اسلام اور غلامی کے موضوع پر مسلم علماء نے تو کم ہی کچھ لکھا ہے۔ اس کے برعکس اہل مغرب کے ان اہل علم، جنہوں نے اسلام کے مطالعے کو اپنی زندگیوں کا مقصد بنا لیا ہے، نے اس حوالے سے بہت سی کتب اور آرٹیکل تحریر کئے ہیں۔ یہ علماء مستشرقین اورینٹلسٹ کے ایک بڑے طبقے کا حصہ ہیں جن کی تحقیقات کا موضوع مشرقی علوم ہوا کرتے ہیں۔
مستشرقین دو طرح کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو اپنے مذہبی اور قومی مقاصد کے پیش نظر اسلام اور دیگر مشرقی مذاہب کا مطالعہ تعصب کی عینک سے کرتے ہیں۔ یہ حضرات اہل مشرق کی ہر قسم کی مثبت باتوں کو جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور منفی بات کو لے کر اس کا بھرپور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی منفی بات نہ مل سکے تو کسی بات کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر اسے غلط معنی پہناتے ہیں اور پھر اس سے غلط نتائج اخذ کرتے ہوئے اپنی تقریر و تحریر کے زور پر اسے دنیا میں پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری قسم کے مستشرقین وہ ہیں جو تعصب سے ہٹ کر خالص علمی انداز میں اہل مشرق کے علوم کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارے دین نے ہمیں یہی سکھایا ہے کہ ہم کسی بھی شخص کے کے بارے میں، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، بدگمانی کا رویہ اختیار نہ کریں، اس وجہ سے ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ کون سے مستشرق کی نیت اور ارادہ کیا تھا۔
یہاں پر ہم نیت کی بحث میں پڑے بغیر دور جدید کے ایک مشہور مستشرق اسکالر کے اقتباس پر اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔
The Qur’an, like the Old and the New Testaments, assumes the existence of slavery. It regulates the practice of the institution and thus implicitly accepts it. The Prophet Muhammad and those of his Companions who could afford it themselves owned slaves; some of them acquired more by conquest. (Lewis Bernard, Race & Slavery in the Middle East)
عہد نامہ قدیم و جدید کی طرح قرآن یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ غلامی موجود ہے۔ اس نے اس ادارے کی پریکٹس کو قانونی دائرے میں لانے کے لئے اقدامات کئے اور اس طرح سے اسے قبول کر لیا۔ محمد رسول اللہ اور ان کے وہ صحابہ، جو غلام رکھنا افورڈ کر سکتے تھے، غلاموں کے مالک تھے۔ ان میں سے کچھ فتوحات کے نتیجے میں غلام بنتے تھے۔
فاضل مصنف نے یہ بیان کرنے کے بعد ان اقدامات کی ایک نامکمل فہرست بیان کی ہے جو اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے کئے۔ مکمل تفصیلات کی عدم موجودگی کو ہم فاضل مصنف کا نہیں بلکہ اپنا قصور قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمیں اپنے قصور کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہم نے غلامی سے متعلق اسلام کے اقدامات کو دنیا کے سامنے مکمل طریقے سے پیش نہیں کیا۔
غلاموں کی آزادی اور ان کی حالت بہتر بنانے کے اقدامات کی تفصیلات حدیث، رجال اور تاریخ کی کتب میں بکھری پڑی ہیں۔ قرون وسطی میں کسی عالم نے اکٹھا کر کے دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
انیسویں صدی کے بعض اہل علم نے ایسا کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے آیات و احادیث سے غلط معنی اخذ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام نے تو غلامی کو مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔ ظاہر ہے یہ نظریہ خلاف حقیقت ہونے اور اسلاف کے نقطہ نظر سے مختلف ہونے کے باعث قبول نہیں کیا جا سکا۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر غلامی کے خلاف اسلام کے اقدامات کی مکمل تفصیلات فاضل مصنف کے سامنے پیش کی جائیں اور انہوں نے علمی دیانت کی روایت کو ترک نہ کیا تو وہ اپنی عبارت میں ترمیم کر کے اسے اس طرح سے لکھیں گے۔
The Qur’an, like the Old and the New Testaments, assumes the existence of slavery. It explicitly took serious steps to abolish the slavery. The Prophet Muhammad and those of his Companions who could afford it themselves owned slaves but manumitted all of them and set a glorious example for others to manumit their slaves.
