کیا جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا دین کا تقاضا ہے؟

مکرمی مبشر نذیر صاحب

السلام علیکم و رحمۃ اللہ

امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔

آج ہی آپ کا ایک مضمون شادی اور عورت کے عنوان سے نظر سے گزرا، پڑھنے کے بعد ایک سوال ذہن میں آیا سوچا آپ سے پوچھ لیا جائے ۔ آپ نے لکھا کہ یہ خاتون اگر شادی کے بعد اپنے شوہر سے علیحدہ گھر کا مطالبہ کرے تو معاشرے میں خاتون کی اس بات کو معیوب بات سمجھا جاتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا عورت کو ہر حال میں علیحدہ گھر دینا لازمی ہے؟ کیا اسلامی تعلیمات میں ایسا کوئی واضح حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک سے زائد شادیاں کیں۔ کیا ہر زوجہ کو علیحدہ گھر دیا گیا تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک سے زائد شادیاں کیں ۔ ان کی کیا ترتیب تھی ۔۔ کیا ہر بیوی کے لیے علیحدہ گھر کا انتطام  ہوا کرتا تھا؟اگر کچھ مستند اور واضح مثالیں مل جائیں تو میرے لیے باعث تسلی و تشفی ہو گا۔

میرے ذہن میں یہ سوالات مشترکہ خاندانی نظام اور علیحدہ گھر کے تناظر میں آئے ہیں۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس موضوع پر جو معلومات ہو وہ مستند اور واضح ہو تا کہ اگر کسی کو بتائی جائے تو پورے اعتماد کے ساتھ بتائی جائے اور اسلام کا معاشرتی و خاندانی نظام سمجھایا جا سکے۔

و السلام علیکم

راجہ اکرام الحق

اسلام آباد، پاکستان

ڈئیر راجہ صاحب

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

اللہ تعالی کا شکر ہے۔ آپ سنائیے کیا احوال ہیں؟ اگر اپنا تفصیلی تعارف کروا دیجیے تو نوازش ہو گی۔

یہ مضمون میرا نہیں بلکہ ایک د وست ریحان صاحب کا ہے۔ عہد رسالت کے عرب معاشرے میں یہ عام رواج تھا کہ شادی کے بعد لوگ الگ گھر میں رہتے تھے۔ تمام امہات المومنین رضی اللہ عنہن کے الگ الگ گھر تھے جو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھے۔ موجودہ دور میں ان سب کو روضہ انور کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی معاملہ تھا۔

قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں ایسا حکم نہیں ملتا ہے کہ ہر بیوی کے لیے علیحدہ گھر ہونا ضروری ہے۔ بس بیوی کی تمام ضروریات پورا کرنے کا حکم ہے۔ علیحدہ گھر کا تعلق معاشرت سے ہے۔ عرب معاشروں میں آج بھی رواج ہے کہ علیحدہ گھر لیے بغیر شادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ برصغیر کے معاشرے میں جائنٹ فیملی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میاں بیوی باہمی مشورے سے طے کر سکتے ہیں کہ انہیں کس طرح رہنا ہے۔ شریعت نے یہ پابندی نہیں لگائی کہ الگ گھر لے کر دینا ہے یا مشترک خاندان ہی میں رہنا ہے۔ اس کا فیصلہ حالات کے لحاظ سے لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔

جہاں تک میں نے اس نظام کا مطالعہ کیا ہے تو جائنٹ فیملی میں فوائد کی نسبت مسائل زیادہ ہیں اور لڑائی جھگڑے زیادہ ہوتے ہیں۔ ساس بہو اور نند بھابی کی جنگیں عام ہیں جبکہ عرب معاشروں میں ایسا بہت کم ہے۔ ان کے ہاں اچھے لوگ والدین کو اپنے قریب (ہو سکے تو ایک ہی بلڈنگ میں) الگ گھر لے دیتے ہیں اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

اگر ہمارے ہاں بھی والدین شادی ہوتے ہی بیٹے اور بہو کو الگ کر دیں جہاں وہ اپنی مرضی سے زندگی بسر کر سکیں تو باہمی جھگڑے بہت کم ہو سکتے ہیں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

My opinion is that this also should be added into the answer that it is upon the couple that either they prefer to live in a joint family or not but Islam has given a right to married women that she should at least have her own room, which should be under her custody; rest of facilities can vary according to their financial conditions.

Abdul Rauf, Dubai, UAE

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

https://mubashirnazir.org/category/islamic-studies/islamic-studies-english/quranic-studies-english-lectures/

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہنا دین کا تقاضا ہے؟
Scroll to top