پیارے بھائی فرعون موسی کے بارے میں فرمان الہی ہے کہ:۔
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ۔
آج ہم تمہارے اس بدن کو بچا لیں گے تاکہ وہ تمہارے بعد میں آنے والوں کے لیے نشانی بنے۔ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ (یونس 10:92)
سوال یہ ہے کہ ایک چیز کی صحت ہی مشکوک ہے تو اس کو عبرت کیسے قرار دیا جاسکتا ہے، اعنی میرے علم کے مطابق فرعون موسی کے حوالے سے کنفرم نہیں کہ اس کی کونسی ممی ہے۔
دیکھیں رب تعالی کا ہی ارشاد ہے کہ “یہ لاریب کتاب ہے۔” اور اس کے فورا بعد فرمایا کہ ” یہ متقین کے لیے ھدایت ہے۔” گویا کسی تاریخی چیز سے نصیحت تب ہے لی جا سکتی ہے جب وہ مشکوک نہ ہے۔
محمد شکیل
رینالا خورد، پاکستان
ڈئیر شکیل بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آیت کریمہ کے سیاق و سباق کو دیکھیے تو یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔ اصلاً جن لوگوں کے لیے فرعون کو عبرت بنانا مقصود تھا، وہ وہی تھے جو فرعون کے زمانے میں موجود تھے اور اس کے بعد باقی بچ گئے تھے۔ ان کے لیے اللہ تعالی نے اس کی لاش کو محفوظ کر لیا اور حمامات فرعون نامی مقام پر یہ لاش انہیں تیرتی ملی۔ آیت میں خلفک سے یہی مراد ہیں۔ میں نے خود مصر کے سفر میں حمامات فرعون کا یہ مقام دیکھا ہے۔ اس لیے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔تفصیل آپ سفر نامے میں پڑھ سکتے ہیں۔
جہاں تک ہم لوگوں کے لیے عبرت کا تعلق ہے تو ہم اس کے واقعے سے بھی عبرت لیتے ہیں اور بہت سے فراعین کی ممیاں محفوظ ہیں، ان سے بھی عبرت پکڑتے ہیں۔ اصل میں بعض مفسرین نے بڑے جوش سے اس بات کا اطلاق قیامت تک کے لیے کر دیا، جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی۔
ویسے اختلاف اس میں نہیں ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام والے فرعون کی لاش محفوظ ہے یا نہیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ کون سا فرعون تھا۔ بعض لوگ اس کا نام رعمسیس کہتے ہیں اور بعض منفتاح۔ ان دونوں کی ممیاں قاہرہ کے عجائب گھر میں ہیں اور میں نے خود دیکھی ہیں۔ عبرت تو دونوں ہی کو دیکھ کر حاصل کی جا سکتی ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.