عہد نامہ قدیم و جدید کی طرح قرآن یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ غلامی موجود ہے۔ اس نے اس ادارے کو ختم کرنے کے لئے ایسے واضح اقدامات کئے۔ محمد رسول اللہ اور ان کے وہ ساتھی، جو غلام رکھنا افورڈ کر سکتے تھے، غلاموں کے مالک تھے لیکن انہوں نے اپنے تمام غلام آزاد کئے اور دوسروں کے لئے ایک عظیم مثال قائم کر دی تاکہ وہ بھی اپنے غلاموں کو آزاد کر دیں۔
انہی مستشرقین میں ایک برطانیہ کے ولیم گرویز کلارنس اسمتھ بھی ہیں۔ انہوں نے غلامی کے خلاف اسلامی اقدامات پر قابل قدر کام کیا ہے اور اس ضمن میں ایسی معلومات فراہم کی ہیں جس کی طرف عام طور پر مسلم علماء کی نظر بھی نہیں گئی۔ انہوں نے بھرپور دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام نے غلامی کے خلاف بھرپور اقدامات کئے ہیں۔ ان کی تحریریں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ تادم تحریر، ان کی اس موضوع پر دو تحریریں لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ پولیٹیکل سائنس کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ایک بڑی کتاب بھی ہے جو ہارڈ کاپی کی صورت میں ایمیزان ڈاٹ کام وغیرہ پر دستیاب ہے۔
“Abolition of Slavery in Islam”
اسی طرح پچھلی صدی کے عظیم مستشرق ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے اپنی کتاب میں تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ اسلام کی دعوت کو قبول کرنے والے ابتدائی لوگ غلام ہی تھے۔
“Preaching of Islam”
اس کے بعد مدینہ میں کثیر تعداد میں غلاموں نے اسلام قبول کیا۔ مسلم اسپین میں جب اسلام پہنچا تو اگرچہ اس کا آئیڈیل دور ختم ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود اسلام قبول کرنے والوں کی بڑی تعداد غلاموں پر مشتمل تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام غلامی کو برقرار رکھنے کا اتنا بڑا حامی ہے تو پھر اس کی دعوت کو قبول کرنے میں غلام ہی کیوں پیش پیش تھے؟ ہم تمام مستشرقین کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ خود اپنے ہی طبقے کے افراد کلارنس اسمتھ اور آرنلڈ کی کتب کا مطالعہ کریں اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
رہے وہ مستشرقین جو علمی دیانت سے عاری ہیں اور مخصوص سیاسی یا مذہبی مفادات کے تحت دوسروں کی ہر بات کو تعصب کی عینک سے دیکھنا چاہتے ہیں، تو ان کا حل صرف یہی ہے ہم سچائی کو دنیا کے سامنے اس درجے میں پیش کر دیں کہ کسی کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ رہ جائے۔ سورج کے طلوع ہونے کے بعد کوئی لاکھ چیختا رہے کہ ‘بڑا اندھیرا ہے’، کوئی اس کی بات پر یقین نہ کرے گا۔ اس ضمن میں ہمارے لوگ جو احتجاج اور ہنگامے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، وہ درست نہیں ہے۔ اس طریقے سے تو ہم خود ان لوگوں کی غلط بات کی توثیق اپنے طرز عمل سے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں علمی اور مثبت انداز میں اپنی بات کو علم کی طاقت سے پیش کرنا چاہیے۔ اس کے بعد یہ فتنے خود بخود ختم ہوتے چلے جائیں گے۔
اسی جذبے کے تحت یہ کتاب پیش کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے یہ بھی ایک معمولی سے طالب علم کا انسانی کام ہے اور اس میں بہت سی کوتاہیاں باقی رہ گئی ہوں گی۔ امید ہے کہ مستقبل کے اہل علم ان کوتاہیوں کو دور کرتے ہوئے اس کام کو مزید بہتر انداز میں پیش کر سکیں گے۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.