عہد رسالت میں بنو قریظہ کو غلام کیوں بنایا گیا؟

بنو قریظہ یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو مدینہ میں آباد تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی ہجرت کے نتیجے میں مدینہ میں حکومت قائم ہوئی تو مدینہ کے تمام یہودیوں نے بالاتفاق آپ کو سربراہ حکومت تسلیم کر لیا۔ انہیں مکمل مذہبی، معاشرتی اور معاشی آزادی دی گئی۔ دیگر یہودی قبائل کے برعکس بنو قریظہ پانچ سال تک اس معاہدے پر قائم رہے اور انہیں مکمل آزادی حاصل رہی۔

شروع میں پورے عرب کے قبائل نے مل کر 10,000 کی ایک فوج کی صورت میں مدینہ پر حملہ کر دیا۔ یہ تعداد شاید اب کم لگے لیکن اس وقت عربوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنا بڑا عرب لشکر اکٹھا ہوا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمان صرف 3000 تھے۔  معاہدے کی رو سے بنو قریظہ کے لئے لازم تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا۔ اس پر ان سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔

          اس نازک موقع پر جب عرب کا سب سے بڑا لشکر مدینہ پر حملہ آور تھا، بنو قریظہ نے صلح کا معاہدہ توڑ کر کفار کے لشکر کو رسد پہنچانا شروع کر دی اور خود حملے کی تیاری شروع کر دی۔ ان کی تیاریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہتھیاروں میں 1500 تلواریں، 2000 نیزے، 300 زرہیں اور 500 ڈھالیں شامل تھیں۔

          اللہ تعالی نے اس موقع پر اپنی قدرتی طاقتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کی۔ تیز آندھی، طوفان اور سردی کے باعث کفار کا لشکر تتر بتر ہو گیا اور ان کے حوصلے پست ہو گئے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اب یہ لوگ کبھی مدینہ پر حملہ آور نہ ہو سکیں گے۔

          بنو قریظہ نے عین اس لمحے عہد شکنی کی تھی جب مدینہ پر پورے عرب کے لشکر نے حملہ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے یہ لوگ سخت ترین سزا کے مستحق تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ ان کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ بنو قریظہ کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین تجاویز پیش کیں: اسلام قبول کر لیا جائے، یا ہفتے کے دن مسلمانوں پر اچانک حملہ کیا جائے (یہودی مذہب میں ہفتے کے دن کوئی کام کرنا منع تھا) یا پھر اپنے بیوی بچوں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر کے مسلمانوں پر حملہ کر کے کٹ مرا جائے۔ انہوں نے کوئی تجویز قبول نہ کی۔

          بنو قریظہ میں سے چند افراد اپنی قوم کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے۔ ان کا تفصیلی ذکر ابن سعد نے طبقات الکبری میں کیا ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو عہد شکنی کے خلاف تھے۔ ان سب کے جان و مال کو محفوظ قرار دے دیا گیا۔ ان میں ابو سعد بن وھب النضری، رفاعہ بن سموال القرظی، ثعلبہ بن سعیہ القرظی، اسید بن سعیہ القرظی، اسد بن عبید القرظی اور عمرو بن سعدی شامل تھے۔

          چند ہی دن میں بنو قریظہ نے اس شرط پر ہتھیار ڈال دیےکہ ان کا فیصلہ قبیلہ اوس کے سردار سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کریں گے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے تورات کے قانون کے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے تمام لڑنے والے مردوں کو قتل کیا جائے اور خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ بنو قریظہ کے جن افراد نے اسلام قبول کیا تھا یا عہد شکنی میں حصہ نہ لیا تھا، انہیں کوئی سزا نہ دی گئی۔

          یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنو قریظہ کو اتنی سخت سزا کیوں دی گئی؟ اس کی وجہ بالکل واضح ہے کہ پورے عرب نے مسلمانوں پر حملہ کر رکھا ہے۔ حلیف ہونے کے ناتے بنو قریظہ کا یہ فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی مدد کرتے یا کم از کم غیر جانبدار رہتے۔ انہوں نے اس نازک موقع پر اپنا عہد توڑ کر مسلمانوں پر حملے کی تیاری شروع کر دی۔ اگر قدرتی آفت کے نتیجے میں کفار کا لشکر واپس نہ ہوتا تو مسلمان دو طرف سے حملے کی لپیٹ میں آ کر تہہ تیغ ہو جاتے۔

          اس عہد شکنی کی سزا انہیں ان کے اپنے مقرر کردہ جج نے انہی کے اپنے قانون کے مطابق دی تھی جس کی تائید اللہ تعالی نے خود وحی کے ذریعے کر دی تھی۔ اس سخت سزا کی بنیادی طور پر وجہ یہی تھی کہ اس قوم پر اللہ کے رسول سے عہد شکنی کے باعث ان پر اسی طرز کا عذاب مسلط کیا گیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے قوم عاد، ثمود، مدائن، سدوم اور خود بنی اسرائیل پر مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں کے ساتھ ان کے معاہدات رہے ہیں، وہ خود ان پر معاہدات کی خلاف ورزی کی صورت میں یہی سزا مسلط کرتے رہے ہیں۔ ہم یہاں تورات کی متعلقہ آیات نقل کر رہے ہیں:

