اس کا جواب ہم تفصیل سے باب 14 میں بیان کر چکے ہیں۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مصلحین، علماء اور صوفیاء خلافت راشدہ کے بعد، حکمرانوں کی کرپشن اور ظلم کےباعث ان سے دوری اختیار کرتے چلے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے ساتھ زیادہ تر وہی لوگ رہ گئے جو اگرچہ عالم کہلاتے تھے مگر درحقیقت مفاد پرست تھے۔
ایسے مخلص مصلحین جو حکومتی نظام میں کسی نہ کسی درجے میں شریک ہو جایا کرتے تھے نے حکومتوں کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی۔ اسی طرح جو علماء حکومت سے دور تھے، انہوں نے بھی حکومتوں کی اصلاح کے لئے ہر ممکن جدوجہد کرنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر غلامی سے متعلق معاملات میں ہمارے مصلحین نے جو کوششیں کیں، ان میں سے مشہور اہل علم کی کوششوں کا تذکرہ بطور مثال ہم باب 13 ہی میں کر چکے ہیں۔ ان میں عمر بن عبدالعزیز، جاحظ، ابو یعلی الفراء، ابو الحسن الماوردی، غزالی، ابن جوزی، عبدالرحمٰن بن نصر الشیرزی، ابن الاخوۃ، حافظ ذہبی، ابن تیمیہ اور ابن قیم شامل ہیں۔ یہ کاوشیں انہی بڑے اہل علم تک محدود نہ رہی تھیں بلکہ مختلف درجے کے علماء کا ایک بہت بڑا طبقہ تھا جو اصلاحات کے لئے سرگرم عمل تھا۔
ان جلیل القدر اہل علم کی کاوشوں کے باوجود بہرحال ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دور صحابہ کے بعد سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے سوا باقی حضرات کے ہاں غلامی کے مکمل خاتمے کا کوئی وژن موجود نہ تھا۔ ان کی کاوشوں کا محور و مرکز غلاموں کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ مسلم دنیا میں غلاموں کی حالت باقی دنیا کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور ان پر کم از کم مسلم سلطنت کے علاقے میں ایسا ظلم بھی بالعموم نہ کیا جاتا تھا کہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر میں اس کے خلاف کوئی تحریک پیدا ہوتی۔
جو غلام آزاد ہونا چاہتا، اس کے لئے مکاتبت کا ادارہ بھی موجود رہا ہے۔ زکوۃ کی آمدنی سے مکاتبین کی مدد بھی کی جاتی رہی ہے۔ معاشرے کے نیک لوگ، جو کہ بہت بڑی تعداد میں موجود تھے، غلاموں کو آزاد کرنے کے لئے کوشاں رہا کرتے تھے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ غلاموں کو خاندان کا حصہ ہی سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ ویسا ہی رویہ رکھا جاتا تھا جیسا کہ باپ بیٹے سے رکھتا ہے۔
مسلم دنیا میں غلامی کے خلاف ایک موثر تحریک نہ ہونے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ بحیثیت قوم مسلمان اندھی تقلید اور پیری مریدی کے سلسلے کی وجہ سے نفسیاتی غلامی کا شکار ہو چکے تھے اور ان کے ہاں آزادی فکر کی کوئی تحریک بھی موجود نہ تھی۔ ان حالات میں جو کچھ ہمارے مصلحین کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ اس سے زیادہ کی توقع رکھنا اس دور کے معروضی حالات اور زمینی حقائق کے تحت ایک مشکل کام تھا۔
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.