کیا نوکری کرنا غلامی ہے؟

سوال: السلام علیکم

کیا حال ہے آپ کا؟ امید کرتا ہوں کہ آپ ٹھیک ہوں گے۔  آپ نے

 مسلم دنیا اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی

 کے بارے میں کتاب لکھی ہے، وہ مجھے بہت پسند آئی ہے۔ میں نے آپ کی ویب سائٹ سے اس کا پرنٹ نکال کر کتاب بنائی ہے اور میں اسے پڑھتا رہتا ہوں۔  میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو لوگ دوسروں کے پاس جاب کرتے ہیں اور سارا دن کام کرتے ہیں اور مجبوراً انہیں نہ چاہتے ہوئے بھی دوسروں کی نوکری کرنی پڑتی ہے اور تو کیا یہ غلامی کی ایک شکل نہیں ہے؟  آدمی نہ بھی چاہے تو اسے باس کا ہر کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرنی پڑتی ہے اور روز ایک ہی روٹین سے اور ٹائم پر جاب پر جانا پڑتا ہے۔ اس طرح اسے اللہ کیسے یاد آئے؟ کیونکہ اسے ہر وقت مالک کے سامنے ایکٹو رہنا پڑتا ہے اور مالک کے سامنے آٹھ نو گھنٹے پوری توجہ سے کام کرنا پڑتا ہے۔ کیا اس سے اچھا اپنا کاروبار نہیں؟ ضروری تو نہیں کہ آدمی کا بہت بڑا کاروبار ہو، ایک چھوٹی سی دکان بھی تو دوسروں کی جاب سے بہتر ہے۔ یہاں پر والدین بھی بچوں کے ذہن میں یہ ڈالتے ہیں کہ پڑھ لکھ کر جاب ہی کرنی ہے۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ پڑھ کر اپنا کوئی کام سٹارٹ کرنا ہے۔  آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

جواب: محترم بھائی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کی ای میل اور تاثرات کا بہت بہت شکریہ۔ یہ بات میرے لئے باعث مسرت ہے کہ ذہنی غلامی سے متعلق کتاب آپ کو پسند آئی ہے۔ مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ کسی کے پاس نوکری کرنا بڑی حد تک ۸۔۹ گھنٹے کی غلامی ہے۔ نچلی سطح کے ورکرز کے لئے یہ غلامی زیادہ سخت ہے۔ اس سے استثنا بعض ان نوکریوں کو حاصل ہے جو اپنی نیچر میں ہائیلی پروفیشنل یا ٹیکنیکل ہیں۔ اس غلامی میں اور عام غلامی میں فرق یہ ہے کہ آپ جب چاہیں اپنے مالک سے نجات حاصل کر سکتے ہیں مگر عام غلامی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ یہ کہنا زیادہ درست ہو گا کہ ملازمت، غلامی اور آزادی کے درمیان کی ایک چیز ہے۔

اپنے کاروبار میں بڑی حد تک انسان اس قسم کی غلامی سے بچ جاتا ہے مگر اس میں ایک دوسری قسم کی مشکل ہے اور وہ یہ کہ آپ کو اپنے کسٹمرز کو ہر صورت میں مطمئن کرنا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ملازمت میں تو لوگ ۸۔۹ گھنٹے بعد فارغ ہو جاتے ہیں مگر کاروبار میں انہیں سولہ سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔

اصل میں اللہ تعالی نے اس دنیا کا نظام کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہماری روزی روٹی کا انحصار دوسروں پر ہے اور یہی ہمارا امتحان ہے۔ میں نے خود اس غلامی کو اپنے کیرئیر کے آغاز میں بڑی شدت سے محسوس کیا اور اس سے نجات حاصل کرنے کے لئے اپنی تعلیمی قابلیت میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ اب اگرچہ میں ملازمت کر رہا ہوں مگر غلامی کی سی کیفیت نہیں ہے۔

اگر آپ نے میری کتاب اسلام میں ذہنی و جسمانی غلامی کے انسداد کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو تو اس مسئلے پر میں نے باب 18 میں سرمایہ دارانہ غلامی کے عنوان کے تحت بحث کی ہے۔ اس کا لنک یہ ہے۔

اپنے تاثرات سے آگاہ کرتے رہیے اور دعاؤں میں یاد رکھیے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

https://mubashirnazir.org/category/islamic-studies/islamic-studies-english/quranic-studies-english-lectures/

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا نوکری کرنا غلامی ہے؟
Scroll to top