اگر وہ صلح کرنے سے انکار کریں اور لڑائی پر اتر آئیں تو تم اس شہر کا محاصرہ کر لینا اور جب خداوند تمہارا خدا اسے تمہارے ہاتھ میں دے دے تو اس میں سے سب مردوں کو تلوار سے قتل کر دینا لیکن عورتوں، بچوں اور مویشیوں اور اس شہر کی دوسری چیزوں کو تم مال غنیمت کے طور پر اپنے لئے لے لینا۔ (کتاب استثنا، باب 20)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اس معاملے میں قرآن کے نرم قانون کی بجائے تورات کے سخت قانون پر عمل کیوں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ تعالی کے ایک خصوصی حکم کے تحت ہوا تھا۔ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کی تائید اللہ تعالی کی طرف سے کر دی گئی تھی۔

          قوموں پر عذاب سے متعلق اللہ تعالی کا یہ قانون ہے کہ وہ جس قوم کا انتخاب کر کے اس کی طرف اپنا رسول مبعوث فرما دے، اس قوم کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی۔ رسول اللہ تعالی کے خصوصی دلائل اور معجزات کے ذریعے اس قوم کے سامنے اس درجے میں اتمام حجت کر دیتا تھا کہ ان کے پاس ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوا کرتا تھا۔

          رسول کی دعوت کو اگر وہ قوم قبول کر لیتی تو اسے دنیا ہی میں سرفراز کر دیا جاتا تھا۔ سیدنا موسی، یونس اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔ اگر کوئی قوم رسول کی دعوت کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرتی تو انہیں آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی عذاب دے دیا جاتا تھا۔ سیدنا نوح، ہود، صالح، ابراہیم، لوط اور شعیب علیہم الصلوۃ والسلام کی اقوام اس کی مثال ہیں۔ اس طریقے سے یہ اقوام اللہ تعالی کے جزا و سزا کے آخرت کے قانون کا ایک عملی ثبوت بن جایا کرتی تھیں۔ یہ قانون اتنا واضح کر دیا گیا ہے کہ تورات اور قرآن کا بنیادی موضوع ہی یہی قانون ہے۔ اس موضوع پر ہم نے ان اقوام کے علاقوں سے متعلق اپنے سفرنامے میں تفصیل سے بحث کی ہے۔

          اگر رسول کے پیروکار کم تعداد میں ہوتے تو ایمان نہ لانے والوں پر یہ عذاب قدرتی آفات کی صورت میں آیا کرتا تھا۔ اگر ان پیروکاروں کی تعداد زیادہ ہوتی تو پھر یہ عذاب رسول کے پیروکار، جنہیں یہ اقوام نہایت حقیر سمجھتی تھیں، کی تلواروں کے ذریعے آیا کرتا تھا۔ سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل کی تلواروں کے ذریعے یہ عذاب موجودہ اردن، شام اور فلسطین کی اقوام پر نازل ہوا۔

          محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقابلے میں سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والے گروہوں میں سے بنی اسماعیل کے مشرکین عرب کو موت کی سزا دی گئی۔ اگرچہ اس سزا پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی کیونکہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا جبکہ عرب اور روم کے یہود و نصاری پر یہ سزا عائد کی گئی کہ ان کی حکومت کو ختم کر دیا جائے۔

          انہی یہود کا ایک گروہ بنو قریظہ تھے جس نے رسول کے مقابلے میں سرکشی کی انتہا کر دی تھی جس کی وجہ سے ان پر وہی سزا نافذ کی گئی جو اصلاً مشرکین بنی اسماعیل کے لئے تھے۔ دنیا میں جزا و سزا کا یہ قانون محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم پر نبوت کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ یہ ایک استثنائی قانون تھا اور اس سے اسلام کا دائمی قانون اخذ کرنا درست طرز عمل نہیں ہے۔

          بنو قریظہ کے بیوی بچوں کو بھی ہمیشہ کے لئے غلام نہ بنایا گیا تھا۔ ان سب کو مکاتبت کا پورا حق حاصل تھا۔ ان میں سے ایک خاتون ریحانہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے حصے میں آئی تھیں۔ آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا اور ان کا مہر بارہ اوقیہ چاندی مقرر فرمایا جو کہ دیگر ازواج مطہرات کا مہر بھی تھا۔ (دیکھئے طبقات ابن سعد ذکر ازواج النبی)۔

          اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ کرام میں ان خواتین اور بچوں کو آزاد کرنے کی ترغیب پیدا ہوئی اور انہیں آہستہ آہستہ آزاد کر دیا گیا۔ بہت سے صحابہ نے ان خواتین کو آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ بنو قریظہ کی جو نسل مسلم معاشرے میں موجود تھی، ان میں عطیہ القرظی ، عبدالرحمٰن القرظی، محمد بن کعب القرظی اور رفاعہ القرظی رضی اللہ عنہم کا ذکر ملتا ہے۔ ان کا ذکر اس لئے بطور خاص ملتا ہے کہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی حدیث کی تعلیم میں مشغول رہے ہیں۔

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

عہد رسالت میں بنو قریظہ کو غلام کیوں بنایا گیا؟
Scroll to top