں بھائیوں کو دین پر چلنے میں مدد عطا کرے۔ آمین۔ خوش رہیے، اللہ حافظ۔
ایک بھائی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی ای میل سے بہت خوشی ہوئی۔ اگر آپ تفصیلی تعارف کروا دیتے تو بہت اچھا ہوتا۔ آپ کے تاثرات اور نیک تمناؤں کا بھی بہت بہت شکریہ۔
آپ کے ذہن میں جو یہ احساس ہے کہ آپ دین پر عمل کرنا چاہتے ہیں، یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے اندر نیکی کا جذبہ موجود ہے اور آپ نیکی کے لیے کشش رکھتے ہیں۔ ہر انسان میں نیکی اور برائی دونوں کے لیے کشش موجود ہوتی ہے اور یہی ہمارا امتحان ہے کہ ہم نیکی کے اس جذبے کو پروان چڑھائیں اور اس کی بات پر کان دھریں۔ برائی میں کشش کے باعث ایسا ضرور ہو گا کہ ہم ہو سکتا ہے کہ ہم بار بار اس کی طرف مائل ہوں لیکن اس صورت میں ہمارے لیے حکم یہ ہے کہ جیسے ہی جذبات کا سمندر کچھ کنٹرول میں آئے تو فوراً اللہ تعالی کے حضور توبہ کر کے اپنی برائیوں کو مٹا دیں۔ اللہ تعالی توبہ کرنے والے سے بہت خوش ہوتا ہے۔
اپنے گرد و نواح پر نظر ڈالیے۔ اگر آپ کے ارد گرد کچھ ایسے دوست موجود ہیں جو برائیوں کی طرف آپ کو مائل کرتے ہیں تو ان سے دوستی توڑ کر ایسے لوگوں سے دوستی کا تعلق پیدا کیجیے جو آپ کو نیکی کی طرف مائل کریں۔ اسی طرح اگر کوئی اور ایسی چیزیں ہیں جو برائی کی طرف مائل کرتی ہوں جیسے میڈیا کے کچھ پروگرام وغیرہ تو ان سے ممکن حد تک اجتناب کیجیے۔ انشاء اللہ آپ محسوس کریں گے کہ آپ کا دل نیکی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔
رابطے میں رہیے اور دعاؤں میں یاد رکھیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
السلام علیکم۔ جواب اتنی جلدی ملنے کا امکان نہیں تھا۔ بہت بہت شکریہ ۔ میں یو کے میں عارضی طور پر رہ رہا ہوں۔ آپ سے بات کر کے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ کیونکہ بہت عرصے سے میں کسی ایسے انسان کی تلاش میں تھا جو مجھے میرے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کا اطمینان بخش جواب دے سکے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس میں میری کچھ مدد لازمی کریں گے۔
بھائی! سب سے پہلے میں کچھ کتابیں پڑھنا چاہتا ہوں تفصیلی طور پر۔ میں نے جب بھی کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کی ہے، اس میں فرقہ واریت کا عنصر پایا ہے جس سے میرا جی اس میں نہیں لگ پایا۔ کتابوں سے مراد وہ ہیں جن سے میں قرآن اور حدیث کا علم جان سکوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے پاس مستند کتب کی لسٹ ہو گی۔ مگر پلیز کسی بھی ایک مسلک پر ہی زور دینے والی کتب سے اجتناب کر رہا ہوں فی الوقت۔ کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ فرقہ واریت میں نفرت کے علاوہ کچھ نہیں سیکھ پاؤں گا۔ اسی لیے میری گزارش ہے کہ اس معاملے میں میری مدد کیجیے۔ اللہ پاک آپ کو اور آپ کے اہل و عیال کو ہمیشہ خوش رکھے۔ آمین۔
آپ کے جواب کا منتظر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی میل سے بہت خوشی ہوئی کہ آپ فرقہ واریت سے نالاں ہیں۔ میرا بھی یہی حال ہے اور میں اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔
ویسے تو بے شمار اچھی دینی کتب دستیاب ہیں اور آپ ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ بس جو کتاب بھی اچھی لگے، اس کا مطالعہ شروع کر لیجیے اور اپنے ذہن کو کھلا رکھیے۔ کسی بھی مصنف کی کوئی بات اس وقت تک نہ مانیے جب تک آپ کا ذہن اسے قبول نہ کرے۔ اختلافی امور میں دونوں فریقوں کا نقطہ نظر پڑھ کر ہی کوئی رائے قائم کیجیے۔
میری ناچیز کتب بھی اگر پسند آئیں تو آپ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ سب ویب سائٹ کے مین پیج پر دستیاب ہیں۔
اگر آپ دینی علوم کا باقاعدہ مطالعہ کرنے کا شوق رکھتے ہوں تو حال ہی میں یہ سلسلہ بھی شروع کیا ہے۔ اس میں باقاعدہ کورسز بنا کر ان کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی تفصیلات آپ اس لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔ تعارف کا لنک شروع ہی میں ہے، اسے ڈاؤن لوڈ کر کے پڑھ لیجیے اور اگر دلچسپی محسوس ہو تو بتائیے۔
دعاؤں کی درخواست ہے۔
السلام علیکم۔ کیسے ہیں آپ مبشر بھائی۔ میرے کچھ سوالات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میں یو کے میں مقیم ہوں اور ہمارے بہت سے مسلمان بھائی غیر قانونی طور پر یہاں ہیں جو ایجنٹوں کو کچھ رقم دے کر یہاں آئے ہیں۔ بہت سے ایسے اسٹوڈنٹس ہیں جو یہاں اسٹڈی کی غرض سے آتے ہیں اور مجبوراً نوکری وغیرہ کرتے ہیں۔ میرا سوال ہے کہ کیا ہماری کمائی حلال ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔ یہاں زیادہ تر لوگ دین سے ناواقف ہیں۔ میرا ایک قریبی دوست ہے جو شراب نوشی کرتا ہے اور نائٹ کلبوں میں جاتا ہے۔ میں اسے سمجھانے کی بہت کوشش کرتا ہوں۔ پہلے سختی کی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پچھلے دنوں اس نے ایک دفعہ نماز بھی پڑھی مگر کل رات پھر وہ کلب میں ڈرنک کر رہا تھا جس پر ناراض ہو کر میں نے کہہ دیا کہ اب کبھی وہ ڈرنک کرے تو مجھے سے ایک ہفتے تک بات نہ کرے۔ پچھلے چھ ماہ سے سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے آپ بتائیے کہ کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ماشاء اللہ آپ کا جذبہ قابل قدر ہے۔ اللہ تعالی قبول فرمائے۔آپ کے سوالات کے جواب یہ ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔ غیر قانونی کام کرنا ویسے ہی غلط ہے اور اس سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہیے۔ ایسا کر کے ہم اسلام اور اپنے ملک کو بدنام کرتے ہیں۔ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ قانونی طریقے سے ہم دوسرے ممالک چلے جائیں۔ اگر انگلینڈ کے قوانین سخت ہوں تو خلیجی ممالک آ جائیں اور اگر یہاں بھی مشکل ہو تو وہی رقم جو ایجنٹ کو دینی ہے، اس سے کوئی چھوٹا موٹا کاروبار پاکستان میں کر لیا جائے۔
رہا یہ سوال کہ اس صورت میں روزی حرام ہوتی ہے یا نہیں تو اس معاملے میں میرا موقف یہ ہے کہ روزی تو حلال ہی رہتی ہے اگر وہ حلال کام کر کے کمائی ہو البتہ غیر قانونی کام کرنا ایک غلط عمل ہے۔ شدید مجبوری کی صورت میں امید ہے کہ اللہ تعالی رحم فرمائے گا۔ کس شخص کو شدید مجبوری لاحق ہے اور کسے نہیں، اس کا فیصلہ وہ خود ہی کر سکتا ہے۔ پھر بھی ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ ہم قانون کے دائرے میں ہی رہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم ان ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں کی حکومت سے معاہدہ کرتے ہیں کہ ان کے قواعد و ضوابط کی ہم پابندی کریں گے۔ دین نے ہمیں اپنے تمام معاہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ہم اپنی کوشش کریں تو امید ہے کہ اللہ تعالی بہتری کی کوئی صورت نکالے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے دوست کا جہاں تک معاملہ ہے، اس میں آپ کو نہایت ہی حکمت اور تحمل سے کام لینا چاہیے۔ جو شخص اللہ تعالی کی راہ سے دور ہو، اسے اس کی راہ تک لانا ایک بہت ہی عظیم کام ہے اور اللہ تعالی آپ کو اس کا بہت بڑا اجر دے گا۔اس ضمن میں چند مشورے پیش خدمت ہیں۔
ا۔ فی الحال دوست کو شراب وغیرہ کے معاملے میں مت ٹوکیے، جو وہ کر رہا ہے، اسے کرنے دیجیے۔ ناراض ہونے سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہو گا۔ ہمارے بعض بھائی اس معاملے میں غیر ضروری سختی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان سے دور ہو کر مزید برائیوں میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ب۔ اس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت جگانے کی کوشش کیجیے۔ مثلاً کبھی یہ بات کریں کہ اللہ تعالی نے ہمیں کتنی نعمتیں دی ہیں۔ اگر وہ ایک ہاتھ ہی لے لے تو ہمارا کیا حال ہو۔ پانی کتنی بڑی نعمت ہے وغیرہ وغیرہ۔
ج۔ جب آپ دیکھیں کہ اس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت جاگ رہی ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ مثلاً اس نے ایک دن ایک نماز ہی پڑھ لی تو اسے ساتھ لے جا کر کھانا کھلائیے۔ اس کی تعریف کیجیے۔
د۔ کوشش کیجیے کہ آہستہ آہستہ اس کی نماز کی عادت ریگولر ہو جائے اور وہ نیک ماحول میں آنا شروع ہو جائے۔ جب یہ پراسیس شروع ہو گیا تو انشاء اللہ جلد ہی برائیوں کی عادتیں چھوٹنا شروع ہو جائیں گی۔
ہ۔ اس عمل میں آپ نے جلدی ہرگز نہیں کرنی ہے بلکہ اس وقت کا انتظار کیجیے جب یہ جذبہ اس کے اندر سے اٹھے۔ باہر سے مسلط کی گئی کسی چیز کو انسان کبھی دل سے قبول نہیں کرتا ہے۔ اس موضوع پر آپ میری ایک تحریر دعوت دین سے متعلق دیکھ لیجیے۔ اس میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔
اپنی دعاؤں میں مجھے بھی یاد رکھیے۔ آپ اس ماحول میں رہ کر دینی حدود کا خیال رکھ رہے ہیں، اس وجہ سے اللہ تعالی آپ کی دعاؤں کو زیادہ قبول فرمائے گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.